چلو بائیسکل چلائیں

ملک میں کرپشن کے بے شمار سرچشمے ہیں اس لعنت کے خلاف احتجاج کے علاوہ نشاندہیاں بھی ضروری ہیں۔


Hameed Ahmed Sethi April 05, 2015
[email protected]

اگرچہ میں نے ایک بار بڑے شہروں کے فٹ پاتھوں کے رفتہ رفتہ ٹوٹ کر سڑکوں کا حصہ بنتے چلے جانے کے عمل کے خلاف لکھ کر پیدل چلنے کے شوقین حضرات کی آواز حکام بالا تک پہنچانے کی سعی کی تھی لیکن اس کے جواب میں کمیشن مافیا نے فلائی اوورز اور انڈر پاسز کا جال بچھانا شروع کر دیا تو میرے ایک بے تکلف دوست نے کالم کا مذاق یوں اڑایا کہ ''لو ہور چُوپو'' یعنی ''اور چوسو'' تو پھر میں بھی اپنا سا منہ لے کر چپ ہو رہا۔

اب یکم اپریل کے روز اچانک میری نظر پھولوں سے لدے ایک سائیکل سوار کی تصویر پر پڑی جو اخبار کے صفحہ اول پر چھپی تھی تو پہلے میں نے اسے سرسری طور پر دیکھ کر اپریل فول کا بھونڈا مذاق سمجھا لیکن غور سے دیکھ کر خبر پڑھی تو سنجیدہ ہی تھا اور سات روز قبل چل کر اپنے حلقہ انتخاب سے سائیکل چلاتے ہوئے آ رہا تھا اور اب قریباً ڈیڑھ سو گھنٹے بعد لاہور پریس کلب میں داخل ہونے جا رہا تھا۔ یہ اس کا کرپشن اور وی آئی پی کلچر کے خلاف انوکھا احتجاج تھا۔

ملک میں کرپشن کے بے شمار سرچشمے ہیں اس لعنت کے خلاف احتجاج کے علاوہ نشاندہیاں بھی ضروری ہیں۔ وی آئی پی کلچر زدہ بیمار لوگ ہیں ان کا علاج بھی ہونا چاہیے۔ دستی صاحب کو بھی اپنا مشن ایک عبادت سمجھ کر مزید بڑھانا چاہیے۔ انھوں نے بلٹ پروف گاڑی کی بجائے سائیکل پر سفر کیا ایسے سِمبالک سفر ہر شہر تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔

مجھے سائیکل کے حوالے سے وہ بائیسکل یاد آ گیا جو میرے اسکول کے استاد کے استعمال میں ہوتا تھا۔ اسکول کے سینئر ٹیچر مسرور صاحب ہمیشہ لائٹ رنگ کے سوٹ یعنی پینٹ کوٹ میں جس پر کوئی سلوٹ نہ ہوتی ملبوس ہوتے کوٹ کی جیب میں رومال ضرور ہوتا۔ میچنگ نیکٹائی پہنتے لیکن جس کا ذکر بطور خاص اہم ہے وہ ان کا بائیسکل تھا جو اتنا صاف ستھرا ہوتا کہ معلوم ہوتا ابھی ابھی کسی سروس اسٹیشن سے آیا ہے۔ وہ ہمیشہ مسکراتے ہوئے بات کرتے، ان کی قابلیت مسلّم تھی اس لیے طلباء ان کے پاس شام کی ٹیوشن بھی پڑھتے۔ چمکتی بلکہ لشکتی بائیسکل والے یہ استاد ہمارے پنجاب کے سابق چیف سیکریٹری امتیاز مسرور صاحب کے والد محترم تھے۔

سیالکوٹ ہی کے زمانہ تعلیم کی دوسری بائیسکل جو صرف میری ہی نہیں استاد مسرور صاحب کی سائیکل کی طرح مرے کالج کے ہزاروں طلبہ کے ذہنوں سے کبھی محو نہیں ہو سکے گی۔ وائس پرنسپل سی ڈبلیو ٹریسلر صاحب کی تھی۔ وہ گھڑی کے ٹائم کے مطابق سائیکل چلاتے ہوئے کالج میں داخل ہو کر اپنے کمرے کے سامنے آ کر رکتے جہاں منتظر نائب قاصد سائیکل تھام لیتا۔

مرے کالج کے سائیکل شیڈ میں بلکہ شہر کی دیکھی جانے والی سب سے شاندار بائیسکل جسے پانے کی آرزو یقینا ہر طالب علم کو ہو گی بہترین ڈریس میں ملبوس ہمارے کلاس فیلو مقصود الرحمن کی تھی۔ اس سائیکل کو تو سائیکل شیڈ کا نگران ہمیشہ پارک کرنے کے لیے لپک کر پکڑتا۔ مقصود لائق اور سلجھا ہوا اسٹوڈنٹ تھا اور اکثر کینٹین پر دوستوں کی شامی کبابوں اور چائے سے ضیافت کرتا۔ میرا خیال ہے وہ ہمیشہ میزبانی کر کے خوش ہوتا اور اس نے یہ روایت بحیثیت ڈائریکٹر ملٹری لینڈ ریٹائر ہونے کے بعد بھی قائم رکھی ہے۔

انڈیا سے سکھ حضرات کے ایک جتھے نے اپنے متبرک مقامات پر حاضری کے لیے آنا تھا۔ انھیں واہگہ بارڈر پر ویلکم کرنے چائے پانی سے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی خاطر مدارت کرنے کے بعد مڑھیاں رنجیت سنگھ اور پنجہ صاحب وغیرہ لے جانے آنے کی میری ذمے داری تھی لیکن انھیں واہگہ پر خوش آمدید کہنے کے لیے شہریوں کے چند نمائندے ہمراہ لے جانے تھے۔ میں نے میاں صلّی اور عید محمد صاحب کو فون پر مدعو کر لیا لیکن ڈاکٹر نذیر احمد پرنسپل گورنمنٹ کالج کے پاس حاضر ہو کر دعوت دینا مناسب سمجھا۔ میں پرنسپل کے کمرے میں پہنچا۔ بتایا گیا کہ وہ چند منٹ میں پہنچنے والے ہیں۔

میں پرنسپل کے کمرے کے باہر کھڑا ہو کر ان کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک سائیکل سوار نے آ کر وہاں سائیکل روکی تو نائب قاصد نے سائیکل تھام لی اور میری طرف دیکھ کر کہا پرنسپل صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ میں نے تعارف کرایا تو وہ مجھے دفتر میں لے گئے۔ میں نے مدعا بیان کیا تو انھوں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ یوں میں وقت مقررہ پر تینوں معززین کو سکھوں کے جتھے کے استقبال کے لیے واہگہ بارڈر لے گیا۔

لیکن جس چیز کا نقش میرے قلب و ذہن پر کندہ ہے وہ ملک کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ کی سواری ہے۔ مجھے کالج اسٹاف سے معلوم ہوا کہ سائیکل پر کالج آنا پرنسپل صاحب کا معمول تھا۔ اس وقت ہزاروں نہیں لاکھوں سابق راوینز دنیا بھر میں پھیلے ہوں گے۔ بڑے بڑے عہدوں پر متمکن ہوں گے لیکن ڈاکٹر نذیر صاحب اور ان کی سواری کا فخریہ ذکر کرتے ہوں گے۔ چند افراد کی سائیکل سواری کا ذکر ہوا۔ جمشید دستی کی سائیکل سواری کا رنگ اور مقصد کرپشن اور وی آئی پی کلچر کے خلاف احتجاج رجسٹر کروانا تھا جو خوش آئند بات ہے۔ لیکن جن کے خلاف تھا ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔

ہاں اس احتجاج سے عوام کا شعور ضرور جاگے گا۔ مسرور صاحب اسکول ٹیچر تھے اور ڈاکٹر نذیر کالج کے پرنسپل دونوں کا اپنی حیثیت کے مطابق سواری کا انتخاب کرپٹ لوگوں کو لائم لائٹ میں ضرور لائے گا، آج نہیں تو کل ان جونکوں کا یوم حساب آئے گا۔ استاد مسرور صاحب، ڈاکٹر نذیر صاحب کو آنے والی نسلیں بھی احترام سے اور فخر کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ ایک سائیکل سواری کا ڈرامہ جو جنرل ضیاء الحق نے راجہ بازار راولپنڈی میں کیا منافقت کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔

یورپ کے کئی ممالک میں اور برطانیہ میں لوگوں کے لیے شہروں میں کرایہ پر حاصل کرنے کے لیے سائیکل اسٹینڈ ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی سائیکل کرایہ پر ملتے ہیں لیکن بڑے شہروں میں سائیکل چلانے کی وہی سڑکیں ہیں جن پر کاریں بسیں اور موٹر سائیکل خطرناک انداز میں چلتی ہیں۔ اسی لیے سائیکل کا استعمال صرف دیہاتی علاقوں اور نسبتاً پسماندہ آبادیوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

بائیسکل ایک سستی سواری ہونے کے علاوہ ورزش کے کام بھی آ جاتی ہے۔ اگر سڑکوں کے ساتھ ساتھ یورپ کی طرز پر سائیکل ٹریک بنائے جائیں تو یہ مستحسن اقدام ہو گا لیکن ان ٹریکس کو محفوظ بنانا بے حد ضروری ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ٹریفک رولز پر سختی سے عملدرآمد کروایا جا سکے۔ ٹریفک رولز کی پابندی سڑک پر آٹو موبائل والوں پر کڑی نظر رکھنے اور خلاف ورزی پر سخت اور فوری سزا دینے ہی سے ممکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں