سوا لاکھ کا ہاتھی

اگر فہم و فراست سے عاری وقت پر اپنی آنکھیں کھول کر رکھیں تو آج اس ملک کا یہ حال نہ ہو


انیس منصوری April 19, 2015
[email protected]

اگر فہم و فراست سے عاری وقت پر اپنی آنکھیں کھول کر رکھیں تو آج اس ملک کا یہ حال نہ ہو ۔ انھیں وقت پر سمجھ ہی نہیں آتا کہ ان کا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے ۔ یہ افواہوں کو سازش اورسازش کو افواہ قرار دیتے ہیں ۔

یہاں ہر اشتہارکے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے ۔ بظاہر نظر آنے والا مفاد آنکھوں کا دھوکا ہوتا ہے ۔ جان بوجھ کر ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ اصل حقیقت کبھی بھی سامنے نہ آسکے ۔ اور ہم ہر گلی اور نکڑ پر بیٹھ کر خود کو سیاست کا علامہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ ہر محلے کے نکڑ پر بیٹھنے والوں کی گفتگو سنیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے حکمران اور دنیا بھر کی حکومتیں کتنی لا علم ہیں ۔ اور اگر ان چائے کے کیفے پر بیٹھے لوگوں کو اگر حکومت دے دی جائے تو دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہو جائے ۔

کوئی شادی کی تقریب ہو یا پھر ماتم کرتے ہوئے جنازے آپ کو ہر جگہ یہ علامہ نظر آئیں گے جو سب کو بے وقوف اور خود کو دنیا کی قابل ترین مخلوق سمجھتے ہوں گے ۔ مگر ان کی آنکھوں پر لگی نرگسیت کی پٹی نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے ۔ یہ سب گلی محلوں اور اپنی بیٹھکوں پر اب یہ کہتے ہیں کہ ہمارے حکمران تو ہیں ہی ایسے جو ایک فون پر اپنا راستہ بدل لیتے ہیں ۔

یہ تو لیاقت علی خان کے متعلق بھی یہ ہی کہتے تھے کہ وہ روس جانے کی بجائے امریکا چلے گئے ۔ انھوں نے سب کے متعلق یہ ہی کہا ہے ۔کیا واقعی ہم نے ایک فون پر افغانستان پر چڑھائی کی حمایت کر دی تھی یا اب ایک دھمکی پر ہم یمن کے معاملے پر وضاحتیں کر رہے ہیں ؟

سازشیں اگر ہر شخص کو سمجھ آجاتیں تو یہاں اتنے علامہ نہ ہوتے۔ جنھوں نے کبھی یمن کی گلی میں رات نہیں دیکھی ہو گی لیکن ان کی باتیں سُن کر ایسا لگتا ہو گا کہ جیسے ان سے زیادہ یمن اور سعودیہ کو کوئی اور جانتا ہی نہیں ۔

اخبارات میں چھپنے والی کئی باتیں کئی سوالات اٹھاتی ہیں اور اکثر کسی بھی چیز کی تہہ میں چھپا ہوا مواد نظروں سے اوجھل ہی رہتا ہے۔ کیا حالیہ دنوں میں آنیوالی اس بات کو مان لیا جائے کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرا عظم کو امریکا نے قتل کروایا؟ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما یہ کہہ چکے ہیں کہ بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے اور پھانسی میں امریکا کا کردار تھا ۔

اُن کے خلاف اٹھائی گئی پوری تحریک کا خرچہ وہی سے آیا تھا ۔ اگر یہ سب ثبوت کی بنیاد پر ہے تو کیا پاکستان کوعالمی عدالتوں کے دروازے تک جانا چاہیے ؟ مگر میرا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ کیا حالیہ دنوں میں چلنے والی سازشوں کو ماضی کے تجربات کی بنیاد پر سمجھا جاسکتا ہے ؟ یا پھر ہم اپنا حال اور مستقبل اُسی لفظی علامہ کے سپرد کر دیں جو گلی محلے میں بیٹھے ہمارا سارا وقت کھا جاتے ہیں۔

آئیے پہلے ابھی منظر پر آنے والے انکشافات پر بات کر لیجیے ۔ مجھے یہ ضرور شک ہے کہ ابھی منظر پر آنے والی اسی پوری کہانی کو بھی اسکرپٹ کیا گیا ہے یا پھر اس کا مقصد کچھ اور ہے ؟ امریکی محکمہ خارجہ ایک خاص مدت کے بعد اپنے اُن تمام کاغذات کو منظر پر لاتا ہے جو کہ اُس وقت چھپائے گئے ہو تے ہیں ۔ اس حوالے سے ایک دستاویز کا بڑا چرچہ ہے ۔

جس کے مطابق یہ 1950 اور1951 کی بات ہے ۔ ایران میں شاہ کی حکومت ختم ہو چکی تھی وہ ہی شاہ جو کہ اُس وقت مغرب کا پسندیدہ حکمران تھا ۔ جس کے دور میں تیل کے ذخائر پر برطانیہ کا قبضہ تھا ۔ جیسے ہی ڈاکٹر مصدق کی حکومت آئی تو وہاں حالات بدل چکے تھے اور اُن کی پالیسی تھی کہ تیل کے تمام ذخائر کو حکومت ایران کے کنٹرول میں ہونا چاہیے ۔

جس پر جہاں پورا مغرب ناراض تھا وہی اُس وقت کا سوویت یونین اُس کی حمایت میں تھا ۔ اب وقت بدل چکا تھا اور برطانیہ کی جگہ امریکا سپر پاور کے طور پر ابھرا تھا۔امریکا کی خواہش تھی کہ اب برطانیہ کا کنٹرول ختم ہونے کے بعد ایران کے ذخائر پر اُس کا کنٹرول ہو جائے ۔اگر شروع سے آج تک دیکھا جائے تو یہ تیل ہی ہے جس نے ایران کو مغرب کا دوست کیا یا پھر دشمن ۔ ہمارے پڑوس میں افغانستان سے ہمارے تعلقات اچھے نہیں تھے جب کہ ایران سے تعلقات بہتر تھے ۔

اس وقت تک آپ خود جان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر کتنی ہمت اور صلاحیت ہے کہ ہم یمن پر ثالث بنیں لیکن اُس وقت جہاں ہم چین کو اقوام متحدہ میں طاقت دلا رہے تھے تو پڑوس میں بھی اپنا اثر دکھا رہے تھے ۔اب اس سارے معاملہ کو دیکھتے ہوئے اس رپورٹ کو دیکھیے جس میں کہا گیا ہے کہ اُس وقت امریکا کی خواہش تھی کہ ایران سے اچھے تعلقات قائم ہوجائیں اور تیل کے کنویں کے ٹھیکے اُسے مل جائیں اور اس کے لیے انھوں نے لیاقت علی خان سے رابطہ کیا اورکہا کہ وہ یہ ٹھیکہ دلانے کے لیے ایران میں اپنے دوستوں سے بات کرے ۔

اب یہاں آپ روک کر سوچیں کہ ایک طرف ڈاکٹر مصدق کا نعرہ ہی یہ تھا کہ وہ تیل کسی کو نہیں دیں گے اور دوسری طر ف سوویت یونین بھی اُس کے ساتھ تھا ۔اور جس کی اتنی سخت پالیسی ہو وہ کیا لیاقت علی خان کی بات مان لیتے ؟ خیر رپورٹ کے مطابق لیاقت علی خان نے دو ٹوک انداز میں یہ کہا کہ میں ایران سے دوستی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا اور نہ ہی اُن کے داخلی معاملے میں مداخلت کروں گا ؟ اس رپورٹ کے مطابق تو امریکا کو یہ جواب دے کر انھوں نے مخالفت مول لی لیکن دوسری طرف تو پاکستان میں اُس وقت سے لے کر آج تک یہ مشہور ہے کہ لیاقت علی خان کا جھکاؤ ہمیشہ امریکا کی طرف رہا ۔؟بات سمجھنے کی یہ ہے کہ پروپیگنڈا کچھ اور ہے اور معاملہ کچھ اور ہے ۔

اسی بات کو پاکستان کے داخلی اور خارجی صورتحال پر دیکھیں اور سمجھیں اس وقت بھی داخلی سطح پر تشہیر جس کی ہو رہی ہے معاملہ بالکل اُس کے برعکس ہے ۔

خیر اُس کے بعد ہوا یہ امریکا نے پورے پاکستان میں قاتل ڈھونڈنے کی کوشش کی اور انھیں ناکامی ملی ۔جس کے بعد انھوں نے قاتل کی تلاش افغانستان میں شروع کردی ؟ اب یہاں رک جائیں اور سوچیں کہ انھیں پورے پاکستان میں کرائے کا قاتل نہیں ملا ۔جب کہ اُس وقت ناراض لوگوں اور سیاست دانوں کی کمی بھی نہیں تھی ۔

پھر رپورٹ کے مطابق انھوں نے افغانستان کے شاہ کو یہ لالچ دیا کہ اگر تم کرائے کے قاتل کا بندوبست کرو گے تو ہم تمھیں صوبہ پختونستان(خیبر پختونخواہ) دے دیں گے ۔ شاہ اُس کے لیے تیار ہو گیا اور اُس نے منصوبہ یہ بنایا کہ ایک شخص اکبر لیاقت علی خان کو قتل کرے گا اور دوسرے لوگ ثبوت مٹانے کے لیے اکبر کو قتل کردیں گے ۔اس رپورٹ کے مطابق ایسا ہی ہوا ۔

امریکا کا ریکارڈ ہم سب کے سامنے ہے اس لیے اسے تسلیم بھی کر لیا جائے گا ۔ مگر میرے لیے کئی سوالات اہم ہیں کہ یہ رپورٹ جس طرح سے پاکستان میں پیش کی جا رہی ہے کیا یہ پوری کہانی اسی طرح ہے یا پھر واقعات کو ملایا گیا ہے ؟ اگر یہ رپورٹ ٹھیک ہے تو کیا پاکستانی حکومت کسی بین الاقوامی عدالت میں کیس داخل کرے گی کہ کیوں امریکا نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کروایا اور اس کیس سے جڑے تمام لوگوں کو سزا بھی مل سکے گی ؟

یا پاکستانی حکومت اور عوام کی نظر میں رات گئی بات گئی والا محاورہ ہوگا ؟یا یہ پوری کہانی بھی صرف ایک پروپیگینڈا ہے جو ہماری اور امریکی حکومت کو معلوم ہے ۔ تو پھر اس کے پیچھے کون ہے اورکیوں ہے ؟ اتنا وقت نہ تو میرے پاس ہو گا اور نہ ہی اس حکومت کے پاس کہ ہم ماضی کے مزاروں پر جائیں ۔ ہم تو بینظیر کا حالیہ قتل کا راز نہیں ڈھونڈ سکے اتنی دور کون جائے گا ۔

اس لیے آپ بھی ایک چائے کا کپ اٹھائیے اور گلی کی نکڑ پر بیٹھیے ، سیاسی علامہ کا تبصرہ سنیں جو آپ کو بتائے گا کہ ہماری حکومت نے کیسے یو ٹرن لیا اور کراچی کا فاتح کون ہوگا۔ اگر وہاں سے آپ یہ سمجھ جائیے کہ کیسے مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے تو مجھے بھی سمجھا دیجیے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں