بدلتا رنگ

جنرل ضیا برسر اقتدار آئے تو اس کا رنگ ایوب کے رنگ سے قدرے مختلف تھا۔


[email protected]

قائداعظم اور لیاقت علی خان جب پاکستان کے حکمران تھے تو ملک کا رنگ کچھ اور تھا۔ اس میں جدوجہد کی خوشبو اور خلوص کی مہک نظر آتی تھی۔ جب اسکندر مرزا اور غلام محمد جیسے افسران ہمارے حاکم بنے تو رنگ بدل گیا۔ نہ سچائی اور نہ امنگ، یہاں نہ قربانی کی مثال تھی اور نہ عوام کو اپنے حکمرانوں پر اعتماد تھا۔ جب افسر شاہی ملک کے اختیارات کی مالک تھی تو ہر سال ایک نیا وزیراعظم قوم کو دیکھنے کو ملتا، پہلے غلام محمد اور پھر اسکندر مرزا میوزیکل چیئر کا کھیل سجاتے رہے، نہرو نے کہا کہ ''میں اپنی دھوتی نہیں بدلتا کہ پاکستان میں وزیراعظم بدل جاتا ہے''۔

ایوب خان نے دیکھا کہ اصل طاقت تو بیلٹ کی طاقت ہوتی ہے یا بلٹ کی۔ بیوروکریٹ کس بل بوتے پر ملک کے بااختیار لوگ بنے ہیں؟ اسی سوال کا جواب ملنے پر ہی جنرل ایوب نے طویل حکمرانی کی منصوبہ بندی کی، ملک کو مضبوط حکمرانی تو ملی لیکن مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بودیا گیا۔ بنگال میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ یہ زمانہ اپنا ایک الگ رنگ لیے ہوئے تھا۔ شخصی حکمرانی کے رنگ میں ہر طرف ایوب خان کا زمانہ تھا۔ شہنشاہ ایران اور صدر ناصر کی نقل فیلڈ مارشل کو اپنے آپ کو آگے لانے کے کئی نسخے ملے۔ اس دور کا رنگ ایسا تھا کہ پاکستان بظاہر ترقی کررہا تھا، حقیقت میں ملک کے دونوں حصوں اور امیر و غریب میں خلیج بڑھ رہی تھی۔ کوئی ایک بھی سیاسی قیادت ایسی نہ تھی جو پورے ملک میں مقبول ہو۔

ڈھاکا سے کراچی اور لاہور سے پشاور کے شہریوں کے دلوں پر راج کرنے والی ایک بھی شخصیت نہ تھی، ایوب کو کمزور کرنے کے لیے اتحادوں کا ڈول ڈالا گیا، صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب کے مقابل لاکر عوام کے خوف کو دھندلانے کی کوشش کی گئی، سمندر کی خاموشی تھی اور لاوا پک رہا تھا۔ فیلڈ مارشل کے خلاف صحافی، وکلا، مزدور اور طلبا میدان میں آگئے۔ سیاست کا رنگ بدلا اور احتجاج کی سیاست شروع ہوگئی، ایوب کمزور ہوتے گئے اور اقتدار پر یحییٰ خان نے قبضہ کرلیا۔ پلاننگ بڑی زبردست تھی کہ انتخابات کے بعد منتخب نمایندوں کو سالانہ بنیادوں پر وزیراعظم بنایا جائے۔ جب سفید وردی والے غلام محمد اور اسکندر مرزا یہ کرسکتے تھے تو خاکی والے یحییٰ خان کیوں نہیں، کچھ سچے لوگوں کے بدلتے رنگ کو چند منٹ بعد محسوس کیا جائے گا۔

70 کے انتخابات کے بعد سیاست کا رنگ بدلا۔ دو بڑی پارٹیاں ابھر کر سامنے آگئیں۔ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں والا خواب چکنا چور ہوگیا، بھٹو اور مجیب کی کشمکش خطرناک رخ اختیار کرگئی، یحییٰ کی ہوس اقتدار نے اس آگ پر تیل ڈالا، ایوب کے بعد بنگالیوں نے جانا کہ وہ تب حکمران بن سکتے ہیں جب اپنے تمام ووٹ ایک ہی پارٹی کے پلڑے میں ڈالیں، یہ کرنے کے باوجود بھی انھیں اقتدار سے محروم کرنے کے لیے یحییٰ نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا، اس اسمبلی کا اجلاس جس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی بھٹو نے دی تھی۔

مشرقی پاکستان بغاوت پر آمادہ ہوگیا، یہ پاکستان کی تاریخ کا عجیب و غریب رنگ تھا، ایسا بدلتا رنگ آسمان سیاست نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ہماری نادانی اور بھارتی سازش سے پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا، یحییٰ کے اقتدار کے خاتمے نے دو فوجی جنرلوں کے تیرہ سالہ اقتدار کا خاتمہ کردیا، تحریک آزادی کے دو رہنماؤں قائداعظم اور قائد ملت کے علاوہ غلام محمد و اسکندر مرزا اور دو فوجی افسران نے ملکی سیاست پر اپنے اپنے رنگ بکھیرے، اس درمیان خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، اسماعیل ابراہیم چندریگر اور فیروز خان نون، پاکستان کے وزیراعظم رہے، بھٹو آئے تو نئے پاکستان کا نیا رنگ عوام نے دیکھا۔

بھٹو کی حکمرانی نے ایک مقبول لیڈر اور ایک مقبول پارٹی کا رنگ بکھیرا۔ ایسا نظارہ پاکستان کے ابتدائی دور میں تھا جب سیاسی جدوجہد سے نیا ملک بنانے والے ایوان اقتدار میں تھے۔ بھٹو نے غریب کا نعرہ لگاکر ان کے احساس محرومی کو دور کرنے کی کوشش کی۔ بینکوں اور صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کا رنگ پہلی مرتبہ سامنے آیا۔ ایک پارٹی نے حکومت کی طاقت سے پریس اور سیاسی پارٹیوں کو کچلنے کی کوشش کی۔

77 کے انتخابات کی دھاندلی نے اینٹی بھٹو قوتوں کو اپنے اپنے بدلے چکانے کا موقع دیا۔ مذاکرات کی ناکامی کم از کم دس برسوں کی بد رنگی اپنے ہمراہ لاتی ہے، گول میز کانفرنس کی ناکامی ساٹھ کی دہائی تو قومی اتحاد سے مذاکرات کی ناکامی ستر کے عشرے کے رنگ تھے، پہلے ایک طاقت ور لیڈر اور پھر عوامی رہنما، مارشل لا کے ہاتھوں رخصت ہوئے تو پاکستان نے ایک نیا رنگ دیکھا، جن لوگوں نے ضیا دور میں خوب رنگ جمایا تھا تو اب ان کے رنگ میں بھنگ کی بات آج کی جارہی ہے۔

جنرل ضیا برسر اقتدار آئے تو اس کا رنگ ایوب کے رنگ سے قدرے مختلف تھا۔ سیاسی پارٹی نہ بنانا، ججوں سے نیا حلف لینا، ریفرنڈم کروانا اور ایک مقبول سیاسی پارٹی سے الجھنا، اسلامی قوانین، شرعی عدالتیں، افغان جنگ اور بھٹو کی پھانسی وہ رنگ تھے جو شاید آیندہ کسی حکمران کو کبھی نہ بکھیرنے پڑیں۔ طویل ترین حکمرانی کرکے جنرل ضیا جب رخصت ہوئے تو طیارے کے حادثے میں یہ حادثہ بھی پاکستان کی تاریخ کا انوکھا رنگ تھا۔ اس کے بعد پاکستان کی تاریخ نے جو رنگ بکھیرے اسی کی خاطر یہ کالم لکھا جارہا ہے، اتنی طویل تمہید اسی کی خاطر تھی کہ اس کے بعد کیا ہوا؟

بے نظیر بھٹو کو برسر اقتدار آنے سے روکنے کے لیے آئی جے آئی بنائی گئی، پیپلزپارٹی ملک کی مقبول ترین پارٹی تھی۔ پرو بھٹو کے مقابل اینٹی بھٹو قوتیں بکھری ہوئی تھیں۔ نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے، دو سال بعد ملک کے وزیراعظم کا حلف اٹھایا اور یوں پاکستان میں دو پارٹی سسٹم لاگو ہوگیا، یہ خواب تھا کہ اگر مضبوط حزب اختلاف ہو تو نظام بہتر رہے گا۔ امریکا کی ڈیموکریٹکس اور ری پبلکن کا خواب تھا تو کبھی برطانیہ کی لیبر اور کنزرویٹو مثال دی جاتی۔ نواز شریف کے آتے آتے بھارت میں کانگریس کے بعد بی جے پی کے آنے سے ٹو پارٹی سسٹم ہوگیا تھا۔

پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو سیاست دو عشرے تک رہی، پچھلی صدی کے آخری اور موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں بھٹو کے جیالوں کے مقابل لیگ کے متوالے سامنے آئے، ایک لیڈر کے مقابل ایک اور لیڈر۔ پاکستان نظریاتی سیاست کی جانب بڑھ رہا تھا ملک کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اصول بے نظیر کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے دیے تھے، اسی کے مقابل ایک خیال نواز شریف کا تھا، دائیں اور بائیں جانب جھکاؤ کی حامل دو پارٹیاں اپنا رنگ بکھیر رہی تھیں۔ محنت کشوں سے قریب اور تاجروں کے نزدیک کا تاثر لیے دو پارٹیاں سامنے تھیں۔ مشرف کے دور تک یہ تاثر قائم رہا۔

آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کو سنبھالا اور ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ لگاکر اپنا نام تاریخ میں بہتر بنایا۔ مفاہمت کی سیاست کے رنگ کو اپناکر انھوں نے اپوزیشن کا محاذ خالی چھوڑدیا، ایک خلا پیدا ہوا جسے عمران خان کی تحریک انصاف نے پر کیا۔ 2011 کے سرد موسم میں نئی صدی کا پہلا عشرہ ختم ہوچکا تھا۔ عوام کو تیر اور شیر میں بہت کم فرق دکھائی دیا۔ زرداری کی مفاہمت کی سیاست نے پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو کے زمانے کا خاتمہ کردیا جو ایک بدلتا رنگ قرار پاتا ہے۔

عمران خان اور نواز شریف نے پنجاب میں رنگ جمایا ہوا ہے، آصف زرداری کی پارٹی مقبولیت کی اس دوڑ سے باہر ہورہی ہے، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے کراچی کو چھوڑدیا تو خلا عمران خان پر کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جیالوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سے بڑا سوال ہے کہ بھٹو کے وارث غائب ہورہے ہیں اور ضیا الحق کے لائے لوگ غالب آرہے ہیں ''نواز شریف کا قلعہ مضبوط'' ہونے اور انھیں اپنی عمر لگ جانے کی دعا ضیا الحق نے دی تھی، عمران خان کو ریٹائرمنٹ پر مجبور ضیا الحق نے کیا تھا۔ اس کے بعد ہی کپتان نے ورلڈ کپ جیتا پھر شوکت خانم، نمل یونیورسٹی، پچھہتر لاکھ ووٹ اور خیبر پختونخوا میں حکومت۔

یوں آج ملک کی دونوں بڑی شخصیات رائٹ ونگ کی ہیں اور رہا سہا بایاں بازو ختم ہوچکا ہے، بھٹو کے جیالے ملکی سیاست میں بے معنی ہورہے ہیں اور ضیا الحق کے آگے بڑھائے ہوئے دو لوگ ستر فیصد سے زیادہ عوامی مقبولیت رکھتے ہیں، جیالو! اٹھو اور مفاہمت کے بجائے اصولی مزاحمت کی سیاست کرو، پاکستانی سیاست میں تمہارا ہونا لازمی ہے، تم تاریخ بن گئے تو یہ المیہ ہوگا۔ عظیم المیہ۔ جمہوریت کے رنگ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، آنے والے دنوں میں سیاست کی قوس قزح میں جب بھٹو کا نام نہیں ہوگا تو دنیا افسوس سے دیکھے گی جیالوں کے چہروں کا بدلتا رنگ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں