مغرب کی ترقی اور اسلام کا سنہری دور

تم آخرت کی تجارت کے لیے دنیا میں آئے ہو تو جس قدر ممکن ہوسکے نفع کماؤ۔


Dr Naveed Iqbal Ansari March 10, 2015
[email protected]

راقم کے ایک شاگرد نے گزشتہ ہفتے سوال اٹھایا کہ جناب مغرب اس قدر ترقی کرچکا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کا سنہری دور بھی اس قسم کی ترقی کی کوئی ایک مثال پیش نہیں کرسکا؟ یہ سوال اپنی جگہ بڑا وزنی ہے، اس کا جواب اہم ترین ہے کیونکہ یہ سوال آج مسلم امہ کے نوجوانوں میں کم و بیش احساس کمتری کا باعث بھی بنتا نظر آتا ہے اور نوجوان ذہنی طور پر مغرب کی ترقی کے آگے نفسیاتی شکست کھاتے نظر آتے ہیں۔

انسانی فلسفہ حیات کی تاریخ پر اگر مختصراً نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ماضی کی تمام تہذیبوں میں عقل کے مقابلے میں مذہب کو فوقیت حاصل تھی۔ عقل سے بطور صلاحیت تو کام لیا جاتا تھا مگر عقل کو مذہب یا ان تمام معاملات میں بطور ایک ایسے آلے کی حیثیت حاصل نہیں تھی کہ جس کی بنیاد پر کسی شے کے غلط یا درست ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔

یونانی فکر میں گوکہ عقل کو اہم مقام ملا اور مذہبی معاملات پر بھی سوالات اٹھانے کی کسی قدر کوشش کرکے سیکولر معاشرے کی ابتدائی شکل پیش کرنے کی کوشش کی گئی مگر 18 ویں صدی اور اس کے بعد درحقیقت عقل پرستی کو فروغ حاصل ہوا اور مختلف مفکرین و فلسفیوں نے وہ نظریات متعارف کرائے کہ مذہب پس پشت چلتا چلا گیا۔

چنانچہ مذہبی تعلیمات بھی پس پشت ہو گئیں تو لوگوں کا جو وقت مذہب کے حوالے سے غور و فکر میں گزرتا تھا وہ دیگر دنیاداری میں گزرنے لگا اور عقل کی بنیاد پر دنیا کو حاصل کرنے کے لیے سوچ لوگوں پر طاری ہوتی چلی گئی۔ مذہب جوکہ دنیاوی زندگی کو کم اور آخرت کی زندگی کو زیادہ اہمیت دیتا تھا ۔

اس کا معاملہ بھی الٹ ہوگیا چنانچہ دنیاوی حصول پر مبنی سوچ اور مذہب سے فارغ سوچ کے نتائج سے دنیا ہی بہتر ہونے لگی اور ایجادوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ انسان جس بارے میں سوچے گا تو وہی کچھ نتائج برآمد ہوں گے۔ آخرت کی فکر کرے گا تو زندگی میں فقر اختیار کرے گا اور دنیا کو بہتر بنانے کی فکر کرے گا تو آرائش زندگی کے بارے میں غور و فکر کرے گا۔

جب ہم اسلامی تاریخ کے سنہری دور کی بات کرتے ہیں تو غور کرنا پڑے گا کہ اسلام نے لوگوں کو کیا تعلیمات دیں؟ امام غزالی ان تعلیمات کا ذکر اپنی کتب میں اس طرح کرتے ہیں (1) قارون بن سنور کر ٹھاٹ کے ساتھ جلوس میں نکلا تو بعض لوگوں کو یہ شان و شوکت دیکھ کر حرص ہوئی لیکن جو لوگ اہل علم تھے وہ کہنے لگے کہ افسوس تم ان ناپائیدار چیزوں کی حرص کرتے ہو، دیکھو اللہ کا ثواب سب سے بہتر چیز ہے۔

(2) جو شخص بالخصوص فلسفی حکمت، فلسفہ اور اس طرح کے دنیاوی علوم حاصل کرتا اور سمجھتا ہے کہ یہ علم اس کے لیے دنیا کی فانی شان و شوکت اور مرتبے کے علاوہ آخرت میں بھی چھٹکارے کا سبب بنے گا اور اس پر عمل کی ضرورت نہیں تو ان کو آخرت میں سخت رنج و غم کا سامنا ہوگا۔

(3) خوب سمجھ لو کہ جو لوگ دنیا کو مقصود سمجھ کر اس کے کمانے میں مشغول ہوجاتے ہیں وہ سدا پریشان رہتے ہیں کہ ان کی کل کبھی ختم نہیں ہوتی اور ان کی آرزو کبھی پوری نہیں ہوتی۔

(4) اگر ساری دنیا کے تمام عقلا جمع ہوں اور اپنی ساری ذہنی اور عقلی توانائیوں کو لگائیں اور اس اللہ کی بنائی ہوئی کائنات سے متعلق یہ تصور کریں کہ اس میں خامی ہے اسے اور بہتر ہونا چاہیے یہ ان کی خطا ہوگی اور وہ غلطی پر ہوں گے۔

(5) تم آخرت کی تجارت کے لیے دنیا میں آئے ہو تو جس قدر ممکن ہوسکے نفع کماؤ۔

بات بالکل واضح ہے کہ جس شخص کا عقیدہ ہی یہ ہو کہ وہ دنیا میں آخرت کی تجارت کے لیے آیا ہے تو دن ہو یا رات وہ ہر لمحہ آخرت میں کامیابی کے لیے ہی سوچے گا اسی کی جستجو کرے گا نہ کہ وہ یہ سوچے گا کہ نئی نئی ایجادات کیسے کی جائیں اور کسی شے کی فروخت بڑھانے کے لیے اس میں مزید فنکشن وغیرہ میں اضافے کے لیے تحقیق و تجربات کیسے کیے جائیں اور پھر منافع، دولت کیسے جمع کی جائے۔

ظاہر ہے دنیاوی کامیابی کے لیے، نئی نئی ایجادات کے لیے صبح و شام خدا کو یاد کرنے کے لیے وقت کہاں سے آئے گا جب کہ سارا وقت تو تحقیق و تجربات کی نذر ہوجائے گا۔ ان تحقیقات و تجربات کے لیے وقت تب ہی میسر آئے گا کہ جب کسی شخص کی مذہب پر سے گرفت کمزور پڑ جائے۔

غور کیجیے جب دین اسلام پر مسلمانوں کی گرفت مضبوط تھی تو اسلامی ریاست کی سرحدیں بڑھتی جا رہی تھیں، لال قلعہ، شالامار باغ یا تاج محل جیسے دنیاوی شاہکار وجود میں نہیں آرہے تھے یہ اس وقت ہی وجود میں آئے جب مسلمانوں کی دین سے گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔

جب دین پر غور وفکر کیا گیا اور اس کی روح پر درست طریقے سے عمل کرنے کی کوشش کی گئی تو صوفیا کرام کی صورت میں عظیم ہستیاں پیدا ہوئیں۔

اگر دنیاداری پر سوچ کا دائرہ قائم کرلیا جاتا تو پھر یقینا آئن اسٹائن اور نیوٹن جیسے سائنسدان پیدا ہوتے مگر اس فرق کو غور سے سمجھیے کہ جب درخت کے نیچے بیٹھا ایک شخص سیب کے زمین پر گرنے سے غور و خوض کے بعد یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ کشش ثقل بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور اسی طرح یہ کہ قانون حرکت بھی کوئی حقیقت ہے یقینا اس غور وفکر سے دنیاوی لحاظ سے ایک انقلاب کی کیفیت تو ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت بھی پتہ چلتی ہے کہ جناب جب دل و دماغ اللہ کی یاد سے غافل ہو تو تب ہی ایسا خیال آسکتا ہے ورنہ دل و دماغ اللہ کی جانب لگا رہے تو کسی پانی پر تیرتا ہوا سیب آجائے اور اس کو کھا لیا جائے تب بھی ذہن میں کسی ''حرکت قانون'' کا خیال یا کسی ''کشش ثقل'' جیسے قانون کا خیال نہیں آتا بلکہ آتا ہے تو یہ خیال کہ کہیں یہ حرام رزق تو نہیں ہوا؟ یہ کس کی امانت تھا؟ اس کا مالک کون تھا؟

جب انسان دین دار ہو تو پھر وہ سیب کے مالک کی تلاش میں چل نکلتا ہے۔ ایک کی غیر دینی فکر و سوچ کے نتیجے میں قانون حرکت اور طیاروں کی اڑان جیسے معاملوں میں مدد ملتی ہے مگر ایسی لادینی سوچ جو کسی طیارے کو تو ہوا میں اڑانا سکھا دیتی ہے مگر زمین یا سمندر میں گرتے وقت روکنے کی قدرت نہیں رکھتی جب کہ دوسری جانب جو شخص سیب کے مالک کی تلاش میں نکلتا ہے۔

اس کی علمیت اور روحانی مقام کا تو جو حال ہے وہ تو الگ اس کے فرزند کا یہ مرتبہ ہے کہ سمندر میں غرق کشتی کو انگلی کے ایک اشارے سے نکال دے۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال اور فرق ہی سمجھنے والوں کے لیے بہت ہے کہ ہمیں کس پر فخر کرنا چاہیے؟ جو گرتے تباہ ہوتے جہاز کو نہ بچا سکے یا جو غرق ہونے والی کشتی کو پانی سے صحیح سلامت نکال لائے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔