منٹو یہاں اور وہاں

ہم نے نہرو میموریل میں قدم رکھا تو اس کے وسیع ایوان میں منٹو صاحب کی بڑی بڑی تصویروں نے ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا


Intezar Hussain October 08, 2012
[email protected]

دلی کا ہمارا یہ پھیرا منٹو صاحب کی تقریب سے تھا۔

یا یوں سمجھیے کہ منٹو برس کی تقریب سے۔ یہ جو 2012ء کا برس جا رہا ہے وہ ہماری دنیائے ادب نے منٹو صاحب کے حساب میں لکھا ہے۔ پاکستان میں تو اس واسطے تقاریب منعقد ہونی ہی تھیں۔ مگر ہندوستان میں بھی منٹو تقاریب بڑھ چڑھ کر ہوئی ہیں۔ کتنی ہو چکی ہیں، کتنی اگلے مہینوں میں ہونے والی ہیں۔ اور جس تقریب میں ہم دلی جا کر شریک ہوئے اسے دیکھ کر تو ایسا لگتا تھا کہ ہندوستان کی دنیائے ادب منٹو صاحب کے معاملہ میں کچھ زیادہ ہی پرجوش ہے۔ ہم نے نہرو میموریل میں قدم رکھا تو اس کے وسیع ایوان میں منٹو صاحب کی بڑی بڑی تصویروں نے ہمیں اپنے نرغے میں لے لیا۔

مگر ٹھہریے، یہ نہرو میموریل کیا مقام ہے اور سہمت جس نے ہمیں مدعو کیا تھا کس چڑیا کا نام ہے۔ ارے وہ تو ہم محاورے کی رو میں اسے چڑیا کہہ گئے، اس ادارے سے تو ایک دانشور ایک ہندوستانی تھیٹر کی بڑی شخصیت کی قربانی کی یاد وابستہ ہے۔ ادارے کا پورا نام ہے صفدر ہاشمی میموریل ٹرسٹ۔ اصل میں اس تھیٹر گروپ نے جس سے صفدر ہاشمی وابستہ تھے، ایک برس یہ طے کیا کہ رامائن کے اگلے پچھلے جتنے ورشن Version ہیں یا کہہ لیجیے کہ ہندوستان کی تاریخ اور ماقبل تاریخ نے جس جس رنگ سے اس رزمیہ کو بیان کیا ہے وہ سارے رنگ اسٹیج پر پیش کیے جائیں۔

ان میں ایک رنگ وہ بھی تھا جو ایک جاتک کتھا کی شکل میں جاتکوں کی روایت میں محفوظ چلا آتا ہے۔ وہاں رام چندر جی اور سیتا جی کو بھائی بہن کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ بس اس پر وہ گروہ جو مذہب کے نام پر ہنگامہ کرنے پہ ادھار کھائے بیٹھا رہتا ہے برافروختہ ہو گیا کہ ان مورکھوں نے سیتا جی اور رام چندر جی کو بھائی بہن بنا کر ان کا اپمان کیا ہے۔ سو تھیٹر پر حملہ ہوا اور صفدر ہاشمی اپنے ساتھی فنکاروں کو بچاتے بچاتے خود فسادیوں کی زد میں آ گئے اور ایسے زد میں آئے کہ جان سے چلے گئے۔

ان کے نام سے یہ ادرہ وجود میں آیا جو ایک فنکاروں کے ادارے کے طور پر سرگرم عمل ہے۔ اس نے منٹو سال کی تقریبات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری نے بڑھ کر اس کام میں اس ادارے کے ساتھ شرکت کی۔ اصل میں وزیراعظم ہند کے طور پر یہاں پنڈت نہرو کی رہائش تھی۔ ان کے گزر جانے کے بعد اس گھر کو ان کی یادگار کی حیثیت حاصل ہو گئی جہاں ایک لائبریری قائم ہے اور ایک میوزیم ہے اور ثقافتی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز ہے۔

منٹو سیمینار میں تین زبانوں میں لکھنے والے اور سوچنے والے جمع تھے، اردو والے، ہندی والے، انگریزی والے، افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسر الوک بھلہ کر رہے تھے۔ اور ان کا قدم تو خیر سے ان تینوں زبانوں میں ہے۔ ویسے تو وہ انگریزی زبان کے شناور ہیں۔ مگر انھوں نے تقسیم کے وقت کے افسانوں پر تحقیق کا بیڑا اٹھایا۔ سو اردو، ہندی، پنجابی، انگریزی اور جنوبی ایشیا کی باقی زبانوں میں جو کہانیاں اس تاریخی وقت میں گزرنے والے واقعات پر لکھی گئیں اور جس جس زاویے سے لکھی گئیں سب کو سمیٹا، انگریزی میں ترجمہ کیا۔ انھیں جانچا، پرکھا اور کتنی جلدوں میں انھیں سنگھوایا۔ Partition Stories کے نام سے جلدوں کے اس سلسلے کو پیش کیا۔

ہاں ان کہانیوں کو جانچنے پرکھنے کے عمل میں ان کی توجہ سب سے بڑھ کر منٹو کی کہانیوں پر مرکوز ہوگئی۔ پھر انھوں نے تخصیص کے ساتھ منٹو کا تحقیقی مطالعہ کیا۔ اور اس زمانے میں جس درسگاہ سے منسلک تھے وہاں منٹو سیمینار کا اہتمام کیا۔ وہ بتا رہے تھے کہ ہندوستان میں منٹو پر ہونے والا یہ پہلا سیمینار تھا۔ وہ گویا بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ پھر چل سو چل۔ ہندوستان میں منٹو کی کہانیاں کتنی زبانوں میں ترجمہ ہوئیں، انتخاب چھپے، تحقیقی مطالعے ہوئے، پھر سیمیناروں کا سلسلہ۔

یہاں اس سیمینار میں منٹو کے کتنے محقق اور نقاد بیٹھے تھے۔ پاکستان سے علی ہاشمی، رضا رومی اور یہ خاکسار آئے بیٹھے تھے۔ اور بحث گرم تھی۔ یہی تو اس سیمینار کا طرۂ امتیاز تھا۔ ہم نے اس دیار میں اور سیمینار بھی منعقد ہوتے دیکھے ہیں۔ یہی طور دیکھا کہ مضامین پڑھے گئے، لیکچر ہوئے، بیچ بیچ میں کچھ سوال ہوئے، مقالہ نگاروں اور مقرروں نے جواب میں اپنے اپنے مؤقف کی مزید وضاحت کی۔ اختتامی اجلاس ہوا، پھر کھیل ختم پیسہ ہضم لیکن یہاں رنگ یہ تھا کہ ادھر مقالہ تمام ہوا، ادھر سوالات اور پھر سوالات۔ اور پھر بحث اتنی گرم کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ جس نے منٹو کی کسی تحریر پر انگشت نمائی کی یا کسی نے ان کے عمل پر نکتہ چینی کی اسے اتنے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا کہ پھر اسے اپنے بیان کی صفائی میں بہت کچھ کہنا پڑتا۔

یہ معاملہ بار بار زیر بحث آیا کہ منٹو کے ساتھ ترقی پسند تحریک نے کیا سلوک کیا۔ اس بحث میں ترقی پسند دانشوروں کو بہت جواز پیش کرنے پڑے کہ خاص طور پر علی جاوید صاحب کو، کہ اب بچی کھچی ترقی پسند تحریک کے رکھوالے ہیں، بہت وضاحتیں اور بہت صفائیاں پیش کرنی پڑیں۔ مگر یہاں رخشندہ جلیل بھی تو تھیں جنہوں نے ترقی پسند تحریک پر تحقیقی کام کر رکھا ہے اور یہاں خصوصیت کے ساتھ منٹو اور ترقی پسند تحریک کے باہمی تعلق اور بے تعلقی پر تفصیل سے اپنے مقالے میں بحث کی تھی۔ ویسے بھی وہ اس سیمینار کو بہت سرگرمی سے چلاتی اور سنبھالتی نظر آ رہی تھیں۔

ویسے تو اور بھی ایسے دانشور نظر آ رہے تھے جن سے ہم شناسا چلے آ رہے تھے جیسے سدھیر چندر جو تاریخ کے آدمی ہیں اور منٹو کے مداح یا اشوک باجپائی جو اپنی صدارت میں ان مقالہ نگاروں سے زچ نظر آ رہے تھے جو ایسے شروع ہوئے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ مگر ایک چہرہ دیکھ کر ہم ٹھٹھکے۔ ارے یہ تو اعجاز احمد ہیں۔ اس عزیز نے پر پرزے لاہور میں نکالے تھے مگر لمبی اڑان امریکا میں آ کر لی۔ اپنی پہلی ہی کتاب پر انھوں نے اس دیار میں ناموری حاصل کر لی۔ مگر پھر ان کا ادبی جوش انقلابی جوش میں بدل گیا۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے دلی کے گھاٹ پر جا نکلے۔ تو لیجیے۔ یہاں آ کر ان کا رنگ بھی دیکھ لیا۔ یہاں ایک دانشور نے اپنی گفتگو کا عنوان ہی یہ مقرر کیا تھا۔

Identity and Politics---Manto as a Minor Writer

اس دانشور نے مغرب کے کسی دانشور سے فیض حاصل کیا تھا جس نے کافکا کو اس بنا پر ایک Minor ادیب قرار دیا تھا کہ وہ ایک چھوٹے علاقے کا فرزند تھا، ایسے علاقے کا جس کی زبان بھی چھوٹی زبانوں کے ذیل میں آتی ہے۔ وہاں سے اشارہ لے کر اسی استدلال کے ساتھ اس نے منٹو کو چھوٹا ادیب قرار دے ڈالا۔ تب اعجاز احمد کو جوش آیا اور انھوں نے اس کے سارے استدلال کی ہندی کی چندی کر دی۔

ارے ہاں آخر میں یہاں یہ بحث چھڑ گئی کہ منٹو صاحب اچھے بھلے بمبئی میں رچ بس گئے تھے۔ وہ پاکستان کیوں چلے گئے۔ یہ بحث گرم ہوتی چلی گئی۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اپنے اپنے رنگ سے کتنوں نے اس ہجرت کی توجیہہ کی۔

اور ہم یہ سوچ کر حیران ہو رہے تھے کہ اس زمانے میں عام خلقت سے ہٹ کر کتنی نامور شخصیتیں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر منتقل ہو گئیں۔ مگر ان کی انتقال مکانی پر کس نے کتنا تردد کیا۔ بڑے غلام علی خاں نے کیا سوچ کر اور دیکھ کر پاکستان کو سلام آخر کیا اور ہندوستان جا بسے۔ موسیقی کے دلداد گان اس پر ضرور افسردہ ہوئے۔ مگر کتنوں نے اس واقعہ پر کتنا تردد کیا۔ مگر ہندوستان میں اس واقعہ کے اتنے زمانے بعد آج بھی وہاں کے ادبی حلقوں کو منٹو کی نقل مکانی کے حوالے سے ایک بڑے نقصان کا احساس ستا رہا ہے۔ یہاں کے اور وہاں کے اس فرق پر بتائیے کیا کہیں سوائے اس کے کہ

سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں