یہ مسالک کی جنگ نہیں ہے

مسلم امہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ علاقائی، نسلی اور تاریخی تعصبات کو ہم مسلک کا تڑکا لگا کر اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔


Orya Maqbool Jan March 30, 2015
[email protected]

بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کا دوسرا دور تھا۔ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں وزارت خارجہ کی جانب سے ایک انتہائی سینئر آفیسر اسپیشل سیکریٹری کی حیثیت سے تعینات ہوتا ہے۔ بے نظیر کے اس دور میں ظفر ہلالی اسپیشل سیکریٹری تھے جو آجکل مشہور تجزیہ نگار بھی ہیں۔ ظفر ہلالی کا خاندان سفارت کاری کے حوالے سے مشہور ہے۔ ان کا خاندان ایران سے قاچار بادشاہت کے زمانے میں ہجرت کر کے ہندوستان آیا۔ ایران میں یہ خاندان دربار سے اعلیٰ سطح پر منسلک تھا۔ خود بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت اصفہانی کا تعلق بھی ایران سے تھا۔

ظفر ہلالی کے بقول' ایک دن بے نظیر نے انھیں بلایا اور کہا کہ ایرانی سفیر کو بلاؤ اور اسے بتاؤ کہ ان کا سفارت خانہ جس قسم کا لٹریچر اور کیسٹ وغیرہ پاکستان میں تقسیم کر رہا ہے' اس سے ہمارے لیے بہت مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ ظفر ہلالی نے ایرانی سفیر محمد مہدی اخوندزادہ بستی کو بلایا۔ اخوند زادہ انقلاب ایران کے بعد 1981ء میں پہلی دفعہ بھارت میں ایرانی سفارت خانے میں متعین کیا گیا۔ بنیادی طور پر اس کی تعلیم سول انجینئرنگ ہے جو اس نے بنگلہ دیش سے حاصل کی۔ ایران میں سول سروس میں بھرتی کے لیے کسی قسم کی پبلک سروس کمیشن نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مقابلے کا امتحان ہوتا ہے۔ انتظامی عہدوں اور وزارت خارجہ میں بھرتی براہ راست قُم میں موجود رہبری کونسل کرتی ہے۔

نوکری کے لیے انقلاب کے ساتھ وفاداری کو شرط اول کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اخوندزادہ اس شرط پر پورا اترتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مجاہدین خلق کو غدار اور منافق قراردے کران کے قتل کا فتویٰ دیا گیا تو بہت سے لوگ جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جو گرفتار ہوئے انھیں قتل کر دیا گیا۔ یہ وہی مجاہدین خلق تھے جن کے ساتھ مل کر 1979ء میں انقلاب لایا گیا تھا۔ انقلاب کے فوراً مجاہدین خلق کے سربراہ مسعود رجاوی کے بھائی پروفیسر کاظم رجاوی کو جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ایران کا سفیر مقرر کیا گیا۔

قتل کاحکم آیا تو پروفیسر کاظم رجادی کو قتل کرنے کے لیے گروہ تیار کیا گیا۔ 24اپریل 1990ء کو دن دھاڑے پروفیسر کاظم رجاوی کو قتل کر دیا گیا۔ اس قتل کی تمام تفصیلات سوئٹزر لینڈ کے تفتیشی مجسٹریٹ جیکوز انٹین Jacques Anteen کے فیصلے میں موجود ہیں۔ اس قتل میں تیرہ ایرانی لوگ ملوث تھے جن میں دو کے پاس سفارتی پاسپورٹ اور باقی افراد کے پاس سرکاری پاسپورٹ تھے۔ یوں وہ سفارتی استثناء کا سہارا لیتے ہوئے پروفیسر کاظم رجاوی کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انھی پاسپورٹوں کی وجہ سے فرار بھی آسانی سے ہو گئے۔

محمد مہدی اخوندزادہ بستی 1993ء سے 1998ء تک پانچ سال پاکستان میں سفیر رہا۔ ظفر ہلالی نے جب اس کے سامنے ایرانی لٹریچر کی تقسیم پر پاکستانی حکومت کے تحفظات کا اظہار کیا توانھوں نے الٹا سوال کر دیا کہ آپ کے اندازے کے مطابق پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو ایران کے کہنے پر ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔ ظفر ہلالی نے کہا مجھے کیا معلوم۔ مہدی اخوند زادہ نے کہا کہ پچھتر ہزار افراد ہمارے کہنے پر ہتھیار اٹھا سکتے ہیں لیکن ہم آپ کو ایک برادر ملک سمجھتے ہیں اس لیے آپ کے لیے مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ ظفر ہلالی نے یہ قصہ میرے پروگرام سچوئشن روم میں سنایا جسے چینل 24 کی ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔

مسلم امہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ علاقائی، نسلی اور تاریخی تعصبات کو ہم مسلک کا تڑکا لگا کر اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے دو طاقتیں برسرپیکار رہی ہیں' ایک ایران یا فارس اور دوسرا روم۔ جزیرہ نما عرب کے ساحلی علاقے جو اب چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہیں' وہاں فارس کے حکمرانوں کے زیر اثر قبائلی رہنما برسراقتدار تھے۔ یزد گرد کاوہ فقرہ تاریخ کا حصہ ہے جو اس نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں حملہ آور افواج کے وفد سے کہا تھا۔ ''اے گوہ کا گوشت کھانے اور اونٹنیوں کا دودھ پینے والے عربو! تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا جو کیہان کے تخت کی آرزو کر رہے ہو۔ تمہارے قبائل میں سے اگر کوئی سرکشی کرتا تو ہم اپنے سرحدی حاکم سے کہتے اور وہ تمہارا دماغ سیدھا کر دیتا''۔

آج بھی جب ایک عام ایرانی عراق میں دجلہ و فرات' ازبکستان میں سمرقند و بخارا' افغانستان میں ہرات' تاجکستان میں دوشنبے اور قلاب اور آذربائیجان میں باکو جسے شہروں کو دیکھتا ہے تو اسے اپنی عظمت رفتہ یاد آ جاتی ہے۔ سائرس اعظم اور نوشیروان کے قصے اس کی روزہ مزہ گفتگو کا حصہ ہیں۔ فردوسی کا شاہ نامہ اسی محبت کی داستان ہے اور اسی المیے کا نوحہ ہے کہ کیسے عرب کے ان خانہ بدوشوں نے ان کی عظیم سلطنت کو تاخت و تاراج کر دیا۔ اسی لیے وہاں کا اجتماعی شعور اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کے لیے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد بھی ایرانی سفارت خانوں نے جس قدر توانائی فارسی شناسی اور فرہنگ یعنی اپنی ثقافت کی ترویج پر صرف کی اتنی کسی اور کام پر نہیں کی۔

دوسری جانب عربوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی نے قدیم ایران کے اہم ترین علاقوں کی زبان تک تبدیل کر دی۔ یزد گرد کا قادسیہ دریائے دجلہ کے کنارے تھا۔ اب وہاں لوگوں کی مادری زبان تک عربی ہو چکی ہے۔ ایران کی عظمت رفتہ کو زندہ کرنے کا اور کوئی راستہ باقی نہیں سوائے اس کے کہ اپنے حامی لوگوں کو ساتھ ملا کر عرب و عجم کی لڑائی کو ہوا دی جائے۔ بشارالاسد علوی ہے' جس کے عقائد کی بنیاد پر تمام اثنا عشریہ انھیں اپنے سے الگ تصور کرتے ہیں لیکن سیاسی اور علاقائی صورت حال میں اس کا ساتھ دینا عرب علاقوں میں اپنا اثر و نفوذ اور اختیار بڑھانے کے لیے ہے۔

اسی طرح زیدیہ فرقے کے حوثی حضرت زید بن علی کے ماننے والے ہیں جن کے عقائد وہاں کے سنی عوام سے بہت ملتے ہیں۔ بلکہ زید بن علی نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بارے میں اپنی یہ رائے دی تھی کہ میں نے اپنے گھرانے میں ان کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات ہی سنی۔ لیکن یمن کے حوثیوں کا ساتھ مسلک کی وجہ سے نہیں بلکہ عرب و عجم کی کشمکش میں دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اپنے ارد گرد کے تمام علاقوں' بحرین' کویت' یمن اور خصوصاً اپنے مشرقی علاقوں کیف وغیرہ پر اپنا مکمل کنٹرول چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک یہاں کی شیعہ اکثریت اس کے اقتدار کے لیے خطرہ ہے۔

اس کا اقتدار جو امریکی اشیر باد کا مرہون منت ہے' اسے صرف شیعہ آبادی سے ہی نہیں بلکہ ہر اس سنی آبادی کی تحریک سے بھی خطرہ ہے جو بادشاہت کے خلاف ہو۔ اسی لیے جب مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت آئی تو سعودی عرب نے وہاں کی فوج کو اکسایا' اس نے اقتدار پر قبضہ کیا اور پھر فوج کو دس ارب ڈالر تحفے میں دیے تا کہ ان لوگوں کا قتل عام کرے جن کے نظریات بادشاہت کے خلاف ہیں۔ اپنے اقتدار کو خطرہ ہو تو ایران اور سعودی عرب کو نہ مسلک یاد آتے ہیں اور نہ ہی عرب و عجم۔ شام اور عراق میں بننے والی اسلامی ریاست کے خلاف دونوں متحد ہیں۔ ایران کے رضاکار وہاں جا کر لڑ رہے ہیں اور سعودی عرب شام کی آزاد فوج کو سرمایہ فراہم کر رہا ہے تا کہ وہ داعش اور بشار الاسد دونوں سے لڑے۔

یہ نسل' رنگ' علاقے اور اقتدار کی لڑائی ہے جسے مسلک کا تڑکا لگا کر لڑا جا رہا ہے۔ لیکن مجھے حیرانی ان علمائے کرام پر ہوتی ہے جو اپنے تعصب میں اس لڑائی کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ جن کا رزق مسلکوں میں لڑائی سے وابستہ ہے۔ مسلک کو اس لڑائی سے علیحدہ کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ تمام شیعہ علماء حوثی قبائل کے خلاف ویسے ہی فتویٰ دیں جیسے انھوں نے داعش کے خلاف دیا کہ یہ باغی ہیں اور ریاست ان سے جنگ کرے اور سنی علماء اسی طرح سعودی عرب کے خلاف فتویٰ دیں جیسے وہ امریکا کے خلاف دیتے ہیں کہ کسی دوسرے کے علاقے پر بمباری کر کے انسانی جانوں کو ہلاک کرنا قتل کے مترادف ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر نسل ' زبان اور علاقے کی یہ جنگ جسے مسلک کا تڑکہ لگ چکا ہے پوری امت کو ایسا اپنی لپیٹ میں لے گی کہ کوئی شہر بھی اس سے محفوظ نہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں