مشرق وسطیٰ کا بحران

ہر ذی شعور مسلمان مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورت حال پر متفکر اور تشویش کا شکار ہے۔


[email protected]

ہر ذی شعور مسلمان مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورت حال پر متفکر اور تشویش کا شکار ہے۔ عرب بہار سے شروع ہونے والا بغاوتوں اور شورشوں کا سلسلہ اب یمن سے ہوتا ہوا سعودی عرب کی سرحدوں تک جا پہنچا ہے اور اس سلسلے میں اب مسلمانوں کے مختلف گروہوں اور فرقوں کے باہمی اختلاف کا عنصر پیدا ہو چلا ہے۔

مسلم امہ کی یہ باہمی چپقلش اور باہم دست و گریباں کی کیفیت بجائے خود عالم اسلام اور مسلم امہ کے لیے زہر قاتل ہے تاہم اسلام دشمن قوتوں بالخصوص یہود و نصاریٰ کے لیے انتہائی خوش آیند ہے، گویا ان کی سازشیں اور منصوبہ بندیاں بار آور ثابت ہو رہی ہیں، آج تقریباً سارا عالم اسلام دہشت گردی کا شکار ہے اور امت مسلمہ امن و استحکام کے حوالے سے کڑی آزمائش سے گزر رہی ہے اور پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں بد ترین دہشت پسندانہ و انتہا پسندانہ سرگرمیاں عروج پر ہیں۔

پاکستان اور دیگر عرب ممالک میں جن انتہا پسند اور تشدد پسند تنظیموں نے اسلامی نظام کے نفاذ اور خلافت اسلامیہ کے احیا کے نام پر عام مسلمانوں کی توجہ اور ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ بجائے خود اسلام اور اسلام کی روشن تعلیمات سے واضح طور پر متصادم ہے۔ اسلامی مفکرین کی اکثریت اس نقطے پر متفق نظر آتی ہے کہ ان تشدد پسند نام نہاد اسلامی تنظیموں کو در حقیقت اسلام دشمن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

یہ تنظیمیں جدید ترین اسلحہ اور مالی وسائل سے لیس ہیں اور ان کی منصوبہ بندی، دہشت گردی، خونریزی اور تخریب کاری کے سوا کچھ بھی نہیں، بعض مفکرین کا خیال ہے کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ان تشدد پسند تنظیموں کے پیچھے یہودی عنصر کار فرما نظر آ رہا ہے، خود اسرائیلی بحریہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ''ہم ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بحیرہ احمر ہمارے زیر نگیں آ جائے گا تب اس کا نام بحر یہود یا بحر اسرائیل رکھ دیا جائے گا'' اس بیان سے آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ عالم اسلام اور مسلم امہ کے حوالے سے یہودیوں کے منصوبے کس حد تک خطرناک ہیں اور وہ عرب ممالک اور مسلمانوں کے مقامات مقدسہ تک رسائی اور قبضے کے لیے کن کن صورتوں میں مصروف عمل ہیں۔

بلاشبہ آج جتنی امت مسلمہ، مسلم حکمرانوں، مفکرین، علما و دانشوروں، قلم کاروں، مبلغین اور ذرایع ابلاغ و ارباب ابلاغ کو دہشتگردی کے خلاف جامع اشتراک عمل کے ساتھ دشمنان اسلام کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں، شورشوں اور ریشہ دوانیوں نیز مکر و فریب و دجل کو بے نقاب کرنے کی ضرورت اس سے قبل کبھی نہ تھی، دشمنان اسلام، اسلام کی سچی تصویر مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی مکروہ اور گھناؤنی منصوبہ بندیوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، ہمارا اولین دینی فریضہ یہ ہے کہ ہم اسلام کی حقیقی تصویر سے حقیقی معنوں میں دنیا کو متعارف اور روشناس کرائیں، ایک ایسی حقیقی روشن اور چمکدار تصویر جو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ناپاک چھینٹوں سے قطعی پاک ہے۔

وہ اصل تصویر جو رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم نے رب العالمین کے حکم سے دنیا کے سامنے پیش کی، جس نے دنیا سے ظلمتوں کا خاتمہ کیا اور جاہلیت کے اندھیروں سے تمام انسانیت کو نکال کر امن و آشتی کے اجالوں میں لے کر آئی، لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ میں عرض کروں گا کہ ہم بحیثیت امت اپنے اس فرض منصبی کو ادا کرنے سے تا حال قطعی قاصر رہے ہیں، اتحاد امت کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے قبل کبھی نہ تھی لیکن ہمیں گروہوں اور فرقوں میں بانٹ کر باہم دست و گریبان کر دیا گیا ہے اور اس دشمن میں ہم ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کسی سے کم نظر نہیں آ رہے۔

دشمنان اسلام ایک منظم و مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے مسلم امہ سے ان اختلافات کو مزید ہوا دے رہے اور مختلف گروہوں کی مالی و عسکری مدد بھی کر رہے ہیں اور بعض مسلمان بھی غیر محسوس طریقے سے دشمن کی اس سازش کا آلہ کار بن رہے اس طرح اسلام کو بدنام کرنے کی عالمی سطح پر کوششیں جاری ہیں، دشمنان اسلام کی سازشیں جتنی گہری ہیں اتنی ہی بھاری ذمے داریاں ہم پر دفاعی اعتبار سے عائد ہوتی ہیں لیکن پوری مسلم امہ اور عالم اسلام کی حالت زار ہمارے سامنے ہے اور جرم ضعیفی کی سزا ہمیں عبرت کدہ بنانے پر کار بند ہے، اس میں دشمن کی سازشوں سے زیادہ ہماری اپنی کوتاہیاں شامل حامل ہیں۔

دیکھیے بنی اسرائیل جو کہ سابقہ مسلم امہ کہلاتی ہے اﷲ کی کہیں لاڈلی قوم تھی، اﷲ نے فرعون کی غلامی سے انھیں نجات بخشی، ان پر من و سلویٰ نازل فرمایا، تمام جہان والوں پر انھیں فضیلت عطا فرمائی تاہم اﷲ کی نافرمانی اور سرکش پر اﷲ کی گرفت سے نہ بچ سکی اور بخت نصر اور اینتوکس کے عذاب سے خود کو نہ بچا سکی۔

آج مسلمان اﷲ کی محبوب ترین امت ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی تمام کوتاہیوں، بد اعمالیوں اور عیش کوشیوں کے باوجود ہم فتح و نصرت اور عزت و سربلندی کا دائمی حق اپنے پاس رکھتے ہیں اور ہم مسلمانوں میں بھی اﷲ نے اونچا مقام عربوں کو عطا فرمایا ان میں رسول عربیؐ کو اٹھایا، ان کی زبان میں اپنا آخری کلام نازل فرمایا تو دیگر عام مسلمانوں کی نسبت ان پر ذمے داریاں بھی عائد ہوتی ہیں تاہم عرب اتنا ہی اپنی ان اہم ذمے داریوں سے کوتاہ نظری برتتے رہے بلکہ بے غیرتی، بے حمیتی، بزدلی، کمزوری کا ثبوت دیتے رہے لہٰذا آج وہی سب سے زیادہ یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں ذلت و مسکنت کا شکار ہیں اور نا اتفاقی اور اختلاف و انتشار ان میں عروج پر ہے۔

اگر آج اسرائیل گریٹر بننے کی جد و جہد میں مصروف ہے تو اسے معلوم ہے کہ وہ اس میں ضرور کامیابی حاصل کر لے گا۔ عربوں میں کوئی دم خم نہیں ہے، 1965ء میں بھی وہ عربوں کے خلاف فتح کا جشن منا چکا ہے اور صرف اسی گھنٹے میں متعدد عرب ممالک کی پوری طاقت تباہ و برباد کر کے آٹھ ہزار مربع میل پر بسنے والا یہ چھوٹا سا ملک چوبیس ہزار مربع میل کو فتح کر چکا ہے۔

ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں اور احادیث کی کتب میں واقع ہے کہ ایک ایک کر کے تمام اسلامی ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے یہاں تک کہ دشمنان اسلام مدینے کے قریب جا پہنچیں گے، تاہم مدینہ میں داخل نہ ہو سکیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ان کے مدینہ کے پروگرام کو ہرگز پورا نہ ہونے دے گا۔ حضورؐ نے فرمایا ''عرب کے لیے بہت بڑی خرابی ہے'' آج دیکھیے یہی ملعون قوم کیسے عربوں کے سینے میں گھونپ دی گئی ہے اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں جیسی بہترین امت کے بہترین حصے کی غارت گری یہود و نصاریٰ (ملعون و مغضوب علیھم قوم) کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے جا رہی ہے اور مشرق وسطیٰ میں سیاست طاقت اور مفاد کا کھیل اپنے نقطہ آغاز پر ہے۔

اس وقت مسلم امہ کے لیے اتحاد و تنظیم وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے تو دوسری جانب بین المذاہب و بین المسالک مکالمہ اور بین تہذیبی و ثقافتی تقارب و ہم آہنگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور مشرق وسطیٰ کے بحران کا حل حکمت و دانائی سے کام لیتے ہوئے جنگ نہیں مذاکرات میں مضمر ہے۔

اگر یہ حقیقت ہے کہ دشمنان اسلام ہولناک جنگ ''آرمیگاڈان'' کی تیاریاں مکمل کر چکے ہیں اور امت مسلمہ اس وقت اپنی تاریخ کے کٹھن دور سے گزر رہی ہے اور بظاہر احوال اس کے ذلت و خواری سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے لیکن الصادق المصدوقؐ کی پیش گوئیوں پر پورا یقین ہے کہ قیامت سے قبل پوری دنیا پر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی، امام مہدیؑ کا ظہور ہو گا، عیسیٰ ؑ کا نزول ہو گا اور بالآخر مسلمان فتح یاب ہوں گے نیز تمام دجالی قوتوں کو شکست ہو گی، جب رسول اﷲؐ نے فرمایا ہے کہ ایسا ہو گا تو یقیناً ایسا ہو گا تاہم اس سے پہلے مسلمانوں پر کتنی مار پڑے گی یہ اﷲ ہی جانتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں