گنتر گراس

گزشتہ سوموار کو جرمنی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا ایک بہت بڑے ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار سے محروم ہو گئی ہے۔


Amjad Islam Amjad April 19, 2015
[email protected]

لاہور: گزشتہ سوموار کو جرمنی کے ساتھ ساتھ پوری دنیا ایک بہت بڑے ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار سے محروم ہو گئی ہے۔ وفات کے وقت نوبل انعام یافتہ گنتر گراس کی عمر 87 برس تھی۔ 16 اکتوبر 1927ء کو پولینڈ کے شہر گڈانسک میں پیدا ہونیوالے اس عظیم ادیب کو 1999ء میں اس انعام سے نوازا گیا تھا۔

اس نے نہ صرف ہٹلر کا عروج و زوال اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ نوجوانی کے دنوں میں نازی ازم سے متاثر ہو کر دوسری جنگ عظیم میں روسی محاذ پر لڑائی میں بھی حصہ لیا تھا مگر اس کے بعد تادم مرگ وہ نازی ازم کی وجہ سے جرمن قوم اور انسانیت کو پہنچنے والے نقصانات پر لکھتا رہا اور اسے ہمیشہ خود سے اور اپنی نوجوانی کی ہم عصر نسل سے یہ گلہ رہا کہ انھوں نے اس کے خلاف بروقت آواز کیوں نہیں اٹھائی۔

1959ء میں شایع ہونے والے اس کے پہلے ناول The Tin Drum کے ساتھ ہی اس کی ادبی شہرت کا آغاز ہو گیا جسے بجا طور پر ایک عالمی کلاسیک اور ایک قوم کے مخصوص ذہنی رویوں کی بہترین دستاویز قرار دیا گیا۔ ظلم، زیادتی، بے انصافی اور انسانی حقوق کے استحصال سے متعلق اس کا قلم عمر بھر ننگی تلوار بنا رہا۔ اس نے اس دور میں بھی جب یہودی اور اسرائیلی حکومت تمام دنیا میں خود پر ہونیوالے فرضی یا مبالغہ آمیز مظالم کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور اس کی آڑ لے کر ساری دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ رہے تھے اور ہولو کاسٹ پر بات کرنا بھی کئی ممالک میں جرم قرار دیا جا چکا تھا۔

ان کے کیے ہوئے ان مظالم پر انگشت نمائی کی جن کی وجہ سے بالخصوص اسلامی دنیا کے کئی ممالک طرح طرح کے مصائب اور خطرات سے دوچار تھے اس ضمن میں اس کی ایک بہت مشہور نظم what must be said کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔

اس کی تحریروں میں مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کے اس بزدلانہ اور مصلحت پسندانہ رویوں پر شدید تنقید کی گئی ہے جو یا تو براہ راست ظلم کا حصہ بنتی ہے یا خاموش رہ کر ظالم کی مدد کرتی ہے۔ کوئی تیس برس قبل مجھے اس کی ایک ایسی ہی نظم Inohnmach Cefallen کا ''ایک حالت ناطاقتی میں'' کے عنوان سے آزاد ترجمہ کرنے کا موقع ملا تھا جس میں موجود گہرا طنز اس کے اسی انسان دوست رویے کا عکاس ہے نظم کچھ اس طرح سے ہے

جب ہم ناپام کے بارے میں کچھ خبریں پڑھتے ہیں
تو سوچتے ہیں وہ کیا ہو گا!
ہم کو اس کی بابت کچھ معلوم نہیں
ہم سوچتے ہیں اور پڑھتے ہیں
ہم پڑھتے ہیں اور سوچتے ہیں
ناپام کی صورت کیسی ہو گی!
پھر ہم ان مکروہ بموں کی باتوں میں بھر پور مذمت کرتے ہیں
صبح سمے جب ناشتہ میزوں پر لگتا ہے
گُم سُم بیٹھے تازہ اخباروں میں ہم سب وہ تصویریں دیکھتے ہیں
جن میں اس ناپام کی لائی ہوئی بربادی عکس نمائی کرتی ہے
اور اک دوجے کو دکھا دکھا کر کہتے ہیں
دیکھو یہ ناپام ہے
دیکھو ظالم اس سے کیسی غضب قیامت ڈھاتے ہیں
کچھ ہی دنوں میں متحرک اور مہنگی فلمیں اسکرینوں پر آ جاتی ہیں
جن سے اس بربادی کا، کالا اور بھیانک منظر
اور بھی روشن ہو جاتا ہے
ہم گہرے افسوس میں اپنے دانتوں سے ناخن کاٹتے ہیں
اور ناپام کی لائی ہوئی آفت کے ردّ میں لفظوں کے تلوے چاٹتے ہیں
لیکن دنیا بربادی کے ہتھکنڈوں سے بھری پڑی ہے
ایک برائی کے رد میں آواز اٹھائیں
اس سے بڑی اک دوسری پیدا ہو جاتی ہے
وہ سارے الفاظ جنھیں ہم آدم کش حربوں کے ردّ میں
مضمونوں کی شکل میں لکھ کر ٹکٹ لگا کر اخباروں کو بھیجتے ہیں
ظالم کی پر زور مذمت کرتے ہیں!
بارش کے وہ کم طاقت اور بے قیمت سے قطرے ہیں
جو دریاؤں سے اٹھتے ہیں اور اٹھتے ہی گر جاتے ہیں
نامردی کچھ ہے جیسے کوئی ربڑ کی دیواروں میں چھید بنائے
یہ موسیقی، نامردی کی یہ موسیقی! اتنی بے تاثیر ہے جیسے
گھسے پٹے ایک ساز پہ کوئی بے رنگی کے گیت سنائے
باہر دنیا
سرکش اور مغرور یہ دینا
طاقت کے منہ زور نشے میں اپنے روپ دکھاتی جائے
نئی نسل کے قارئین کے لیے یہ وضاحت کہ اس زمانے میں ویت نام کی جنگ کے حوالے سے امریکا کے بنائے ہوئے ناپام نامی تباہ کن بموں کا بہت شہرہ تھا اور ان کا ذکر آج کل کے ڈرون طیاروں کی بم باری کی طرح ہر زبان پر تھا۔ گنتر گراس کا کمال یہ ہے کہ اس نے فرقہ، ملامیتہ کی تکنیک سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو برائی کا سبب بنا کر پیش کیا ہے لیکن اس کا اصل مخاطب وہ ضمیر عالم ہے جس کے دوہرے معیارات اپنوں کے کچھ ہیں اور دوسروں کے لیے کچھ اور۔

گنتر گراس جیسے خالص انسانیت کے ترجمان لکھاری ہی اس روشنی کے موجد اور محافظ ہیں جو ہمیں دور حاضر کی غار کے دوسرے کنارے پر اس طرح دکھائی دیتی ہے کہ ظلم کے فنا ہونے اور انصاف کے قیام سے متعلق خواب تعبیروں میں ڈھلتے محسوس ہوتے ہیں۔ گیبریل گارسیا مارکیز کے بعد گنتر گراس کی رحلت یقینا ایک عظیم عالمی نقصان ہے کہ اب اس قبیل کے لکھاری اگر نایاب نہیں تو بے حد کم یاب ضرور ہو گئے ہیں۔ یہاں مجھے اختر حسین جعفری مرحوم کا وہ نوحہ بہت یاد آ رہا ہے جو انھوں نے ایذرا پاؤنڈ کی موت پر لکھا تھا اور جس کی ابتدائی لائنیں یہ ہیں کہ؎

تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں