میرا دل ہے پاکستان میں
برادر عزیز ابرارالحق کا فون آیا کہ لندن سے ان کے ایک دوست ڈاکٹر سجاد کریم پاکستان آئے ہوئے ہیں۔
لاہور:
برادر عزیز ابرارالحق کا فون آیا کہ لندن سے ان کے ایک دوست ڈاکٹر سجاد کریم پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ وہ یورپی پارلیمنٹ کے پہلے پاکستانی اور مسلمان ممبر بھی ہیں اور ایک اعتبار سے محسن پاکستان بھی کہ ان کی محنت اور کوشش سے یورپ میں پاکستانی برآمدی اشیاء سے 10% کے قریب درآمدی ٹیکس بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ کہ یہ بات کسی کارنامے سے کم نہیں۔ مقصد اس تقریب کا ابرار کے نزدیک سجاد کریم کو اپنے احباب، اہم تاجروں اور اپنے پی ٹی آئی کے دوستوں سے ملوانا تھا۔
اگلے 24 گھنٹوں میں ابرارالحق اور اس کے سیکریٹری کی طرف سے یاد دہانیوں کا تانتا بندھا رہا جس سے اندازہ ہوا کہ وہ اس تقریب کے بارے میں کس قدر سنجیدہ اور پر جوش ہے۔ انگلستان کے مختلف دوروں کے دوران اور وطن عزیز میں بہت سے ایسے تارکین وطن پاکستانیوں سے ملاقات رہی ہے جو وہاں کی سیاست میں نہ صرف عملی طور پر حصہ لیتے ہیں بلکہ ان میں سے بعض مثلاً چوہدری محمد سرور اور لارڈ نذیر تو اب انتہائی جانے پہچانے اور محترم نام بن چکے ہیں۔
برطانیہ میں پاکستانیوں کی باجماعت قسم کی آمد کا سلسلہ تو 1960ء کے لگ بھگ شروع ہوا جب منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے آزاد کشمیر کے بعض علاقے جھیل کا حصہ بن گئے اور وہاں سے بے گھر ہونے والے ہزاروں لوگ اور خاندان برطانیہ کے مختلف شہروں بالخصوص برمنگھم، مانچسٹر، بریڈ فورڈ اور گلاسگو میں آباد ہو گئے۔ ان لیبر کلاس کے لوگوں کی اکثریت جاہل اور انگریزی سے نابلد تھی مگر آہستہ آہستہ انھوں نے اپنی محنت اور ذہانت سے اس معاشرے میں اپنے لیے مستقل جگہ بنا لی اور اب یہ حال ہے کہ ان کی تیسری اور چوتھی نسل زندگی کے ہر شعبے میں گوروں کے ساتھ قدم بقدم چل رہی ہے۔
نوّے کی دہائی تک یہ لوگ برطانوی شہری ہونے کے باوجود ہر اعتبار سے پاکستانی ہی رہے، ان کا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا اور دائرہ احباب اپنے ہی لوگوں تک محدود رہا مگر آہستہ آہستہ ان میں سے کچھ لوگوں نے پہلے مقامی اور پھر ملکی سیاست میں باقاعدہ حصہ لینا شروع کیا اور اب تو نہ صرف ان کی تعداد قابل لحاظ ہو چکی ہے بلکہ ان میں سے کچھ لوگ تو بین الاقوامی سطح پر بھی پہچانے جانے لگے ہیں۔ ڈاکٹر سجاد کریم کا تعلق اسی منتخب گروہ سے ہے وہ صرف 44 برس کے ہیں لیکن یورپی پارلیمنٹ کا وہ گزشتہ گیارہ برس سے حصہ ہیں جو یقینا ایک قابل فخر بات ہے۔
معلوم ہوا کہ ان کی حالیہ پاکستان آمد اس خصوصی اور اہم سرکاری ایوارڈ کو وصول کرنے کے لیے تھی جو ان کو 23 مارچ کے تقسیم اعزازات کی خصوصی تقریب میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر مجھے اپنے برمنگھم کے مرحوم دوست انور مغل بہت یاد آئے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو یقینا کسی ایسے یہ اعزاز کے حق دار ٹھہرتے۔
ہوٹل کی ریسپشن پر موجود عملے نے تقریب کے مقام کے ضمن میں اس قدر غلط اور متضاد اطلاعات دیں کہ لفٹ میں میرے ساتھ موجود مشہور بزنس مین اقبال زیڈ احمد اور ایک اور صاحب ایک ہی تقریب کے مہمان ہونے کے باوجود مختلف فلورز کے بٹن دبا رہے تھے۔ کوئی تین چار دفعہ اوپر نیچے جانے کے بعد بالآخر ہمیں ایک ایسے فلور پر متعلقہ کمرہ ملا جس کا بٹن ہم تینوں میں سے کسی نے بھی نہیں دبایا تھا۔
محفل میں کئی شناسا چہرے نظر آئے جن میں سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد، سابق سفیر میجر جنرل (ر) سلیم میلہ، عاشق حسین قریشی، اے ٹی ایس کے میاں انجم نثار، سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور عزیز دوست خواجہ خاور انور، علامہ اقبال کی بہو محترمہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال، ابرار الحق کے بھائی میجر اسرار اور میرے لفٹ شریک اقبال زیڈ احمد سمیت کئی اور لوگ شامل تھے۔
ابھی تقریب کا آغاز نہیں ہوا تھا اور غیر رسمی قسم کی گفتگو کا دور چل رہا تھا جب میں پہنچا اس وقت سجاد کریم (جن کا آبائی تعلق منڈی بہاؤالدین سے ہے اور جو انگلستان میں پیدا ہوئے اور پلنے بڑھنے کے باوجود اپنی دہری شہریت پر ناز کرتے ہیں) ایک لطیفہ نما واقعہ سنا رہے تھے کہ کس طرح چند برس قبل پاکستان آمد پر انھیں پہلی بار اردو اور پنجابی میں تقریر کرنے کا تجربہ ہوا جس کا نچوڑ یہ تھا کہ مکالمے کے لیے بہترین زبان اپنی زبان ہی ہوتی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے بعد تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک کی ساری کی ساری کارروائی انگریزی میں ہوئی حالانکہ وہاں ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جسے اردو یا پنجابی نہ آتی ہو پتہ نہیں یہ کس قسم کا کامپلکس ہے جو کامن سنس کو بھی تسلیم کرنے سے عاری ہے۔
ڈاکٹر سجاد کریم نے بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے اگرچہ بہت سی خیال افروز باتیں کیں مگر جس بات کا حاضرین پر سب سے زیادہ اور گہرا اثر ہوا وہ یہ تھی کہ ان لوگوں کو صرف وطن پیسہ واپس بھیجنے والی آسامیاں نہ سمجھا جائے ان کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کو اگر اسی طرح قومی دھارے سے دور رکھا گیا تو ان کی آئندہ نسلیں عملی طور پر ہم سے دور اور ناآشنا ہو جائیں گی۔
ابرارالحق نے اپنی تعارفی تقریر میں بتایا کہ ڈاکٹر سجاد کریم نے یورپی پارلیمنٹ میں جس طرح سے پاکستان کے لیے خصوصی مراعات کی راہ ہموار کی ہے اس سے اگر خاطر خواجہ فائدہ اٹھایا جائے تو پاکستان کی ایکسپورٹس ایک برس میں دگنی ہو سکتی ہیں۔
خاور انور اور انجم نثار صاحبان نے تجارت اور شمشاد احمد صاحب نے ہمارے عمومی قومی رویوں کے حوالے سے سجاد کریم اور ان جیسے کچھ اور وطن دوست تارکین وطن کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان مسائل کی نشاندہی بھی کی جن کی وجہ سے ہم بحیثیت ایک قوم کے ان مواقع سے وہ فوائد حاصل نہیں کر پا رہے جو یہ لوگ وطن عزیز کے لیے رضاکارانہ طور پر اور محض حب وطن کی سرشاری میں مسلسل پیدا کرتے رہتے ہیں۔
بہت سے دوستوں نے حالات حاضرہ کے پس منظر میں گوناگوں مسائل کا تذکرہ کیا اور مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ سجاد کریم نے سب باتیں سننے کے بعد مثالیں دے کر بتایا کہ یہ سب خرابیاں کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ لوگ اجتماعی سطح پر ان سے ہار نہیں مانتے اور ہم اپنی بات کا آغاز ہی شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ کرتے ہیں۔
Diversity is the biggest strength of Europe
سجاد کریم کی یہ حیرت بھی اپنی جگہ بجا تھی کہ یوتھ کے اس قدر بھاری تناسب کے باوجود ریاست ان سے استفادے کے لیے کچھ نہیں کر رہی Skilled Labour کو بھی ڈھنگ کا روزگار نہیں ملتا اور ہماری یونیورسٹیاں Job Creators کے بجائے Job Seekers پیدا کرتی جا رہی ہیں۔ نوجوانوں کی Grooming کے لیے کوئی پالیسی وضع نہیں کی گئی ہم ہر وقت مستقبل کی بات کرتے ہیں مگر اس بات کو ''آج'' سے شروع ہونا چاہیے۔ مغرب کی دنیا میں پاکستانیوں کا عمومی تاثر یہ ہے کہ ''انفرادی طور پر شاندار اجتماعی سطح پر بالکل بے کار''
نہ ہماری پارلیمنٹ، پارلیمنٹ کی طرح کام کرتی ہے اور نہ دوسرے شعبے اور افراد یہ روز روز کی APC یعنی آل پارٹیز کانفرنس دنیا بھر کی جمہوریتوں کے لیے ایک عجوبہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے بنیادی فیصلے اس کو ایک طرف رکھ کر کیے جاتے ہیں۔
ذاتی طور پر مجھے اس نوجوان اور ہر اعتبار سے ایک کامیاب پاکستانی کی سوچ اور اپروچ بہت اچھی لگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چالیس لاکھ بیرون وطن مقیم یا دوہری شہرت کے حامل پاکستانیوں میں موجود ہر شعبے کے سجاد کریموں کو تلاش کر کے ان کی صلاحیتوں سے بیش از بیش فائدہ اٹھایا جائے کہ ماضی قریب میں کئی اور ملکوں سمیت بھارت اور چین کی غیر معمولی ترقی کا ایک بہت بڑا سبب بھی اپنے اپنے بیرون وطن مقیم باشندوں کی واپسی اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ بھی ہے۔