کچے گھروں میں دیپ جلاتا نہیں کوئی
بڑے بڑے شہروں میں انسانی حقوق کی تنظیمیں سات ستارہ اور پانچ ستارہ ہوٹلوں میں محفلیں سجاتی ہیں
گاؤں میں زندگی ٹھہری ہوئی سی تھی۔ اللہ کی زمین اب اللہ کی نہیں جاگیردار کی تھی، اس نے حکم چلانے کے لیے اللہ کے بندوں کو اپنے بندے بنا رکھا تھا، وہ زندہ رہیں بس اتنا ہی جاگیردار نے اپنے بندوں کو دے رکھا تھا۔
سر چھپانے کو ایک کچا کوٹھا اور چاکری کے بدلے پیٹ بھرنے کو چند دانے، نیلے پیلے لال کالے کپڑے پہنے کھیتوں میں کام کرتی عورتیں، لڑکی بالیاں، سردی ہو گرمی ہو، بارش ہو، طوفان ہو انھیں کام کرنا ہے۔ زمینی خداؤں کے کارندے کچے کوٹھوں کے مکینوں پر نظر رکھتے ہیں اور اوپر والے خدا نے ڈھیل دے رکھی ہے۔ وہ قیامت والے دن انصاف کرے گا اور کچے کوٹھے والوں پر آئے دن قیامتیں ٹوٹتی ہیں۔
بڑے بڑے شہروں میں انسانی حقوق کی تنظیمیں سات ستارہ اور پانچ ستارہ ہوٹلوں میں محفلیں سجاتی ہیں، باتیں کچے کوٹھوں اور ان کے مکینوں کی ہوتی ہیں اور کچے کوٹھے والے ان باتوں سے بے خبر زندگی گھسیٹنے میں مشغول رہتے ہیں، بھوک سے بلکتے بچے، دوا دارو سے محروم بیمار بوڑھے، آہستہ آہستہ موت کی طرف سرکتے لاغر جسم۔
اور گاؤں اگر تھر کا ہو، تو اور قیامت کہ یہاں کے مکین آسمان کو ہی تکتے رہتے ہیں۔ بادل آئے مینہ برسا تو زندگی رقص کرنے لگی ورنہ سوگ! لوگ باگ اپنے ڈھور ڈنگروں کے ساتھ کوچ کر جاتے ہیں۔ یہ تھر بھی قدرت نے خوب بنایا ہے۔ مٹھانی، میرپورخاص، صادق آباد، رحیم یار خان سے جیسلمیر بیکانیر تک ریت کا سمندر۔
تھر کی ثقافت ہمیشہ سے مصوروں کو اپنی طرف کھینچتی رہی ہے۔ مصوروں نے تھر کے رنگوں کو اپنے برش سے کینوس پر کیسے کیسے خوبصورت زاویوں سے بکھیرا ہے۔ جنھیں بڑے شہروں کے ٹھنڈے ٹھار (ایئرکنڈیشنڈ) گھروں اور آرٹ گیلریوں میں دیکھ کر آنکھوں میں تراوٹ اور جسم میں حرارت اتر آتی ہے۔
تھر کے رنگوں کو لاکھوں روپوں کے عوض بیچا جاتا ہے اور تھری عورتیں میلوں کا سفر طے کرکے پانی کے تین تین برتن سر پر اٹھائے گھروں کو لوٹتی ہیں۔ انھیں پتا نہیں کہ جس زمین پر ان کے گھاس پھوس کے گھروندے بنے ہوئے ہیں ان کے نیچے سونے سے بھی قیمتی خزانے چھپے ہوئے ہیں، مگر ان خزانوں کے مالک سات سمندر پار بیٹھے ہیں، جب وہ آئیں گے تب یہ خزانے نکال کر لے جائیں گے۔ یہ زمین تھر کی ہے، مگر خزانوں کے مالک دوسرے ہیں۔ واہ مولا! تیرے رنگ رنگ، تیرے رنگ رنگ۔
یہ کچے کوٹھوں والے یہ گھاس پھوس کے گھروندوں والے جو صدیوں سے یونہی رہتے چلے آرہے ہیں اپنے خزانوں سے بے خبر ریت پھانکتے، پیاس سے بے حال، آسمان کی طرف نظریں جمائے۔
ایسے ہی حالات کے مارے وہ بے چارے مزدور تھے جو رحیم یار خان اور بدین کے گاؤں سے اپنے بیوی بچوں، ماں، باپ، بہن، بھائیوں کے لیے چند روپے کمانے بلوچستان کے شہر تربت گئے تھے۔
سیاست سے بے خبر، مذہب اور عقیدے سے دور، محض روزی کمانے گھر سے نکلے تھے۔ تربت کے بیابان میں دن بھر مزدوری کرتے اور رات کو ٹینٹوں میں زمین پر چادریں بچھا کر سوجاتے کہ ایک رات انسانوں کے شکاری آئے اور ان غریب مزدوروں کا شکار کر ڈالا۔ اپنے شکار کی سو فیصد کامیابی کا جائزہ لینے کے لیے شکاریوں نے ٹارچیں روشن کیں اور تسلی کے بعد کہ بندے مرگئے ہیں واپس چلے گئے۔ ان مزدوروں کی حفاظت پر مامور آٹھ سرکاری بندوق بردار کچھ بھی نہ کرسکے اور اپنی بندوقوں سمیت بھاگ گئے۔
بیس مزدور شکار ہوگئے۔ رات گزری، صبح ہوئی، وزیر اعلیٰ بلوچستان تربت کے رہنے والے ڈاکٹر عبدالمالک آئے ایک جنازے کو کندھا دیا، ٹی وی پر دکھایا گیا، اخبارات میں تصویر چھپی۔ خبر ہے کہ فی کس شکار ہونے والے کو دس لاکھ روپیہ دیا جائے گا۔ بڑا اچھا ہے مگر ذرا سوچیے ان شکار ہونے والوں نے تو کبھی دس ہزار روپیہ بھی اکٹھا نہیں دیکھا ہوگا۔
یہ دس لاکھ کیسے سنبھالیں گے۔ بہتر ہے کہ یہ دس لاکھ نیشنل سیونگ میں رکھ دیا جائے۔ جہاں سے انھیں نو دس ہزار روپیہ ماہانہ ملتا رہے۔ علاوہ ازیں ان کے لیے ایک چھوٹا سا گھر اور بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں آگے آئیں۔ جالب کے مصرعے ذہن میں کلبلا رہے ہیں:
روٹی، کپڑا اور دوا
گھر رہنے کو چھوٹا سا
مفت مجھے تعلیم دلا
میں بھی مسلماں ہوں واللہ
پاکستان کا مطلب کیا
لاالہ الاللہ
مگر اصل مسئلہ تبھی حل ہوگا کہ جب یوں ہوگا کہ:
کھیت وڈیروں سے لے لو
ملیں لٹیروں سے لے لو
ملک اندھیروں سے لے لو
رہے نہ کوئی عالی جاہ
پاکستان کا مطلب کیا
لاالہ الاللہ
مرنے والے مرگئے، ان کے گھر والے نیلے پیلے، لال کالے کپڑے پہنے کمزور و ناتواں عورتیں بین ڈال رہی تھیں، ماتم کر رہی تھیں، مرد بھی آپس میں گلے لگ کر دھاڑیں مار رہے تھے۔ گھر کی چارپائیوں پر لاشیں پڑی تھیں، نماز جنازہ کے بعد لاشوں کو مقامی قبرستانوں میں سپرد خاک کردیا گیا۔
مگر یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوگا۔ رزق کی تلاش میں پھر شکار ہونے کے لیے مجبور مقہور نکلیں گے اور انسانی شکار کے شوقین بھی پھر نکلیں گے۔ یہ عہد ستم کب ختم ہوگا اور جو دکھ ہیں، غم ہیں وہ اپنی جگہ۔ مگر یوں انسانی شکار! اور غریب ہی شکار ہو رہے ہیں۔ بھئی شکاریو! بڑے بڑے ایوانوں، ہاؤسوں، محلوں، حویلیوں کا رخ کرو۔ جدید ہتھیاروں سے ہتھیار ٹکراؤ، شکار کا یوں مزہ لو تو بات ہے۔ یہ کیا کہ سوئے ہوئے نہتے غریب مزدوروں کو مار کے بھاگ گئے۔
جن کچے گھروں میں دیپ جلانے تھے ، ان کے ٹمٹماتے چراغ بھی ہم نے بجھا دیے۔ جہاں پہلے ہی بہت اندھیرا تھا، وہاں گھپ اندھیرا کردیا۔ جالب کے اشعار کو ذہن میں رکھ کر یہ کالم لکھنا شروع کیا تھا۔ وہی پیش کرتا ہوں:
ہم کو ستم گروں سے بچاتا نہیں کوئی
اور اب تو آسماں سے بھی آتا نہیں کوئی
صدیوں سے اس طرف ہے سیہ رات کا سماں
کچے گھروں میں دیپ جلاتا نہیں کوئی