ادا جعفری
گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں، ہم ایسے لوگ اب ملیں حکائتوں کے درمیاں
لاہور:
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی، برسر الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے
تاروں سے سجا لیں گے رہ شہر تمنا
مقدور نہیں صبح، چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے، تیرے درو بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ اداؔ دشت جنوں کی
دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے
ادا جعفری کی یہ غزل امانت علی خان کی پر سوز اور انتہائی خوب صورت آواز میں شعر و نغمہ سے دلچسپی رکھنے والے ہر صاحب ذوق کے کانوں میں یقینا گونجتی ہو گی لیکن چند دن قبل جب دہلی کے ''جشن ریختہ'' سے متعلق ایک شام موسیقی میں امانت علی خان کے بھائی حامد علی خان نے اسے گایا تو یہ ایک بالکل نئے احساس اور تجربے کی حامل ٹھہری کہ اسی روز ان کے انتقال کی خبر وہاں پہنچی تھی۔
ہر شعر کے ساتھ یہ محسوس ہوتا تھا کہ ہم اس کے ایک ایسے معانی سے آشنا ہو رہے ہیں جو موجود تو شائد پہلے سے تھا مگر اس طرح نمایاں نہ ہوا تھا۔ ادا جعفری جو نورالحسن جعفری مرحوم سے شادی سے قبل ادا بدایونی کے نام سے لکھا کرتی تھیں اس وقت اردو کی سینئر ترین شاعرہ تھیں۔
اگرچہ جعفری صاحب کی وفات کے بعد وہ بالکل گوشہ نشین اور صاحب فراش ہو گئی تھیں مگر ان کی شاعری اور کتابیں اہل سخن کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوئیں۔ ان کا شمار بھی اہل قلم کی اسی صف میں ہوتا تھا جس نے پہلی جنگ عظیم کے بعد آنکھیں کھولیں اور 1940ء کی دہائی میں اپنے فن کا سکہ جمانا شروع کیا۔
ادا جعفری کا تخصص یہ ہے کہ انھوں نے اس زمانے میں یہ کارنامہ سرانجام دیا جب فکشن میں تو عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، حاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ اور حجاب امتیاز علی سمیت بہت سی خواتین سرگرم تھیں۔ مگر شاعری میں ان کی سطح کا ایک بھی نام موجود نہیں تھا کہ زہرہ نگاہ کی آمد پچاس کی دہائی میں ہوئی۔
خواتین کے ادب کی حد تک یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اِکا دُکا قابل ذکر لکھنے والیوں سے قطع نظر اردو تو کیا مغربی زبانوں کے نسبتاً آزاد اور ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ان کو اظہار کے وسائل مہیا نہیں تھے اور وہاں بھی بعض نامور خواتین معاشرتی دبائو کے باعث مردوں کے نام سے لکھا کرتی تھیں۔ ایسے میں برصغیر کے کسی روایتی پردہ دار اور متوسط گھرانے میں کسی شاعرہ کا ظہور اور مردوں کے دوش بدوش شعری فضا کا حصہ بننا کسی خواب سے کم نہ تھا۔
ادا جعفری کا تعلق ایک ادبی خاندان سے تو تھا لیکن اس کے باوجود غزل کی صنف میں شاعری کرنا اور مشاعرے پڑھنا بڑے حوصلے کی بات تھی۔ اگرچہ ساٹھ کی دہائی کے اختتام تک زہرہ نگاہ، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض سمیت کئی ایک شاعرات معروف ناموں کی شکل اختیار کر چکی تھیں لیکن ادا جعفری کا مقام اس قبیلے کے سردار کا سا تھا ان کی شاعری میں موضوعات اور طرز اظہار کے حوالے سے وہ بے تکلفی نہیں تھی۔
جسے آگے چل کر تانیثئت feminism اور Boldness کا نام دیا گیا لیکن عورت کی منفرد شخصیت اور اسے جنس کی تفریق سے بالاتر ایک Person کے حوالے سے دیکھنے اور دکھانے کا رجحان ان کی شاعری میں اس وقت بھی دکھائی دیتا ہے جب ابھی یہ تحریک مغربی ادب میں سلویا پلاتھ اور اینجلا ڈیوس کے دور سے گزر رہی تھی۔
ادا بہن سے میری پہلی ملاقات ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہوئی۔ ان کی شخصیت میں ایک ایسا وقار، ٹھہرائو اور شفقت کا احساس تھا کہ مجھے وہ پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگیں۔ کچھ عرصے کے بعد ان کے بیوروکریٹ میاں جو این ایچ جعفری کہلاتے تھے سول سروسز سے متعلق ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج کے سربراہ بن کر لاہور آئے تو احمد ندیم قاسمی صاحب کے ہمراہ کئی بار ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ معلوم ہوا کہ شادی کے ابتدائی چند برسوں میں جعفری صاحب کی خواہش کے مطابق انھوں نے مشاعروں میں شمولیت کا سلسلہ بند کر دیا تھا مگر لکھ مسلسل رہی تھیں۔
بعدازاں اسلام آباد کے بعض احباب (جن میں زیادہ تر اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز افسران تھے) نے ماہانہ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ جاری کیا جس میں اکثر بیرون اسلام آباد سے آنے والے اہل قلم کو بھی بطور مہمان مدعو کیا جاتا تھا۔ ان محفلوں میں ادا بہن سے ملنے اور ان کا کلام ان کی زبان سے سننے کے مواقع ملتے رہے اور ہر بار ان کی شاعری اور شخصیت دونوں کا تاثر مزید بہتر اور گہرا ہوتا چلا گیا۔
ادا جعفری کی شاعری میں اردو غزل کی روایت اور اس میں شامل ہونے والے جدید رویوں کا ایک خوب صورت امتزاج ملتا ہے لیکن اس ضمن میں ان کی ترجیحات کا جھکائو ہمیشہ ایک مخصوص مشرقی پن کی طرف رہا کہ روایت میں وہ داغ کے بجائے مولانا حالی اور حقوق نسواں کے حوالے سے کی جانے والی شاعری میں کشور اور فہمیدہ سے زیادہ زہرہ نگاہ سے قریب نظر آتی ہیں۔
یہ اعتدال کا رویہ ان کی شاعری اور شخصیت دونوں میں یکساں طور پر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اس اعتبار سے شاید انھیں محترمہ ثاقبہ رحیم الدین سے تشبیہ دی جا سکتی ہے کہ دونوں خواتین حسن صورت اور حسن سیرت کا ایک غیر معمولی مجموعہ ہیں۔ ان کی ایک غزل کے چند اشعار اور ایک نظم دیکھئے۔
گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں
ہم ایسے لوگ اب ملیں حکائتوں کے درمیاں
لہو لہان انگلیاں ہیں اور چپ کھڑی ہوں میں
گل و سمن کی بے پناہ چاہتوں کے درمیاں
ہتھیلیوں کی اوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی
ابھی سحر کا ذکر ہے روائتوں کے درمیاں
جو دل میں تھی نگاہ سی، نگاہ میں کرن سی تھی
وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں
صبا کا ہاتھ تھام کر ادا نہ چل سکو گی تم
تمام عمر خواب خواب ساعتوں کے درمیاں
اور یہ نظم ''سنو'' میرے نزدیک ادا جعفری مرحومہ کی ذات سوچ اور شخصیت کا ایک مکمل استعارہ ہے جس میں ہم ان کی ذاتی زندگی اور روح عصر کو بہت واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
جان، تم کو خبری تک نہیں
لوگ اکثر برا مانتے ہیں
کہ میری کہانی کسی موڑ پر بھی
اندھیری گلی سے گزرتی نہیں
کہ تم نے شاموں سے ہر رنگ لے کر
مرے ہر نشان قدم کو دھنک سونپ دی
نہ گم گشتہ خوابوں کی پرچھائیاں ہیں
نہ بے آس لمحوں کی سرگوشیاں ہیں
کہ نازک مری بیل کو، اک توانا شجر
ان گنت اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہے
کوئی نا رسائی کا آسیب اس رہگزر میں نہیں
یہ کیسا سفر ہے کہ روداد جس کی
غبار سفر میں نہیں