جشن ریختہ آخری حصہ
مشاعرے میں محمد علوی‘ انور شعور‘وسیم بریلوی‘ اشفاق حسین‘ فرحت احساس اور مجھ سمیت کل چھ شاعر تھ
لاہور:
فرحت احساس نے ریختہ آرگنائزیشن کی تاریخ اغراض و مقاصد اور اب تک کی کارکردگی پر روشنی ڈالی جس کے بعد سنجیو صراف کے والد نے روایتی شمع روشن کر کے جشن کا افتتاح کیا۔
اس شام کا خصوصی پروگرام ریکھا بہار دواج کی صوفیانہ گائیکی پر مشتمل تھا، ریکھا مشہور موسیقار فلم ساز اور ہدایت کار وشال بھار دواج کی بیگم اور دور حاضر کی ایک مقبول گلوکارہ ہیں، دونوں میاں بیوی برادر عزیز گلزار کے قریب ترین حلقہ احباب سے ہیں اور ڈیڑھ سال قبل اس روز میرے غریب خانے پر دوپہر کے کھانے کے لیے مدعو تھے۔
جب گلزار بھائی کو اچانک واپس جانا پڑ گیا اور یوں ہماری ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی اپنے شکاگو والے برادر عزیز عرفان صوفی سے ریکھا جی کا بہت تذکرہ سنا تھا کہ وہ ان تینوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ اکثر پلے بیک سنگرز کو لائیو پرفارمنس کے دوران کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سے قطع نظر ریکھا جی نے بعض آئٹم بہت اچھے گائے اور خوب رنگ جمایا۔
14 مارچ کا پہلا سیشن ہمہ خانہ آفتاب کے منفرد نمایندے اور میرے عزیز دوست جاوید اختر کے ساتھ ایک مکالمہ تھا جس کی میزبانی مشہور افسانہ نگار جو گندر پال کی صاحبزادی سکریتا پال آنند کے ذمے تھی مگر انھیں بولنے کا بہت کم موقع ملا کہ جاوید اختر نے اپنی خوش گفتاری سے ڈائیلاگ کو مونولاگ کی شکل دے دی تھی اور سامعین کو یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ سوا گھنٹہ اس قدر جلد کیسے گزر گیا ہے انھوں نے اپنی گفتگو میں دانش (Wisdom) ذکاوت (Wit) اور برجستہ گوئی کو اس خوب صورتی سے ہم آمیز کیا کہ ان کے جملوں کو اچھے شعروں کی طرح داد ملی مشتے از خروارے کے طور پر کچھ جملے دیکھئے
٭ زبان کی تہہ داری کو پیاز کے چھلکوں سے تشبیہہ دی جاتی ہے مگر بھائی پیاز کسی اور چیز کا نہیں انھی چھلکوں ہی کا نام ہے۔
٭ زبان Region کی ہوتی ہے Religion کی نہیں۔
٭مذہب کو میری طرح چھوڑیں نہیں مگر اس پر اتنا زیادہ زور دینا کم کر لیں۔
٭ آرزوؔ لکھنوی نے اپنے شعری مجموعے ''سریلی بانسری'' میں اردو میں شامل ہندی الفاظ کو کس مہارت اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ
جتنی گہری سانس کبھی تھی اتنی لمبی ہوک گئی
٭شعر بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں اگر وہ بڑے ہو جائیں تو آپ ان کی ذمے داری نہیں لے سکتے۔
میرا پہلا سیشن اردو ادب میں تانیثیت (Feminism) تھا جس کی ماڈریٹر شمس الرحمن فاروقی صاحب کی بیٹی باران فاروقی تھیں اور پینل میں میرے ساتھ سکریتا پال آنند اور ترنم ریاض تھیں عورت کے عورت پن کے اظہار اور جملہ حقوق پر جس قدر کھل کر بات کی گئی وہ کم از کم میرے لیے پریشان کم اور حیران کن زیادہ تھی کہ عورت کے اظہار کی آزادی کے نام پر جن حقوق کا ذکر بہت ہی واشگاف انداز میں کیا گیا وہ میر ے اور ترنم ریاض سمیت بیشتر حاضرین کے لیے بھی غیر متوقع اور ناقابل فہم تھے۔
مشاعرے میں محمد علوی' انور شعور'وسیم بریلوی' اشفاق حسین' فرحت احساس اور مجھ سمیت کل چھ شاعر تھے، جاوید اختر کو اپنی کسی فوری مصروفیت کے باعث ممبئی واپس جانا پڑ گیا اور ندا فاضلی مبینہ طور پر ایک اور مشاعرہ بھگتانے کے چکر میں وقت پر نہ پہنچ سکے۔
نظامت کے فرائض معین شاداب نے بہت خوش اسلوبی سے انجام دیے، سامعین تعداد اور معیار دونوں اعتبار سے اس قدر عمدہ اور سخن فہم تھے کہ بہت دنوں بعد کسی مشاعرے میں ایسا لطف آیا۔ مزید خوشی اس بات پر ہوئی کہ میرے اور انور شعور کے بہت سے اشعار کئی سامعین کے مطالعے سے گزر چکے تھے۔
15 مارچ کی صبح راجیہ سبھا ٹی وی چینل نے اپنے پروگرام ''شخصیت'' کے لیے اپنے اسٹوڈیوز میں میرا انٹرویو ریکارڈ کیا میزبان ثمینہ رئیس کے سوالات بہت جچے تلے اور انداز گفتگو بہت خوشگوار تھا انھوں نے مجھے کچھ سابقہ پروگراموں کی DVD,s بھی دیں اور بتایا کہ میرے پروگرام کی DVD بھی پروگرام نشر ہونے کے فوراً بعد تیار کر لی جائے گی جو مجھے محترمہ کامنا پرساد کے جشن بہاراں مشاعرے میں دے دی جائے گی جس کے لیے دو ہفتے بعد مجھے دوبارہ دہلی آنا ہے۔
آخری پروگرام رادھیکا چوپڑہ اور استاد حامد علی خان کی محفل موسیقی تھی حامد علی خان دہلی میں پہلی بار گا رہے تھے مگر جس انداز میں انھوں نے دلی والوں کو اپنی خوب صورت گائیکی سے متاثر کیا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اب انھیں بار بار یہاں آنا پڑے گا۔
''جشن ریختہ'' کے درمیان بہت سے پرانے دوستوں اور نئے خیرخواہوں سے ملاقاتیں رہیں جن میں ''امراؤ جان ادا'' والے مظفر علی کامنا پرساد' عبدالکلام قاسمی' شافع قدوائی' گوپی چند نارنگ' شمس رحمان فاروقی' جاوید اختر' شرودت اور راج کمل اور اشوک صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہ یہ سب اپنے اپنے میدانوں کے گنی لوگ ہیں۔
گلزار بھائی' اختر آزاد اور ان کے صاحبزادے توصیف سے فون پر خوب گپ شپ رہی جب کہ عدنان سمیع خان سے رابطہ نہ ہو سکا کہ وہ ان دنوں امریکا گئے ہوئے تھے مجموعی طور پر سنجیو صراف اور ان کے ساتھیوں کے اس جشن ریختہ نے جہاں تین دن سربسر اردو کی فضا میں گزارنے کا موقع دیا وہاں یہ سوال بھی بار بار دل و دماغ پر دستکیں دیتا رہا کہ جو سلوک ہم اپنے ملک میں اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں اگر وہ اسی طرح جاری رہا تو ہمیں بھی شاید اس کے احیا کے لیے کسی سنجیو صراف ہی کو تلاش کرنے پڑے گا۔