اولڈ از گولڈ
میر صاحب کی کبھی کارل مارکس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
گزشتہ دنوں ''جشن ریختہ'' کے حوالے سے ایک ہفتہ دلی میں گزارنے کا اتفاق ہوا جس کا کچھ احوال میں بیان بھی کر چکا ہوں لیکن ایک دو باتیں اس لیے رہ گئیں کہ ان کا اس موضوع سے براہ راست تعلق نہیں تھا مثال کے طور پر یہ کہ پہلی ہی شام پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے مجھے اور انتظار حسین صاحب کو ایک ڈنر پر مدعو کیا گیا ۔
جس کے میزبان پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط تھے اسی طرح واپسی سے ایک روز قبل ڈپٹی ہائی کمشنر منصور احمد خان صاحب نے ایک لنچ کا اہتمام کیا دونوں تقریبات میں ہائی کمیشن کے عملے کے دیگر افسران سے بھی ملاقات رہی اب پتہ نہیں یہ ان نوجوانوں کا آئیڈیا تھا یا ان کے سینئرز کا کہ میری آیندہ آمد پر (جو دو ہفتے بعد تھی) ہائی کمیشن کے اندر ایک لیکچر کا اہتمام کیا جائے جس کا موضوع بھی مجھے خود طے کرنا تھا ۔
ان کے اصرار پر میں نے وعدہ کر لیا اور ایک عمومی سا موضوع بھی تجویز کر دیا کہ کیوں نہ ہماری کلاسیکی شاعری میں موجود اس سماجی اور سیاسی شعور پر بات کی جائے جسے عام طور پر درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا اور اگر کسی نقاد یا مدرس نے اس پر بات کی بھی ہے تو بیشتر صورتوں میں بہت بے ربط' غیر متوازن اور تصوراتی۔ مثال کے طور پر ایم اے اردو کے نصابوں میں غالب کی ایک مشہور غزل کا پس منظر 1857ء میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی معزولی ناطاقتی اور بے بسی سے جوڑا جاتا رہا ہے جب کہ کالی داس گپتا رضا نے تحقیق کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ یہ غزل 1828ء میں کہی گئی تھی جب ابھی اس کا دور حکومت شروع بھی نہیں ہوا تھا (داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی۔
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے)میں نے عرض کیا کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے شعراء کے ہاں (علامہ اقبال سے پہلے تک) ایسے بہت سے اشعار ملتے ہیں جن سے ان کے سماجی اور سیاسی شعور' روح عصر' حالات حاضرہ اور مستقبل بینی کا بھرپور اظہار ہوتا ہے اور یہ کہ بہت محدود اور مشکوک ذرایع اطلاعات زمینی فاصلوں' تعلیم کے روایتی تصور' سفر کی مشکلات اور جدید معلوماتی وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود یہ لوگ کس طرح ایسے نتائج مرتب کرنے میں کامیاب ہوئے جن کی صداقت کی گواہی آنے والے ادوار نے دی۔
تحریک احیائے علوم اور صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں انسانی حقوق اور معاشی تصورات میں جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور جس وقت سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں اشتراکی نظام اور دولت کے ارتکاز اور اس کی تقسیم کے ضمن میں مرتب ہونے والے افکار کے بارے میں ہندوستان کے عام تو کیا خاص لوگ بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔ کارل مارکس کی مشہور زمانہ کتاب ''داس کیپیٹال'' ابھی لکھی بھی نہیں گئی تھی جب دہلی کے کسی تنگ و تاریک مکان میں ایک ایسے شخص میر تقی میر جس نے شاید ساری زندگی میں چند سو کلومیٹر سے زیادہ سفر نہیں کیا تھا ایک ایسا شعر کہہ دیا جس میں اس پوری کتاب کا خلاصہ دو مصرعوں میں بیان ہو گیا ہے اس نے لکھا۔
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انھی کی دولت سے
(مجھے اس کا پہلا مصرعہ کچھ اس طرح یاد تھا کہ ''امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر'' مگر دیوان میں اس کی مندرجہ بالا شکل درج ہے چنانچہ میں اسی کے ساتھ چلا ہوں اگرچہ ذوقی سطح پر میرا ووٹ اب بھی اپنی یادداشت والے مصرعے ہی کی طرف ہے) اب یہ کیسے ممکن ہوا اس کا جواب تو میرے پاس نہیں ہے مگر یہ طے ہے کہ میر صاحب کی کبھی کارل مارکس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
اسی طرح مصحفی کا یہ شعر بھی بے حد قابل غور ہے کہ شمالی ہند پر انگریز کے تسلط سے قبل اس نے کس طرح سے اس کی ان سیاسی چالوں کو سمجھ لیا جن کی وجہ سے چند ہزار گورے کروڑوں ہندوستانیوں کو غلام بنانے میں کامیاب ہو گئے انگریزی فوجی قوت اور جدید توپ خانے کی تباہ کن صلاحیت کے بارے میں معلومات تو سمجھ میں آتی ہیں مگر اس شعر میں ''بہ تدبیر'' کی ترکیب کیسے در آئی یہ بات سمجھنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے
ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ بھی تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی
اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس کی وضاحت اس نے جس شعر میں کی ہے اس میں انگریزی لفظ Council کو بطور قافیہ استعمال کیا گیا ہے جو اپنے انتخاب' معنی آفرینی اور محل استعمال کے باعث اپنی جگہ پر الگ سوال کی حیثت رکھتا ہے وہ کہتا ہے
ہاتھ سے گوروں کے جانبر کیونکہ ہوویں اہل ہند
کام کرتے ہی نہیں ہر گز یہ بن کونسل کیے
اور ان دونوں سے زیادہ حیرت انگیز اور بصیرت افروز وہ شعر ہے جس میں اس نے ایک طبی اصطلاح کو ایک سیاسی مضمون اور صورت حال کے ساتھ اس طرح آمیز اور منطبق کیا ہے کہ واقعی عقل گم اور ناطقہ سر بگریباں ہو جاتا ہے۔ مصحفی کے عہد میں جس طرح سے مغل حکومت اور سلطنت دہلی کا کنٹرول اپنے زیر تسلط علاقوں سے اٹھ رہا تھا اور خود مختار ریاستیں دھڑا دھڑ جنم لے رہی تھیں اس کی کیا باکمال تصویر اس شعر میں نظر آتی ہے کہ
یا رب شفا دے اس کو کہ عضووں کو چین ہو
خیلے خلل میں ہے سر ہندوستان کا مغز
مغز جیسی بے مغز اور ادق ردیف میں اس طرح کا شعر نکالنے کے لیے شاعر کے شعور کی سطح کو جو بلندی اور گہرائی چاہیے وہ معیار کے اعتبار سے کئی محققین اور مورخین پر بھاری پڑتی ہے۔
اسی طرح سے خواجہ میر درد کا ایک شعر بھی میرے لیے کب سے معمہ بنا ہوا ہے خواجہ صاحب 1784 میں انتقال فرما گئے تھے اس وقت تک انگریز ابھی بنگال سے آگے نہیں بڑھے تھے اور قید فرنگ کا وہ تصور جو آگے چل کر بہادر شاہ ظفر اور جان عالم واجد علی شاہ کے حوالے سے عام ہوا ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا نواب سراج الدولہ کے پلاسی کی جنگ میں شکست کھا کر قیدی بننے کی اطلاع تو ضرور دہلی تک پہنچ گئی ہو گی مگر ابھی تک اس میں معمول کی قید اور قید فرنگ کا مخصوص استعاراتی فرق قائم نہیں ہوا تھا اور جہاں تک بتان فرنگ کا تعلق ہے تو خواجہ میر درد کی درویشانہ زندگی اور وفات تک یہ دلی والوں کے مشاہدے میں ہی نہیں آئے تھے اب اس پس منظر میں ان کے اس شعر کو دیکھا جائے تو درمیان میں کوئی ایسا ربط دکھائی نہیں دیتا جس سے اس کی معنویت کو کوئی معقول دلیل مل سکے۔ شعر دیکھئے
کب ہے دماغ عشق بتان فرنگ کا
مجھ کو تو اپنی ہستی ہی قید فرنگ ہے
اور اب دہلی پر انگریز کے باقاعدہ قبضے اور 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد دہلی کا منظر غالب کی نظر سے دیکھئے ایسی تفصیل تو شاید آج کے جدید ترین کیمرے بھی فلم بند نہ کر سکیں جو اس عظیم فن کار نے ان چند شعروں میں محفوظ کر دی ہے
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے اب انساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہر دلی کا ذرہ ذرہ خاک
تشنہ خوں ہے ہر مسلماں کا