آگ لگا دیا کرو

ان کی پیاس اگر اُس سے بھی نہیں بجھتی تو یہ ہمارے لہو کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر اپنے جام بھرتے ہیں


انیس منصوری April 05, 2015
[email protected]

ان ظالموں کی یہ حیوانگی ہے کہ جب کبھی بھی ہمارے زخم بھرنے لگ جاتے ہیں تو یہ پہلے اُسے کریدتے ہیں جب ہماری چیخوں سے زمین لرزنے لگ جاتی ہے تو یہ اُس پر نمک چھڑکتے ہیں تاکہ ہماری سسکیاں آسمانوں تک بھی پہنچ جائے اور پھر زور دار قہقہے لگا کر ہمیں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ تم چاہے کچھ بھی کر لو اس زمین کے خدا ہم ہی ہیں ۔شہر کا شہر اگر ان کے دربار میں فریادی بن کر بیٹھا ہو تو یہ صاحب ِکمال لوگ سارے شہر کو آگ لگا کر اُس پر فخر کرتے ہیں ۔

ان کی پیاس اگر اُس سے بھی نہیں بجھتی تو یہ ہمارے لہو کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر اپنے جام بھرتے ہیں ۔انھیں معلوم ہے کہ ان کی بھوک مٹانے کے لیے روز کوئی سائل ان کے دربار میں حاضر ہو گا اسی لیے انھیں کوئی غم نہیں کہ ہم جیتے ہیں یا مرتے ہیں ۔ انھیں ہر روز مقتل سجا ہوا چاہیے اور اس خداداد میں ہم بہت سارے ہیں ۔

یہ سمجھتے ہیں کہ روز دو بار شور مچا دینے سے اور تسیلیاں دینے سے ہم بھول جائینگے مگر یاد رکھیں کہ ہماری آہوں میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ جمہوریت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ کسی بہانے سے حکومت میں آجائے ۔ جمہوریت تو رویے کا نام ہے ۔ لوگوں کی حکومت جو لوگ منتخب کرے یہ تو آپ فرماتے ہیں ۔ لیکن لوگوں کی حکومت جو لوگوں کو اُن کی دہلیز پر امن دے جو اُن کے دروازے پر انصاف دے ۔ یہ کیسی حکومت ہے جس میں جب تک شور نہ برپا ہو تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔

یمن پرآپ نے بڑے بڑے اور وکھرے قسم کے اجلاس کر لیے ، لیکن آپ کو معلوم ہے کہ یہاں ہر روز ہر شہر میں کس کس نام سے بربریت مچائی جاتی ہے ۔ حکومت اُن رسومات اور طاقتوں کے آگے کس طرح سر جھکا کر کھڑی ہوتی ہے ۔ چھوڑیے لاہور جیسے بڑے شہر میں شور مچا تو آپ کو خیال آیا کہ کسی زین کا خون بہا ہے ۔

لیکن یہاں کا نظام کیسے وکھرا ہے ۔ کیا ہوا ایسی ہی تو قیامت شاہ زیب کیس میں مچائی گئی تھی ۔ لمحوں میں فیصلہ کرنیوالے سالوں میں بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔ جب بڑے اور ہائی پروفائل کیسس کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو کون آکر آنسو صاف کریگا اُن بے کس اور غریب لوگوں کا جو مقدموں میں فائلوں کا پیٹ تودور کی بات اپنے بچوں کے منہ میں دو وقت کے نوالے بھی پورے نہیں دے سکتے ۔

کیوں آپ کوئی نظام نہیں بنا سکتے ۔ کیا یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ تو رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر نہیں۔ لیکن طاقت ور ہماری عزتوں کو پامال کر کے چلا جائے ہماری بیٹیوں کو ہمارے سامنے نوچ لے اور پھر وہ با عزت کا خطاب لے کر ہماری گردنوں کو تن سے جدا کر دے پھر بھی کوئی قیامت برپا نہ ہو تو اُس سے بڑی ناکام ریاست کون سی کہلائیگی ۔ کیا کرنا ہے ایسے ایٹم بم کا اور کیا کرنا ایسے نظام کا ۔

ہاں میں جذباتی ہوگیا ہوں ۔ جب میرے سامنے ہر روز یہ خبر موجود ہوتی ہے کہ آج پھر اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میری کسی بیٹی کے سر سے عزت کا نام چھین لیا گیا۔یہ گھوٹکی ہے ۔ وہ ہی گھوٹکی جسے راجہ داہر کے ایک رشتہ دار نے ابتدائی طور پر آباد کیا تھا ۔کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ ایک لڑکی کے خط پر کیا تھا لیکن کیا اس کے بعد سے گھوٹکی کے حالات نہیں بدلے؟ اور آج بھی ایک مقتول بیٹی کی روح ، ایک نیم جاں ماں ایسے ہی فریاد کر رہی ہے ۔

جمہوریت ہو یا آمریت یہ ظلم ایسے ہی جاری ہے ۔ کون سا نیا نظام کون سا نیا قانون کون سا نیا فیصلہ اور کون سے کمیشن ۔ سب کو پیروں تلے روندھ دیا جاتا ہے ۔ہمیں تو بچپن سے بتا بتا کر جوان کیا گیا اور یہ ہی سمجھا سمجھا کر بوڑھا کر دیا گیا کہ ایک لڑکی کے خط پر اس خطے پر قیامت آگئی تھی تو کوئی مجھے بتائے اسی گھوٹکی کی 12 سالہ لڑکی کے لیے اب کون آئیگا ۔

اس بیچاری کا قصور کیا تھا ؟ایک بارہ سالہ کی لڑکی اور تین ملزمان ۔بیچارہ خاندان گھر میں چادر بنا کر فروخت کرتا ہے ۔ تین وحشی پہلے چادر خریدنے کے بہانے اس کے گھر پر آئے۔ اور انھوں نے زبردستی اُس لڑکی کو پکڑ کر زیادتی کی ، ظلم کی انتہا دیکھیں کہ اُس کے بعد اُس معصوم سی کلی کو آگ لگا دی گئی ۔ کہاں گئے بڑے بڑے جمہوریت کے دعوے ، کہاں گئے وہ لوگ جن کے پاس ہر طرح کے مرض کا علاج آپریشن ہے ؟ کسی کو خیال نہیں آیا کہ اُس بچی کو بچاتے ہوئے ماں 60 فیصد سے زیادہ جل گئی ۔ آپ بتائیں کیا ہو ۔

اس حال میں ایک بے کس باپ ایک لاچار شوہر جب تھانوں کے چکر لگائے اور کوئی اُس کا کیس سننے والا نہ ہو مجبوراً وہ عدالت کا رخ کرے اور پھر بھی کسی کے پیروں سے زمین سرکنے کی آواز نہ سُنائی دے۔ ہمیں ہر دوسرے ملک کی دوستی عزیز ہے، ہم اُس کا دفاع کرینگے پر کوئی ہمارا بھی تو دفاع کرے ۔ہمیں کب تک زندہ لاش بنا کر سجایا جائیگا ۔لیکن اب آپ مایوس مت ہونا، جوڈیشل کمیشن بن چکا ہے اب کسی کی عظمت کو کچھ نہیں ہو گا ۔اورA246 Nکہ بعد تو سب امن ہو گا ایسا ہی کہ جیسا ایک سابق وزیر اعلیٰ کے علاقے میں ہوا۔ یہاں درندگی کی وہ مثال سنیں ؟

گجرات بھی تو جمہوریت والوں کا ہی علاقہ ہے ۔ جہاں سے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بھی بنے ۔ تو وہاں کے لیے بھی ایک جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے کسی کو معلوم ہے کہ کہ کچھ دن پہلے وہاں کیا قیامت برپا کی گئی ہے ۔ پولیس کے کئی لوگ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ۔ مگر بھول جاتے ہیں کہ آگ کسی کی نہیں ہوتی ۔ وہاں بھی ایک انسپکٹر کا بیٹا تھا ۔ارسلان کا قصور ہر گز یہ نہیں ہوگا کہ وہ انسپکٹر کا بیٹا تھا لیکن شاید یہ ضرور تھا کہ وہ بھی اس ملک میں رہتا ہے جہاں بہت سارے انسپکٹروں نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہے۔ ارسلان کو باپ نے ایک میوزک پلیئر خرید کر دیا ہوا تھا ۔

وہاں موجود طاقت ور زمیندار کے بیٹے نے اُس سے وہ لے لیا ۔ جب ارسلان نے وہ واپس مانگا تو یقیناً زمیندار صاحب کی شان میں گستاخی ہو گئی تھی ۔ اُسے بری طرح مارا گیا لیکن یہ مار تو شاید اس بات کی سزا تھی کہ اُس نے میوزک پلیئر مانگا تھا مگر زمیندار کی شان میں گستاخی کی سزا اتنی چھوٹی نہیں ہو سکتی ۔ زمیندار نے اُسے زمین کے اندر زندہ دفن کر دیا ۔ 10 گھنٹے تک جب ارسلان کا پتہ نہ چلا تو گھر والوں نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی ۔ اور پھر مظاہرہ بھی کیا ۔ گھر والوں اور علاقے والوں نے خود چھان بین کی تو انھیں ساری صورتحال کا اندازہ ہو گیا ۔ مگر وہ ہی پولیس جس کی ایک عمر تک ارسلان کے باپ نے خدمت کی تھی اُس کے ہاتھوں سے ملزم نکل گئے ۔

اور کون سا واقعہ بتاؤں کہ جس میں پچھلے ہفتے سانگھڑ میں ایک زمیندار نے مظلوم ہاری کو ایک چھو ٹی سی بات پر قتل کر دیا ۔ اور پھر کسی نے نہیں پوچھا کہ ایک نچلی ذات کے اُس ہندو ہاری کے لیے کسی نے کیوں آواز نہیں اٹھائی ۔ اور کوئی کیوں اٹھائے گا۔ ہمارے پاس کیا یمن کا دکھ کم ہے ہمارے پاس کیا NA246 میں سیاسی نہاری کم ہے ۔ ہمارے پاس ایک شادی کا ہال زیادہ اہم ہے یا ایک بیٹی ۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کی چھوٹی سی بیٹی کی شہادت خبر نہیں بن سکتی وہ ہماری عزت کا سوال نہیں بن سکتا ۔

اجتماعی طور پر سوچ لیجیے ۔ کیونکہ یاد رکھیں نہ آپ طاقت ور ہیں اور نہ میں ، تو یہ آگ کہیں پر بھی لپک سکتی ہے ۔ جہاں تک ان طاقت کے سرچشموں کا سوال ہے تو یہ ہر بار ہمیں نئے زخم دیتے رہیں گے کیونکہ پیرزادہ قاسم صاحب نے کہا ہے کہ

شہر طلب کرے اگر تم سے علاجِ ِتیرگی
صاحبِ اختیار ہو آگ لگا دیا کرو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں