کراچی میں این اے 246 کا انتخابی معرکا
اس حلقے کی اہمیت اس وجہ سے بھی خاص ہے کہ اس کے علاقے عزیزآباد میں ایم کیو ایم کا مرکزی ہیڈکوارٹر نائن زیرو واقع ہے
PARIS:
عزیزآباد کراچی کے حلقے این اے 246 میں ضمنی انتخابات کے سلسلے میں انتخابی گہما گہمی اور گرما گرمی ان دنوں اپنے بامِ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ یہ حلقہ ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کے مستعفی ہونے کے بعد خالی ہوا ہے۔ اس حلقے میں عزیز آباد، کریم آباد، موسیٰ کالونی، فیڈرل بی ایریا، بھنگوریہ ٹاؤن اور لیاقت آباد کے کچھ علاقے شامل ہیں جو کراچی کے گنجان آباد علاقے تصورکیے جاتے ہیں۔
اس حلقے کا شمار کراچی کے ان حلقوں میں ہوتا ہے جہاں کے عوام کی بھاری اکثریت تعلیم یافتہ اور با شعور ہے جس کے باعث یہاں انتخابی معاملات ملک کے روایتی معاملات سے یکسر مختلف ہیں۔ یہ حلقہ ایم کیو ایم کا گڑھ تصورکیا جاتا ہے کیونکہ یہاں سے ایم کیو ایم 1988ء سے2013ء تک کے تمام عام انتخابات میں مسلسل ریکارڈ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوتی رہی ہے۔
اس حلقے کی اہمیت اس وجہ سے بھی خاص ہے کہ اس کے علاقے عزیزآباد میں ایم کیو ایم کا مرکزی ہیڈکوارٹر نائن زیرو واقع ہے جو دراصل الطاف حسین کی رہائشگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ضمنی انتخاب کو ملک بھر میں ایک خاص اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور ملک کے عوام کی نگاہیں اس کی انتخابی سرگرمیوں اور ممکنہ نتیجے پر لگی ہوئی ہیں۔ اس میں سب سے اہم کردار ملک کے الیکٹرانک میڈیا نے ادا کیا ہے۔ امیدواروں میں ایم کیو ایم، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے امیدوار نمایاں ہیں۔ یوں تو تمام جماعتیں ہی جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہی ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف کا اس مرتبہ انداز کچھ الگ ہی ہے۔ پی ٹی آئی ملک بھر کے عوام کو اس حلقے کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ صرف پی ٹی آئی ہی وہ واحد جماعت ہے۔
جس نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایم کیو ایم کے گڑھ میں اس کے مقابل اپنے امیدوار کو کھڑا کیا ہے اور الطاف حسین کو اس کے گھر میں جا کر للکارا ہے جب کہ یہ تاثر سراسر غلط اور گمراہ کن ہے حقیقتاً ایسا ہرگز نہیں۔ کیونکہ اس ایک حلقے میں تو کیا ایم کیو ایم کے خلاف پورے کراچی میں ملک کی تمام بڑی چھوٹی جماعتیں اپنے اپنے سرکردہ رہنماؤں اور نامور شخصیات کو بطور امیدوار کھڑے کرتی رہی ہیں جہاں بھرپور انتخابی مقابلے کے بعد ایم کیو ایم کامیاب ہوئی اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایم کیو ایم کسی ایک جگہ سے بھی بلامقابلہ کامیاب ہوئی ہو اسے تو ہمیشہ ہی سخت مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ لہٰذا اب ایسا تاثر دینا کہ پہلی بار کوئی مقابل آیا ہے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
اس جھوٹ کا پردہ اس حقیقت سے بھی چاک ہوتا ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں بھی اس حلقے سے پی ٹی آئی کا امیدوار ایم کیو ایم کے مقابل تھا۔ پی ٹی آئی کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ اس جماعت نے ملک میں الزام تراشی اور دشنام طرازی کی سیاست کو متعارف کرایا ہے۔ جس کا تسلسل وہ کراچی کے ضمنی انتخاب میں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے سربراہ عمران خان اور اس کی مقامی قیادت نے ایم کیو ایم اور اس کے قائد کو نشانے پر لیا ہوا ہے۔
من گھڑت اور بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی اپنی پوری انتخابی مہم نت نئے الزامات کے سہارے جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کو سوائے اس کے کچھ اور ہے ہی نہیں۔ ممکن ہے کہ پی ٹی آئی دھرنوں کے بے مقصد اختتام، حکومت کے مجوزہ جوڈیشل کمیشن کو پہلے مسترد کرنے پھر مان لینے اور اپنی ہی جعلی قرار دی گئی اسمبلیوں میں واپسی جیسے حالات کے باعث شاید شرمساری کا شکار ہوں اور اس ناگوار تاثر کو زائل کرنے کے لیے کراچی میں ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہوں۔
بہرحال جو بھی ہو لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ الطاف حسین کو برا بھلا کہہ کے وہ کبھی بھی کراچی میں اپنے لیے جگہ نہیں بنا سکتے۔ پی ٹی آئی والے آج ایک سیٹ کی خاطر کراچی کے غم میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں جب کہ انھوں نے انتخابات میں شکست کے بعد کبھی کراچی اور اس حلقے کی پلٹ کر خبر تک نہیں لی۔
عمران خان کراچی کو خوف سے آزاد کرانے اور تبدیلی لانے کا کراچی میں خوب دعویٰ کر رہے ہیں لیکن وہ خود کو تو کبھی خوف سے آزاد نہیں کر سکے اور نہ ہی خود میں تبدیلی لا سکے بلکہ سخت سیکیورٹی کے حصار اور روایتی شاہی پروٹوکول کے ساتھ گاڑیوں کی طویل قطار میں کراچی آتے جاتے ہیں لہٰذا کراچی کے عوام تو خوف سے آزادی اور تبدیلی تب ہی تسلیم کریں گے جب خود عمران خان اس سب کے بغیر کراچی کے گلی کوچوں میں آزادانہ گھومیں پھریں گے۔
دوسری جانب ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین ہیں جنہوں نے نہ صرف عمران خان اور ان کی جماعت کو عزیزآباد میں خوش آمدید کہا اور جناح گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی ساتھ ہی جذبہ خیرسگالی کے تحت انھیں نائن زیرو آنے کی دعوت بھی دی جو کہ ملک کی انتخابی تاریخ میں ایک نئی صحتمندانہ روایت ہے لیکن عمران خان نے اس دعوت پر جواباً متوقع جوش و خروش کا اظہار نہیں کیا بلکہ نیم دلی سے اس دعوت کو قبول کیا جس کے بعد وہ رابطہ کمیٹی ارکان سے مختصر ملاقات کے بعد فوراً ہی واپس چلے گئے اور نائن زیرو نہیں آئے۔
اس بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کراچی میں ایم کیو ایم سے دوستی اور انڈراسٹینڈنگ نہیں چاہتی بلکہ ان کے عزائم اشتعال انگیزی اور تیزوتند بیان بازی کے ذریعے کراچی کے سیاسی درجہ حرارت کو بلند رکھنا ہے۔ تا کہ متوقع ردعمل آنے کے بعد سیاسی گرما گرمی کی فضاء بنی رہے جسے وہ انتخاب میں کامیابی کے لیے انتہائی مفید تصور کرتے ہیں۔
حقیقتاً یہ ان کی ایک بڑی بھول ہے وہ اہلِ کراچی کے دل اس طرح کبھی نہیں جیت سکتے۔ کراچی نے بہت دکھ دیکھے ہیں اور بہت زخم کھائے ہیں ۔ کراچی کو تو صرف محبت اور غمگساری سے ہی جیتا جا سکتا ہے۔ الطاف حسین اس شہر کے قائد ہیں اور ان کی جماعت ایم کیو ایم اس کی نمایندہ ہے۔ انھوں نے اس شہر کو ایک پہچان دی ہے ۔ اس شہر کی تعمیر و ترقی اور ملک بھر میں اس کی عزت و وقار کے لیے بڑی سے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
حلقہ این اے 246 میں ہونے والے انتخابی معرکے میں ایک جانب نظریہ ہے تو دوسری جانب بے مقصد الزام تراشی ہے۔ یہ حلقہ ایم کیو ایم کے لیےTested Ground ہے اس کا انتخابی نتیجہ وہی ہو گا جو ستائیس سالوں سے چلا آ رہا ہے۔
اس میں کوئی نئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ کراچی کی دیگر سیاسی قوتوں کو اب ایم کیو ایم سے مخاصمت اور سیاسی چپقلش کو ختم کرنا ہو گا اور باہمی اشتراک سے سیاسی معاملات نمٹانے ہونگے ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کراچی میں اپنا سیاسی مقام بنانا ہے تو کراچی کے زخموں پر مرہم رکھنا ہو گا اور اس کے دکھوں کا مداوا کرنا ہو گا، سیاسی ماحول کو گرم و کشیدہ کر دینے والے بیانات سے پرہیز کرنا ہو گا، بصورت دیگر خرابیء حالات اور نقصِ امن کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔