مرد نہ دیکھیں

ہم اپنے گھر کے جو چیلنج ایک دن میں حل کرلیتے ہیں وہ ڈراموں میں کئی قسطوں تک برقرار رہتے ہیں۔


سہیل یوسف April 13, 2015
اگر اس صورتحال میں نئے تجربے کیے جائیں تو تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گے اور بارش کا پہلا قطرہ بھی۔

جی ہاں! یہ ذکر ہے آج کل مختلف چینلز پر چلنے والے پاکستانی ڈراموں کا جنہیں ڈرامہ کے بجائے 'ڈرامی' کہنا ذیادہ بہتر ہوگا کیونکہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ اب وہ صرف خواتین کے لیے بنائے جارہے ہیں۔

اکثر ڈراموں کے نام بھی زنانہ ہیں مثلاً میں 'کوئلہ ہوگئی'، 'کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی' (توکیا پھوپھو کی ہوتی؟)، 'عفت'، 'مریم'، 'کہانی مناحل کی'، 'بڑی آپا'، 'ادھوری عورت'، 'ڈھائی دن کی عورت'، 'من چلی'، 'ملکہ عالیہ'، 'ناجیہ'، 'سمدھن'، 'بلقیس کور'، 'درِشہوار'، 'دوسری بیوی'، 'کنیز'، 'برنس روڈ کی نیلوفر'، 'بہنیں ایسی بھی ہوتی ہیں' اور ویسی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد ڈرامہ مزید خود غرضی تک چلا گیا جو ان کے نام سے ظاہر ہے مثلاً میں 'میں بشریٰ'، 'میری ماں'، 'میری بیٹی'، 'میری عنایہ'، ' سسرال میرا' اور شاید اب ان ناموں سے بھی ڈرامے بنیں مثلاً 'میرا بٹوہ'، 'میری نند'، 'میری چپل'، 'میں اور صرف میں'۔

دوسری جانب ڈرامے کا کینوس سکڑ کر چار پانچ کرداروں تک محدود ہوگیا ہے جس میں گھسی پٹی گھریلو کہانیوں کو تین کمروں میں فلمایا جاتا ہے اور کئی قسطوں تک پھیلایا جاتا ہے۔ ان ڈراموں کے 80 فیصد مناظر میں کیمرہ عورتوں پر ہوتا اور مرد کا کردار بہت معمولی ہوتا ہے (شاید اگلے دنوں میں مرد کا کردار بھی خواتین ہی کریں گی)۔





ان سیریلز میں مجموعی طور پر 10 سے 20 اداکار اور اداکارائیں 50 یا 60 ڈراموں میں کام کررہی ہیں جبکہ بعض چہرے تو ٹی وی بند کرنے کے بعد بھی نظر آتے رہتے ہیں۔ دو فنکارائیں ایک ڈرامے میں بہنیں ہیں، دوسرے میں ساس بہو ہیں، تیسرے میں بھابھی اور نند ہیں اور مجال ہے کہ ایک سے دوسرے ڈرامے کی ایکٹنگ میں کوئی فرق آجائے!

اب ذرا غور کیجئے کہ ماضی کے ڈرامے کتنے گہرے اور وسیع تھے جن میں معاشرے کا ہر فرد دکھائی دیتا تھا۔ ان ڈراموں کو یاد کیجئے تو 'آسمان تک دیوار'، 'ہوائیں'، 'جنگل'، 'وقت'، 'خدا کی بستی'، 'سورج کے ساتھ ساتھ'، 'وارث'، 'پیاس'، 'الاؤ'، 'اندھیرا اجالا'، 'پسِ آئینہ'، 'چاند گرہن'، 'دھواں' اور 'دھوپ کنارے' وغیرہ سمیت کتنے نام ذہن میں آتے ہیں۔ منڈی میں مزدوروں کا نوحہ تھا، جانگلوس میں معاشرے کا استحصال نظر آیا، ڈرامہ 'پناہ' میں سابقہ سوویت یونین اور افغان زندگی دکھائی گئی، 'دھواں' میں منشیات کی تباہیوں کا ذکر تھا اور 'کارواں' میں تھر کی زندگی کے رنگ بھرے تھے۔ ان کے لکھنے والے معاشرے پر کتنی گہری نظر رکھتے تھے اور اداکار کردار میں ڈھلنے کے لیے کس قدر محنت کیا کرتے تھے۔ مختصر یہ کہ آج کے ڈرامے میں مچھیرے، کسان، مزدور، استحصالی طبقہ، ظالم ومظلوم کیوں نظر نہیں آرہے؟





چلیے، ٹھیک ہے کہ آج زمانہ بدل چکا ہے اور خواتین ہی ڈراموں کی اصل ناظرین ہیں لیکن معاشرے کے باقی مسائل کہاں ہیں؟ دہشتگردی، معاشرتی برائیاں، نوجوانوں کے مسائل، بچوں کی تفریح، بیروزگاری، تاریخی واقعات اور ملکی چیلنج پر کیوں نہیں لکھا جاتا؟ اگر ڈراموں کا مرکز ایک عورت ہے تو پھر پنڈت اللہ بخش پر ڈرامہ کیوں نہیں لکھا جاتا جنہوں نے آزادی کے بعد ایک ہندو کا روپ دھار کر سکھوں کی جانب سے اغواء کی جانے والی کئی پاکستانی خواتین کو وطن واپس لانے کا بندوبست کیا اور اپنی جان خطرے میں ڈالی۔ یا سوات کی بہادر خاتون مسرت زیب پر کوئی کہانی کیوں نہیں بناتا جنہوں نے کئی خواتین کو طالبان کے چنگل سے چھڑایا۔ کرداروں میں پاکستان کی عظیم اور باہمت خواتین کو کیوں نہیں دکھایا جاتا اور ہمارے ڈرامے کی خاتون ہمیشہ روتی کیوں رہتی ہے؟

کچھ دنوں پہلے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہدایت کارہ ساحرہ کاظمی اور اداکار خالد انعم نے کہا تھا کہ اتنے سارے ٹی وی چینلز ہونے کے باوجود ورائٹی نہیں ہے۔ انہوں نے ٹی وی چینلزکو آفر دی کہ وہ ایک گھنٹہ بچوں کے پروگرام یا ڈرامے کرنا چاہتے ہیں کوئی چینل انہیں جگہ دے لیکن کروڑوں بچوں کی تربیت و تفریح کی کس کو فکر یہاں تو سب ایک سمت میں بھاگ رہے ہیں۔

آج کے پاکستانی ڈراموں میں مرد کو کائنات کی بدترین مخلوق دکھایا جاتا ہے جس میں کوئی اچھائی نہیں۔ وہ ہوس کا مارا ہے جس کا محور صرف اور صرف عورت اور زندگی کا پہلا مقصد شادی، دوسرا مقصد دوسری شادی اور تیسرا مقصد افیئر ہے۔ میں نے ایسے ہزاروں پڑھے لکھے نوجوان دیکھے ہیں جو اپنی محدود آمدنی سے گھر چلاتے ہیں، زندگی کی دوڑ دھوپ میں دو دو ملازمتیں کرتے ہیں، چھٹی میں بچوں کو باہر لے جاتے ہیں، اچھی ملازمتوں کے لیے سی وی بھیجتے رہتے ہیں، بیوی کا خیال رکھتے ہیں، دفتر سے گھریلو خرچ کے لیے قرض لے کر مہینوں تنخواہ کٹواتے ہیں اور جوائنٹ فیملی کو متوازن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ساس، بہو کے بیچ پھنس کر اپنی ماں اور بیوی کے درمیان کچلے جاتے ہیں۔ خواتین یہ کیوں نہیں سمجھتیں کہ وہ مرد کے جذبات کا محور یا ایموشنل جنریٹر ہیں اور کوئی اس پر ڈرامہ کیوں نہیں بناتا۔ افسوس! ان ڈراموں نے مرد و عورت کے خوبصورت رشتے کو سمجھنے اور بڑھانے کے بجائے مرد و عورت کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا ہے۔



پھر ان ڈراموں میں حقیقت سے دوری اور مسائل کو بڑا کرکے دکھانا بھی شامل ہے۔ ہم اپنے گھر کے جو چیلنج ایک دن میں حل کرلیتے ہیں وہ ڈراموں میں کئی قسطوں تک برقرار رہتے ہیں۔ دوسری جانب اسٹار ڈراموں سے ایک وبا آئی ہے جسے ہم جھوٹ ہی کہیں گے مثلاً ایک پاکستانی ڈرامے میں ایک خاتون پالتو کتوں کو آدم خور بنانے کے لیے روزانہ انسانی گوشت کھلاتی نظر آتی ہیں۔ پورا ڈرامہ ختم ہوگیا لیکن یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ انسانی گوشت کہاں سے لائیں یا کس دوکان سے خریدتی تھیں۔ ایک اور ڈرامے میں ایک بہن کی جگہ دوسری کو نکاح کے لیے بٹھادیا جاتا ہے اور کسی کو شک بھی نہیں ہوتا۔ شاید نکاح کے وقت شناختی کارڈ بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

بھارتی ڈراموں میں ایسی ایبنارمل صورتحال عام دیکھی جاتی تھی مثلاً ایک زمانے میں لفظ 'ک' سے شروع ہونے والے ڈرامے بڑے مقبول تھے اور ان میں ایک ڈرامہ 'کُم کُم' تھا جس کی ہیروئن ایک بڑی دماغی سرجری کے اگلے دن آئینے کے سامنے اپنے لمبے بال سنوارتی نظر آتی ہیں۔ کاف سے شروع ہونے والے ان کے دیگر ڈراموں میں 'کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی'، 'کبھی سوتن کبھی سہیلی'، 'کہانی گھر گھر کی' ، 'کسوٹی زندگی کی' پاکستان میں مقبول رہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو آج 'کبھی کچھ کچھوے کبوتر تھے' کے نام سے بھی ایک ڈرامہ دیکھنے کو ملتا!



لیکن یہ نہیں کہ سارے ڈرامے یکسانیت کے شکار ہیں بلکہ موضوعات کی یکسانیت انہیں بوجھل بنارہی ہیں۔ اگر اس صورتحال میں نئے تجربے کیے جائیں تو تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گے اور بارش کا پہلا قطرہ بھی۔ ناظرین کی فکر نہ کیجئے کہ وہ موجود ہے اور تبدیلی چاہتی ہے ایک قدم آگے بڑھانے اور زندگی کے ذرا اور قریب آنے کی دیر ہے۔

[poll id="351"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں