غلط فہمی

جو آدمی غریب سے امیر ہوا ہوتا ہے اسے ایک خوف ہوتا ہے۔ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں اس سے یہ سب کچھ چھن نہ جائے۔


[email protected]

جو آدمی غریب سے امیر ہوا ہوتا ہے اسے ایک خوف ہوتا ہے۔ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں اس سے یہ سب کچھ چھن نہ جائے۔ اسے غربت کا وہ زمانہ یاد آتا ہے جب وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے ترستا تھا۔ وہ واپس اس دنیا میں نہیں جانا چاہتا جس سے نکلنے کے لیے اس نے بہت ہاتھ پاؤں مارے تھے۔ وہ کلاس بدل جانے پر تو خوش ہوتا ہے لیکن واپس نچلے درجے میں آنے کے خیال ہی سے سہم جاتا ہے۔ وہ تدبیریں کرتا ہے کہ کسی طرح یہ مال و دولت زیادہ سے زیادہ عرصہ اس کے پاس رہے۔ چھن جانے کا ڈر ایک غلط فہمی ہے۔

اگر قدرت کے اشارے کو سمجھا جائے تو خوف کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر غریب سے امیر ہونے والوں کے دلوں کو جھانکا جائے تو وہ خواہ مخواہ اندیشے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اگر وہ اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیں تو انھیں مشاہدے کی دنیا کی سیر کرواتے ہیں۔ اگر وہ رئیس سے فقیر ہونے والوں کی تاریخ دیکھیں تو اطمینان محسوس کریں گے۔ وہ جانیں گے کہ خالق کائنات خوشحالی کی سیڑھی پر قدم رکھنے والی پہلی نسل کو کچھ رعایت دیتے ہیں۔

قدرت اس آدمی سے دولت نہیں چھینتی جس نے بچپن میں غربت دیکھی ہو۔ اگر وہ دنیا میں ''رب'' بننے کی کوشش نہ کرے تو۔ شدید فضول خرچی سے بچ جائے تو وہ دوبارہ مفلس ہونے سے بچ سکتا ہے۔ ''نو دولتیے'' کا لفظ ایک طعنہ ہے اس امیر کے لیے جو غریب باپ کا بیٹا ہو۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے باوجود یہ لفظ اس کے دل پر چبھتا ہے۔ یقین جانیں یہ لفظ ایک گارنٹی ہے کہ آپ کی آخری سانس تک جو کچھ آپ کے پاس آگیا ہے وہ چھینا نہیں جائے گا۔ بچپن میں غربت کے دکھ جھیلنے والے اور ادھیڑ عمری تک آتے آتے خوشحال ہونے والے کا بڑھاپا عموماً محفوظ ہوتا ہے۔ یہ جملہ ایک انشورنس پالیسی ہے۔ غربت میں محرومی کا پریمیم ادا کرنے والے کے لیے یہ ایک عمدہ پالیسی ہے۔ دو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے والے دولتیے کو پرسکون رہنا چاہیے۔

جوانی میں دولت مند مائیک ٹائی سن جیسے لوگ بچپن کے بعد بڑھاپے میں غریبی کا دکھ کیوں جھیلتے ہیں؟ اس کا سبب ان کی بے تحاشا فضول خرچی اور زمین پر فرعون بننے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ دو حفاظتی تدابیر اختیار کرکے پرسکون بڑھاپا گزارا جاسکتا ہے۔ رئیسانہ انداز سے غربت اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے مفلسی میں جاتے اکثر وہ لوگ دیکھے گئے ہیں جو پیدائشی امیر ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کا سوچیں تو یہ جملہ ان لوگوں کے لیے ایک جھٹکا ہے جو کنگلے سے کروڑ پتی ہوئے ہیں۔ مختصراً یوں سمجھیں کہ گارنٹی ان کے لیے ہے جنھوں نے بچپن میں غربت دیکھی ہو۔ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والی دوسری نسل کی کوئی گارنٹی نہیں۔ آئیے بات کو ذرا آگے بڑھاتے ہیں۔

نیا نیا امیر صرف دولت کے بارے میں ہی فکرمند کیوں ہوتا ہے؟ وہ جانتا ہے کہ شہرت ہمیشہ نہیں رہے گی، عزت بھی اس وقت تک ہوگی جب تک ہنر کی قدر ہوگی اور صحت بھی گرتی رہے گی۔ عزت، شہرت اور صحت میں وقت کے ساتھ کمی گوارا کرنیوالا دولت میں کمی پر رضامند نہیں ہوتا کیوں؟ اس لیے کہ وہ مال و دولت اپنی آنیوالی نسل کو منتقل کرنا چاہتا ہے اسی لیے وہ باقی تین چیزوں پر کمپرومائز کو تیار ہوجاتا ہے۔ انسان موت کو بھی ہنسی خوشی گلے لگا سکتا ہے اگر دولت اس کے بچوں تک باقی رہے۔ ہم کہہ چکے ہیں اور دیکھنے میں بھی یہی آیا ہے کہ خوشحال ہونے والی پہلی نسل سے دولت نہیں چھینی جاتی۔ ''تم محفوظ ہو لیکن بچوں کی کوئی گارنٹی نہیں۔'' یہ قدرت کا اشارہ ہے۔

آپ کہیں گے کہ ہم نے نسل در نسل کے امیر دیکھے ہیں۔ ہم کہیں گے دیکھے ہوں گے لیکن بتائیے کہ بڑی بڑی مشہور کمپنیاں اس کنبے کے بانی کے خاندان کے پاس ہیں؟ بائیس خاندان کہاں گئے جن کی ایوب دور میں بڑی شہرت تھی؟ مشہور کھلاڑیوں اور فنکاروں کے بیٹے تمام تر کوششوں کے باوجود کیوں ناکام رہے ؟ گاندھی، لیاقت، جوہر، نشتر کے بیٹوں کو وہ مواقع نہ ملے جو انھیں ملے تھے۔ حنیف محمد، آصف اقبال، مشتاق محمد، جاوید میانداد کا کوئی بیٹا بڑا کرکٹر نہیں۔ سلطان راہی، وحید مراد، رنگیلا، کمال کے بیٹے فلمی صنعت میں ناکام رہے۔ غربت کے اندھیرے چیر کر عزت دولت اور شہرت حاصل کرنے والوں کی اگلی نسل گمنامی کے غار میں دکھائی دیتی ہے۔

اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والا اگر اپنی اولاد میں چار خوبیاں دیکھے تو سمجھ جائے کہ سلسلہ دراز ہوگا۔ اگر یہ خصوصیات آنے والی نسل میں نہ دیکھے تو جان لے کہ قدرت کی دراز رسی جلد کھینچ لی جائے گی۔ اس کی آخری سانسوں تک قدرت لحاظ کر جائے لیکن اولاد کو زیادہ مہلت عمل نہ ملے گی۔ پہلی خوبی ذہانت ہے۔ کھیل، فن، قلم کاری اور سیاست کے لیے زیادہ ذہانت درکار ہوتی ہے۔

تجارت ہو تو زیادہ ہوشیاری درکار نہیں ہوتی کہ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے لیکن کم کم۔ لگاتار تین کامیاب نسلوں کی مثالیں اکا دکا ہی ہیں۔ علامہ اقبال، جاوید اقبال اور ولید اقبال کے علاوہ سرسید، جسٹس محمود اور سر راس مسعود۔ ایسی کامیابیوں کے لیے آنے والی نسل کا سخی ہونا لازمی ہے۔ غریب سے امیر ہونے والے کی سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والی اولاد اگر دولت پر سانپ بن کر بیٹھ جائے تو خوشحالی زیادہ دیر نہیں رہتی۔ تجوری کھولنے، بٹوہ نکالنے اور چیک بک پر فلاحی کام کے لیے دستخط کرنے میں منہ بنایا جائے تو قدرت منہ کے بل گرا دیتی ہے۔

جھونپڑے سے کوٹھی کا سفر اچھا لگتا ہے لیکن جب کوارٹر میں پیدا ہونیوالے کا جنازہ بنگلے سے نکلتا ہے تو اولاد جائیداد کے لیے لڑتی دیکھی گئی ہے۔ عزت، دولت اور صحت قربان کرکے دولت بچانے والا چاہتا ہے کہ اولاد عدالت کی سیڑھیاں نہ چڑھے تو وہ انصاف کا دامن تھام لے۔ بچوں میں اتفاق چاہے تو جان لے کہ دن بہ دن عمر کی نقدی ختم ہو رہی ہے۔ ایک سے دوسری دکان اور تیسری سے چوتھی فیکٹری یا پانچویں سے چھٹے گھر کی طرف نہ بڑھے۔ کیش رقم اپنے قبضے میں رکھے اور بیٹیوں کے لیے بھی وراثت کی ادائیگی کا ذہن بنائے۔ اس وقت جب جسم و ذہن میں طاقت ہو اور پیسہ اپنے کنٹرول میں ہو۔ یہ سب کچھ خاندانی شخص کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے لیکن آج ہم اس شخص کی بات کر رہے ہیں جسے اچھے لفظوں میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والا اور طنزیہ طور پر نو دولتیا کہا جاتا ہے۔

اوپری کلاس میں آنے والا نیچے جانے سے ڈرتا ہے۔ کیا واقعی وہ اپنے مفلس ہونے سے ڈرتا ہے؟ وہ ظاہر تو یہی کرتا ہے۔ اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ یہ مال و دولت، یہ شہرت و عزت یہ ٹھاٹھ باٹھ اس کی نسل در نسل چلتا رہے۔ اس کا پہلا مرحلہ اپنے بڑھاپے بلکہ آخری سانس تک دولت کی ریل پیل دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی اولاد کے حوالے سے خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ تادیر رہے گا؟ ذہانت و سخاوت اور اتفاق نہ دیکھنے پر وہ اپنے حوالے سے سوچنے لگتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ کہیں مجھ سے ہی یہ نہ چھن جائے۔ یہ ہوتی ہے اس کی غلط فہمی۔ وہ دونوں حوالے سے غلط سوچتا ہے۔ اولاد کے حوالے سے سات نسلوں تک اسے لاحق ہوتی ہے خوش فہمی اور اپنے بارے میں ہوتی ہے غلط فہمی۔ نہ اس کی خوش فہمی سچی ہوتی ہے اور نہ غلط فہمی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں