یہ جنگ تو برپا ہونا تھی

ہم حالت جنگ نہیں حالت عذاب میں ہیں۔ یہ حالت عذاب ہماری تطہیر کرے گی


Orya Maqbool Jan April 06, 2015
[email protected]

کیا یہ سب خاندان جو جزیرہ نمائے عرب کے شمالی کونے میں واقع ایک بے آب و گیاہ علاقے میں آباد ہو گئے یا کر دیے گئے، ان کے پاس دولت، جائیداد، کاروبار یا عیش و عشرت کی کمی تھی۔ کیا ان کا بچپن یا ان کے باپ دادا کا بچپن اس سرزمین پر گزرا تھا کہ انھیں پل پل اس کے گلی کوچوں کی یاد ستاتی تھی اور وہ اپنے آبائی گھروں میں جا کر آباد ہونا چاہتے تھے، اپنے قدیمی گلی محلوں میں کھیلنا کودنا چاہتے تھے۔ ایسا تو ہرگز نہ تھا۔

یہ سب لوگ جو انگلینڈ، یورپ کے دیگر ممالک اور امریکا کی ترقی یافتہ آبادیاں چھوڑ کر یہاں آباد ہوئے، اپنے اپنے علاقوں کے متمول ترین لوگ تھے، خوبصورت گھروں میں رہتے شاندار گاڑیوں میں سفر کرتے اور وسیع کاروبار کے مالک ہوتے تھے۔ ان ملکوں میں امن، خوشحالی اور سلامتی بھی تھی۔ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری بھی لیکن جہاں وہ جا کر آباد ہو رہے تھے وہاں تو نہ پانی، نہ سبزہ، سڑکیں نہ عمارات، ایک بے آباد سرزمین اور وہاں پر آباد عرب ان کی جان کے دشمن۔ اس کے باوجود وہ اپنا سب کچھ بیچ کر فلسطین کے علاقے میں جا کر آباد ہو گئے۔ یہ آباد نہیں ہوئے بلکہ انھیں جنگ عظیم اول کے بعد اتحادی افواج کے سرکردہ ملک برطانیہ نے آباد کیا۔ یہ وہ قصہ ہے جو آج بحرین، شام، ایران، یمن، لبنان اور دیگر عرب ممالک میں جنگ و جدل کی بنیاد ہے۔

ایک شخص تھا سر مارک سائیکس (Sir Mark Sykes) اس کا والد انگلینڈ کا ایک مالدار شخص تھا۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ سردیوں میں خلافت عثمانیہ کے تحت مشرق وسطیٰ کے علاقوں میں نکل جاتا۔ اپنے اس سفر سے جو اس نے معلومات اکٹھا کیں ان سے اس نے کتابیں لکھنا شروع کر دیں جو خلافت عثمانیہ، مشرق وسطیٰ اور اسلام کے متعلق تھیں جن میں Dar-ul-Islam اور The Caliph's Heritage بہت مشہور ہوئیں۔ 1897ء میں وہ فوج میں بھرتی ہوگیا، لیکن اپنے مزاج کی وجہ سے وہاں زیادہ دیر نہ رک سکا۔ اسے آئرلینڈ کے چیف سیکریٹری کا پارلیمنٹری سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ یہاں اس نے ترکی، مشرق وسطیٰ اور دیگر اسلامی ممالک پر نظر رکھنے والوں کا ایک گروہ ترتیب دیا۔

جنگ عظیم اول کا آغاز ہوا تو اسے لڑنے کے لیے محاذ پر نہیں بھیجا گیا، بلکہ اسے لارڈ کچنر (Kichner) کے دفتر میں خصوصی حیثیت سے تعینات کیا گیا۔ وہ جلد ہی مشرق وسطیٰ کے بارے میں اتھارٹی سمجھا جانے لگا۔ اس نے تاریخ میں پہلی دفعہ جنگ کے دوران قدیم یونانی نام، شام کے لیے Mesopomsa, Palutine, Syria وغیرہ استعمال کرنا شروع کیے۔ اسی نے ترکوں کے خلاف حجاز میں شریف مکہ کی قیادت میں ابھرنے والی خانہ جنگی کے لیے چار رنگوں (سبز، سرخ، سیاہ اور سفید) پر مشتمل ایک جھنڈا بنا کر دیا۔ یہ چاروں رنگ آج بھی اردن، عراق، شام اور مصر کے جھنڈوں میں شامل ہیں۔ مارک سائیک کے جنگ کے نوٹس پڑھنے والے ہیں۔ اس نے کہا تھاکہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ پین اسلام ازم سے ہے۔ پین اسلام ازم کے کینسر کو ختم کرنے کے لیے خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔

خلافت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے یورپ میں موجود صیہونی یہودیوں سے ملاقاتیں شروع کیں اور انھیں تاج برطانیہ کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ اسی دوران نومبر 1914ء کو برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس کے چار دن بعد برطانوی کابینہ میں ڈیویڈ لائڈ جارج نے یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کے منصوبہ کا خاکہ پیش کیا۔ مارک نے فرانس کے سفارت کار فرانکوئس پی کوٹ (Francois Picot) کے ساتھ مل کر برطانیہ کا فرانس کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ کروایا جسے Asia Minor Agrement کہتے ہیں۔ اس کے تحت خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے ہوں گے تو کون کونسا علاقہ کس ملک کے پاس جائے گا۔

برطانیہ کے پاس دریائے اردن اور سمندر کے درمیان کا علاقہ جس میں آج کل اسرائیل واقع ہے اور جنوبی عراق جب کہ فرانس کے پاس جنوب مشرقی ترکی، شمالی عراق، شام اور لبنان اور روس کے پاس استبنول وغیرہ آنے تھے۔ یوں حیفہ اور ہیبرون کا علاقہ برطانیہ کے ہاتھ آ گیا جہاں انھوں نے صیہونی یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے انھیں وہاں آباد کرنا تھا۔ سائیکس اور پائی کوٹ نے اپنی مرضی سے پورے مشرق وسطیٰ کے نقشے پر لکیریں کھینچی جنھیں آج اردن، لبنان، عراق، شام، یمن، سعودی عرب اور دیگر ریاستیں کہتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس کے ساتھ ہی صیہونی میمورنڈم جنوری 1915ء میں برطانوی کابینہ میں پیش کیا گیا۔ یورپ کے یہودی استقدر بااثر تھے کہ کابینہ نے ان کے میمورنڈم پر غور کیا اور 1916ء میں بالفور ڈیکلریشن وجود میں آیا جس کے الفاظ تھے۔

''His Majesty's Government View with favour the establihment of a national Home for Jewish people, and will use their best endeavours to facilitate the achievemt of their object''

(تاج برطانیہ اور اس کی حکومت یہودیوں کے ایک قومی گھر کے قیام کو اچھی نظر سے دیکھتی ہے اور وہ اس کے حصول کے لیے اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے گی۔'')

پھر اس کے بعد دنیا بھر سے یہودی اپنی جائیداد فروخت کر کے اس دشت میں جا کر آباد ہونے لگے جہاں انھیں کوئی پہچانتا تک نہ تھا۔ جہاں چاروں جانب ان کے دشمن تھے۔ کیا یہ سب کسی نسل، رنگ، زبان اور علاقے کے جذبات تھے جو انھیں وہاں لے کر آئے۔ ہرگز نہیں۔ وہ اپنے مذہب کے مطابق انسانی تاریخ کی آخری اور سب سے بڑی جنگ لڑنے کے لیے وہاں جمع ہوئے ہیں جس کے بعد ان کا مسیحا آئے گا اور انھیں داؤد اور سلیمان جیسی عظیم عالمی حکومت قائم کر کے دے گا۔ یہ جنگ انھوں نے مسلمانوں سے لڑنا ہے۔ کیا ہم تیار ہیں۔ کیا ہم ویسے ہی گھر بار چھوڑ کر ایک جگہ اکٹھا ہونے کے قابل ہیں۔ ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی تو فرمایا تھا ''ایک زمانہ میں تم یہودیوں سے جنگ کرو گے اور تم یہودیوں پر غلبہ پاؤ گے۔ (متفق علیہ)

لیکن اس وقت سے پہلے کتنا کچھ ہے جو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور وہ وقوع پذیر ہو چکا۔ آپؐ نے فرمایا ''اسلام کی کڑیاں ضرور ایک ایک کر کے ٹوٹیں گی۔ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ اس کے بعد والی کڑی کو پکڑ لیں گے۔ اس میں سب سے پہلے جو کڑی ٹوٹے گی وہ اسلامی نظام عدالت (خلافت) کی کڑی ہو گی اور سب سے آخری کڑی نماز ہو گی (شعب الایمان)۔ خلافت ٹوٹ گئی، اب قومی ریاستیں ہیں، لیکن میرے آقاؐ نے خبر دے دی تھی ''جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہو گا جب تک مصر خراب نہ ہو جائے'' (الفتن) فرمایا۔ ''عنقریب تم افواج کو پاؤ گے شام، عراق اور یمن میں'' (للبیہقی) پھر فرمایا ''جب شام میں فساد ہو تو تمہاری خیر نہیں (مسند احمد بن حنبل) اس حدیث پر غور کریں ''قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ اہل عراق کے اچھے لوگ شام کی طرف منتقل نہ ہو جائیں اور اہل شام کے شریر لوگ عراق کی طرف منتقل نہ ہو جائیں، تم شام کو لازم پکڑے رہنا (مسند احمد بن حنبل)۔

احادیث کی ایک طویل فہرست ہے جس میں اس امت کو خبردار کیا گیا۔ اس دور فتن کے بارے میں کہ جب یہ امت ایسے عذابوں کا شکار ہو گی جیسے تسبیح کا دوڑا ٹوٹ جائے اور دانے اوپر نیچے گرنے لگتے ہیں۔ ہم حالت جنگ نہیں حالت عذاب میں ہیں۔ یہ حالت عذاب ہماری تطہیر کرے گی۔ اس لیے کہ آخری بڑی جنگ سے پہلے دنیا نے دو خیموں میں تقسیم ہونا ہے۔ ایک جانب مکمل ایمان اور دوسری جانب مکمل کفر۔ نفاق کا خاتمہ ہو گا۔ نفاق حکومتوں میں ہو یا افراد میں سب ختم ہو جائے گا۔ تقسیم واضح ہوتی جائے گی۔ اس لیے کہ حالت جنگ میں کسی ایک جانب ہونا پڑتا ہے۔ منافق دونوں اطراف کی تلواروں کی زد پر ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں