جدوجہد
سب سے بڑھ کر اذیت یہ تھی کہ اب اہل مکہ مذاق اڑائیں گے تو چند ساتھی مایوسی کا شکار ہوں گے
''امید کے پھول نہ بیچیں تو کیا مایوسی کی ریڑھی لگائیں۔''23 فروری کے کالم میں ہم نے پیغمبروں اور سائنسدانوں کے علاوہ سیاستدانوں اور جنگی بہادروں کی جدوجہد کا ذکر کیا تھا۔ ''امید'' نامی کالم میں بڑے لوگوں کی بڑی باتیں تھیں کہ کس طرح انھوں نے مایوسی سے نکل کر کامیابی کی شاہراہ پر قدم رکھا۔ یہ سلسلہ صرف ناموں تک محدود تھا۔ آج ہم تفصیل میں جا کر دیکھیں گے کہ بڑے لوگوں نے اپنی پریشانیوں پر کس طرح قابو پایا۔
طائف میں محسن انسانیتؐ کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا اس کا تذکرہ سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے۔ جسمانی تکلیف سے بڑھ کر روحانی تکلیف یہ تھی کہ دوسرے بڑے شہر کے رہنے والوں نے بھی پیغام امن کو رد کر دیا تھا۔
سب سے بڑھ کر اذیت یہ تھی کہ اب اہل مکہ مذاق اڑائیں گے تو چند ساتھی مایوسی کا شکار ہوں گے۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کے باوجود جدوجہد جاری رہی۔ اس میں بائیکاٹ کی گھاٹیاں بھی آئیں اور ہجرت کی ضرورت بھی۔ معرکہ بدر اور احد بھی پیش آئے تو خندق کھودنے کا امتحان بھی۔ تبوک میں آزمائشوں کے مقامات آئے تو خیبر کے معرکے بھی۔
گھٹا ٹوپ اندھیروں کے باوجود امید کی کرن اور جدوجہد کا عزم تھا کہ اربوں لوگ آج ان کے ماننے والے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کی شخصیت ایک متاثر کن رہنما کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ جوانی میں یہودیوں نے ان کو مصلوب کر دیا۔ ان کے پیغام امن و سلامتی کو سینیٹ پال نے آگے بڑھایا۔ مسیحؑ کی تعلیمات کی خاطر 64ء میں ان پر روم میں مقدمہ چلا۔
مارکونی نے ریڈیو تو ایجاد کر لیا لیکن اسے اپنے نام سے منسوب کرانے کے لیے مقدموں میں الجھنا پڑا۔ اٹلی میں پیدا ہونے والے مارکونی کو 1914ء میں ریڈیو کا موجد تسلیم کیا گیا۔ دوربین ایجاد کرنے والے گلیلو کو غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑنی پڑی۔ دوربین کی ایجاد نے اسے مقبولیت بخشی لیکن کلیسا اس کے خلاف ہو گیا۔ شکایت تھی کہ گلیلو ''زمین سورج کے گرد گھومتی ہے'' والی بات کیوں نہیں چھوڑتا۔ گھر پر نظربندی برداشت کرنے والا آج بڑا سائنسدان کہلاتا ہے۔
ہوائی جہاز ایجاد کرنے والے رائٹ برداران سے پہلے کئی لوگ ناکام ہو چکے تھے۔ بھاپ کا وزنی انجن دوسروں کی ناکامی کا سبب تھا۔ پہلی مرتبہ پرواز کی کوشش کی تو ناکام رہے۔ لوگوں نے مذاق اڑایا۔ 1903ء میں کامیاب پرواز صرف بارہ سیکنڈ جاری رہی اور دوسری پرواز ایک منٹ تک۔ دیکھنے والے صرف پانچ لوگ تھے۔ کسی نے یقین نہیں کیا اور اس بات کو منوانے میں پانچ سال لگے۔
ابھی شبہات دور ہی ہو رہے تھے کہ جہاز کو حادثہ پیش آ گیا اور ایک مسافر ہلاک ہو گیا۔ پھر عدالتوں میں اس ایجاد کو اپنا ثابت کرنے میں چھ سال لگے۔ دنیا آج اس ایجاد کا سہرا وھلی اور ولبر کے سر باندھتی ہے تو اس کے پیچھے مسلسل جدوجہد ہے۔ مادام کیوری نے انتہائی مفلسی کے عالم میں ریڈیم ایجاد کیا۔ سردی سے بچنے کے لیے وہ کتابیں اپنے جسم پر رکھ کر سوتی تھی۔ کوئلے کو ہیرا بننے کے لیے تپتی ہوئی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے اور آڑے سے چیرے جانے کے لیے بھی اپنے آپ کو تیار رکھنا پڑتا ہے۔ قارئین! آپ اپنی مایوسی کو جدوجہد میں کب بدلیں گے؟
قائد اعظم کی ازدواجی زندگی ایک خوب صورت کتاب ہے۔ عقیل عباس جعفری 1929ء میں آ کر اداس کر دیتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب قائد کی اہلیہ رتی جناح انتقال کر جاتی ہیں۔ نوجوان بیوی کی موت اور دس سالہ بیٹی کی پرورش۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کی سیاست آئینی جدوجہد کے بجائے احتجاجی جنگ میں بدل چکی تھی۔
گاندھی جی کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر ابھر کر سامنے آ چکے تھے۔ تحریک خلافت دم توڑنے پر مولانا جوہر بھی اداس تھے۔ ایسے میں قائد مایوس ہو کر انگلینڈ چلے جاتے ہیں۔ پانچ سال بعد واپسی ہوتی ہے۔
جناح، لیگ کی صدارت سنبھالتے ہیں۔ ایسی ہی مایوس کن صورتحال گاندھی جی کے ساتھ ہوتی ہے۔ سن 42ء میں شروع کی گئی ''ہندوستان چھوڑو'' مہم دو سال بعد ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔ جنگ زدہ اور کمزور انگریزوں سے طاقتور مقبول ترین کانگریس نہیں جیت سکی۔ قائد کی آئینی جدوجہد والا نسخہ بھی کارگر ثابت ہوتا ہے۔ سیاسی صورتحال تیزی سے بدلتی ہے۔ دو گجراتی بولنے والے دو ملکوں کے ''بابائے قوم '' بنتے ہیں۔
لینن کو روس میں کمیونزم کا بانی کہا جاتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں پندرہ سال کی جیل اور پھر سائبیریا میں جلاوطنی۔ اگلے پندرہ برسوں میں محنت کشوں کی تنظیم کا رہنما اور اس سے اگلے پندرہ برسوں میں قابل ذکر شخصیت۔ پہلی جنگ عظیم نے طاقتوروں کو کمزور کر دیا تو 1917ء میں لینن نے زار روس کا تختہ الٹ دیا اور نئی ریاست کا سربراہ بن گیا۔
سات سال حکومت کرنے کے بعد چل بسا۔ کارل مارکس کے کمیونزم کے نظریے کو لینن نے نافذ کیا۔ یہ الگ بات کہ سات عشروں بعد ماسکو میں لینن کا مجسمہ زمین بوس کر دیا گیا۔ جارج واشنگٹن کی جدوجہد انگریزوں کے خلاف تھی۔ جہاں دوسرے امریکی سالار ناکام رہے وہیں چھ فٹ دو انچ کا شخص امریکی جنگ آزادی کا کامیاب رہنما ثابت ہوا۔
جب جناح سترہ سال کے تھے تو ماؤزے تنگ پیدا ہوئے اور قائد اعظم کی سو سالہ سالگرہ پر جدید چین کے بانی رخصت ہوئے۔ اٹھائیس سال کی عمر میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے اہم رہنما بن گئے تھے۔ جب انگریزوں نے غلام ہندوستان میں ایکٹ نافذ کیا تو ماؤ غلام چین کے طاقتور رہنما بن گئے۔ جب پاکستان بنا اس سال وہ چیانگ کائی شیک سے مکمل جنگ کرنے کو تیار تھے۔ جس سال ہم نے قرارداد مقاصد منظور کی اس سال کمیونسٹوں نے چین کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ان کی آزادی کی عمر ہم سے دو سال کم ہے۔
پیغمبروں اور سائنسدانوں کے علاوہ ہم نے اپنے کالم ''امید'' میں سرسری طور پر کولمبس اور واسکوڈی گاما کا ذکر کیا تھا۔ بے دھیانی میں امریکا کو دریافت کرنے والے کولمبس کو آج امریکی زیادتیوں پر برا بھلا کہا جاتا ہے کہ اس نے یہ کیوں دریافت کیا۔ ملکہ ازبیلا سے خوشامد کر کے جہاز لینے والا آج ملکہ سے زیادہ مشہور ہے۔
تاریخ بے شک کولمبس کو حریص اور سفاک کہتی ہے۔ آج ہمارا مضمون مایوس نہ ہونے والوں پر مشتمل ہے۔ بعد میں ان کے خیالات اور کامیابیوں کا کیا ہوا یہ ہمارا موضوع نہیں۔ انگریزوں کو ہندوستان پہنچنے کا راستہ دکھانے والا واسکوڈی گاما تھا۔ اس کی وجہ سے ہمیں سو سالہ غلامی بھی بھگتنی پڑی اور ساتھ ہی ساتھ وہ ترقی بھی ملی جو انگریز لائے۔ اس نے بادشاہوں کو یہ سمندری راستہ بتا کر امیر بننے کا راستہ چنا اور ہندوستان میں فوت و دفن ہوا۔
مغل بادشاہ ہمایوں کو بالکل نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ جس سلطنت کی بنیاد بابر نے رکھی تھی اسے شیرشاہ سوری نے ختم کر دیا تھا۔ ہمایوں بھاگ کر ایران چلا گیا۔ تاریخ میں اس نے وہ کارنامہ سر انجام دیا جو شاید ہی کسی بادشاہ نے انجام دیا ہو۔ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت کی پندرہ سال بعد واپسی۔ اگر وہ شیرشاہ سوری کی اولاد سے جنگ نہ جیتتا تو نہ کوئی بابر کو جانتا نہ کہیں اکبر کا وجود ہمیں تاریخ کے صفحات پر نظر آتا۔
یہاں کوئی گھر، دکان یا کارخانہ کھو جانے کے بعد وہی شخص واپس بمشکل لے سکتا ہے تو پوری سلطنت کو حاصل کر لینا۔ طاقتور بابر سے جنگ شیرشاہ کا حوصلہ تھا۔ ہندوستان پر سترہ حملے کرنا، غریبوں کے خون کو چوس کر جن مذہبی ساہوکاروں نے ''بت پرستی'' کے نام پر یہ سب کچھ جمع کیا تھا اسے محمود غزنوی جیسے ''بت شکن'' کی جدوجہد کے ہتھوڑے کا شکار ہونا ہی تھا۔
صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لے لیا۔ آج ڈیڑھ ارب مسلمان چند کروڑ یہودیوں سے تو قبلہ اول کی واپسی کا سوچ کر بھی دکھائیں۔ 1156ء میں پیدا ہونے والے نے مصر کی فتح کے بعد فوج کی تنظیم پر توجہ دی۔ دمشق پر عیسائیوں کے حملے کو روکنے کے بعد صلاح الدین بیت المقدس کی جانب بڑھا۔ ایک لاکھ عیسائی فوجی اور مضبوط قبضہ۔ زبردست مقابلے کے بعد صلح کی پیشکش یعنی کامیاب جدوجہد۔
52 سال کی عمر میں بننے والے خلیفہ دوم کے دس سالہ دور حکومت میں عراق، شام، فلسطین، ایران، مصر، ترکی، اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے۔ بائیس لاکھ مربع میل رقبے اور آج اقوام متحدہ کے بائیس ممبر ممالک۔ یہ جدوجہد تصویر کا روشن رخ دیکھنے والے کی جدوجہد تھی۔
کامیابیوں کا اصل محرک تو حضورؐ کی ذات بابرکت تھی لیکن اس میں فاروق اعظمؓ کی فراست کو نظرانداز کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ خالدؓ بن ولید اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے جنرل ہیں۔ غزوہ احد میں ان کی جنگی حکمت عملی کے مسلمان بھی قائل تھے۔ منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کی سرکوبی کے لیے خالدؓ کی اولالعزمی سرفہرست تھی۔ جس شخص کے جنگی کارناموں کو یورپ کی فوجی اکیڈمیوں میں پڑھایا جاتا ہو اس کے عزم کی کیا نوعیت ہو گی۔
پیغمبروں سے سائنسدانوں اور آزادی دلانے والے رہنماؤں سے جنگی بہادروں تک کے واقعات ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔ یہ سب کچھ پڑھ کر بھی آپ مایوسی اور نا امیدی کی سوچ کو نہیں جھٹکیں گے؟ کیا پرعزم ہو کر نہیں اٹھیں گے؟ کیا ہم آپ کی آنکھوں کی چمک کو نام دیں کہ یہ ہے آپ کا آغاز جدوجہد؟