پاک بھارت تعطل توڑنے کے لیے امن دھماکے کی ضرورت

کیا متوسط طبقے کا رہن سہن واقعی اتنا بہتر ہے جتنا کہ ان ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے


Babar Ayaz March 27, 2015

1980 کی دہائی کے وسط میں جب میرا بمبئی (ممبئی) جانا ہوا تو میں نے وہاںEconomic Times کے ایڈیٹر سے پوچھا کہ آپ کا اخبار بین الاقوامی اقتصادی اور کاروباری خبروں کو اتنی کم جگہ کیوں دیتا ہے؟ میرے ذہن میں پاکستانی اخبارات کے معاشی خبروں والے صفحات تھے جو بڑی تعداد میں غیر ملکی خبریں شائع کرتے تھے۔

ان اخبارات میں روزنامہ ڈان بھی شامل تھا جس کے ساتھ میں ان دنوں وابستہ تھا۔ اس تجربہ کار ایڈیٹر نے جواب دیا: ''بھارت ایک بڑی معیشت ہے، اخبار میں جگہ محدود ہوتی ہے، میرے پاس اندرون ملک کی خبریں اور جائزے ہوتے ہیں اور خبروں کے اس انبار میں بین الاقوامی خبریں رہ جاتی ہیں۔'' میں جس زمانے کی بات کررہا ہوں اس وقت بھارت نسبتاً بند معیشت رکھنے والا ملک تھا اور من موہن ابھی اقتدار سے دور تھے۔

اب ہم 2014 کی بات کرتے ہیں۔ بھارت میں زندگی کے نام سے ایک چینل شروع ہوا، جو پاکستانی ٹی وی چینلز کے ڈرامے نشر کرتا ہے۔ اس چینل نے بڑی تیزی سے شہرت حاصل کی۔ بھارت میں گھومنے پھرنے کے دوران لوگوں کے ساتھ، خاص طور پر ان لوگوں کے ساتھ جو آج تک پاکستان نہیں آئے، بات چیت سے جو معلومات حاصل ہوئیں وہ خاصی دلچسپ ہیں۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ پاکستان کے بارے میں کتنی کم معلومات رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اس قسم کے سوال کرتے ہیں: کیا یہ ڈرامے پاکستان کی اصل تصویر پیش کررہے ہیں؟ کیا متوسط طبقے کا رہن سہن واقعی اتنا بہتر ہے جتنا کہ ان ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے؟ کیا پاکستانی ٹی وی چینلز کو خواتین مخالف اقدار اور مفروضوں کو چیلنج کرنے کی آزادی ہے؟ اور ان سے ملتے جلتے دوسرے بہت سے سوال۔ ان لوگوں کو میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ پاکستانی ڈرامے کم و بیش حقیقی زندگی ہی کی عکاسی کرتے ہیں اور معاشرے کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان کے بارے میں بہت کم مبالغہ آمیزی کرتے ہیں جیسا کہ ڈراموں میں عام طور سے اشاروں کنایوں میں بات کہی جاتی ہے۔

زندگی چینل پاکستان کے اعتدال پسند بیانیہ کو پیش کرکے بہت بڑا کام کررہا ہے۔ کسی پاکستانی حکومت نے ہمارے ملک کا اصل امیج اجاگر کرنے کے لیے اتنا کام نہیں کیا۔ دوسری طرف بھار ت کے ٹی وی نیوز چینلز پاکستان کے بارے میں شد و مد کے ساتھ وہی کچھ دکھاتے ہیں، جس کی نمائندگی حافظ سعید اور اسلام پسندوں کے دوسرے غضب ناک مجمعے کرتے ہیں۔ بھلا ہو وڈیو ٹیکنالوجی کا کہ بولی وڈ موویز نے بھارت کے بارے میں اس سوچ کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے جو 80 کی دہائی سے چلی آرہی تھی۔

دونوں ملکوں کے بارے میں اعتدال پسند تاثر آہستہ آہستہ اس منفی پروپیگنڈا کے زہرکو زائل کر رہا ہے جو جنگی معیشت پر پلنے والوں نے گھول رکھا تھا۔ 80 کی دہائی میں پاکستان کے عوام نے ہفتے میں ایک دن دس روپے خرچ کرکے بولی وڈ کی سرقہ شدہ موویز کو دیکھتے ہوئے ثقافتی تجارت کا آغازکیا۔

اس تجارت کی غیرقانونی حیثیت اپنی جگہ لیکن اس سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوگیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اس بیانیہ کے برعکس کہ بھارت ہمارا ''دشمن نمبر1'' ہے، پاکستان کی ایک بڑی اکثریت سیکولر بھارت کے سافٹ امیج کو قبول کرتی ہے۔ دہشت گردوں سے عاجز آجانے اور 60,000 پاکستانیوں کے جان گنوا دینے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے دہشت گردوں کو ملک کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے۔

بھارت جیسے بڑے ملک میں پاکستانیوں کے بارے میں یہ تاثر عام کرنا کہ وہ امن سے پیار کرنے والے اعتدال پسند لوگ ہیں، بہت بڑا کام ہے۔ اس پس منظر میں جب پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی (PIPFDP) نے مجھے "Understanding Pakistan Today" کے عنوان سے دہلی میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں اظہار خیال کی دعوت دی تو میں نے بخوشی اسے قبول کرلیا۔ یہ موضوع اس وجہ سے اہم تھا کہ بھارت میں پاکستان کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔

میرا تجربہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بیشتر صحافی کا غفلت کی وجہ سے یا جان بوجھ کر ایک دوسرے کی تصویر کشی، برش کو نفرت کے رنگ میں ڈبو کر کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے ان دنوں جب لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجیوں کی مبینہ ہلاکت کی اطلاعات آرہی تھیں ایک دھند آلود صبح میں بھارتی ائیرپورٹ پر اترا۔ ایک انڈین چینل کے اینکر نے مجھے اپنے ٹاک شو میں مدعو کیا جہاں مہمانوں کی اکثریت غصے میں بھری بیٹھی تھی۔ ایک ایسے بپھرے ہوئے لہجے میں جو کسی بھی صحافی کو زیب نہیں دیتا اس اینکر نے پاکستانی عوام کو ایسے لوگ بنا کر پیش کیا جو بھارت سے نفرت کرتے ہیں۔ میں نے اس سب کچھ کا سامنا کیا اور تفصیل کے ساتھ اپنی بات سمجھائی۔

مارچ کے شروع میں دہلی میں ہونے والی کانفرنس میں میرا کہنا یہ تھا پاکستان میں جو متعدد نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ملک ہے، بھارت اور کشمیر کے بارے میںکوئی ایک سی سوچ نہیں ہے۔

اگر پاکستان پر ایک سرسری سی نظر ڈالی جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ کبھی بھی بھارت دشمن نہیں رہے۔ سندھ اور سندھ کے اردو بولنے والوں کی بھی یہی سوچ ہے جو بھارت کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں اگرچہ اکثریت بھارت کے بارے میں کوئی قطعی رائے نہیں رکھتی مگر وہاں ایک چھوٹا سا ایسا مذہبی عسکریت پسند طبقہ موجود ہے، جس کو جنگی معیشت سے فائدہ ہوتا ہے اور یہ لوگ کٹر بھارت مخالف ہیں۔ بڑا بزنس جو پاکستان کے حکمران طبقات کی رہنمائی کرتا ہے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہ لوگ بھارت کی منڈی تک آزادانہ رسائی چاہتے ہیں۔

تاہم درمیانے حجم کے اور چھوٹے کاشت کار زرعی پیداوار کی آزادانہ درآمد کے خلاف کچھ تحفظ چاہتے ہیں، انھیں مقابلہ کرنا مشکل لگتا ہے کیونکہ بھارت اپنے کاشت کاروں کو سبسڈی دیتا ہے۔ مگر یہی کاشت کار بھارت سے زرعی مشینری اور بیج کی درآمد میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ شمالی پنجاب جو تاریخ میں روایتی طور پر فوجی بھرتی کا علاقہ رہا ہے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے بیانیہ کا ساتھ دے گا۔ پختونخوا میں طالبان نواز مذہبی گروپوں کو چھوڑ کر زیادہ تر پشتون جن کی قیادت عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت العلمائے اسلام کرتی ہیں، بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے حامی ہیں۔

پاکستانی عوام کی امن کی اس خواہش کو تمام بڑی سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ 1988 کے بعد ہونے والے ہر الیکشن کی مہم میں کبھی بھارت مخالف پرچار نہیں کیا گیا۔ PIPFPD کی کانفرنس میں جن لوگوں نے اظہار خیال کیا ان میںماہرین تعلیم، صحافی اور خواتین و انسانی حقوق کے سرگرم کارکن شامل تھے۔

بھارت کی طرف سے بھی ایسی ہی شخصیات نے شرکت کی۔ ان اسکالرز، صحافیوں اور خواتین کارکنوں نے پاکستان کی معیشت، سیاست، تاریخ، محنت کشوں اور خواتین کے مسائل کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ بھارت کی طرف سے متعدد دانش وروں اور صحافیوں نے گفتگو میں حصہ لیا۔JNU کے ایک پروفیسر نے اعتراف کیا کہ ''ہمیں پاکستان میں کی جانے والی اسٹڈیز کی سطح، بھارت کے بارے میں لوگوں کے الگ الگ احساسات اور پاکستانی معیشت کے استحکام کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔''

بھارت میں عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ جو لوگ پاکستان جاتے ہیں وہ اس ملک کے عوام اور ترقی کی سطح کے بارے میں مثبت تاثرات لے کر واپس آتے ہیں۔ اور سرحد کے اس طرف کے بارے میں بھی یہ بات سچ ہے۔ ہمیں بھارت کے عوام کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں سے بہت دور ہے اور پاکستانی عوام کو یہ جاننا چاہیے کہ بھارت آگ کے شعلے اگلنے والے الیکٹرانک میڈیا اور متعصب تنظیموں سے بہت مختلف ہے۔

دونوں ملکوں کی جنگی معیشتوں کی طرف سے بنے گئے تاریخ کے جالوں کو صاف کرنے کے لیے اور زیادہ شدت کے ساتھ عوام سے عوام کے رابطے ضروری ہیں۔ قیام امن کے عمل سے پیچھے ہٹ جانے اور دہشت گردوں اور جنگی معیشت سے پیٹ بھرنے والوں کے ہاتھوں یرغمال بن جانے کے بجائے قیام امن کے عمل کو تباہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کے ہر دھماکے کے ساتھ ''امن دھماکا'' ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں