ایک بڑے کی تلاش
پہلی کہانی شروع ہوتی ہے 2009 سے جب برطانیہ کی پولیس کے چار محکموں نے ڈرامائی انداز میں چھاپے مارے۔
لاہور:
یہ عجیب قسم کا جنگل ہے جہاں اگر تم قتل کردو تو وہ محترم ہے، اگر ہم صرف اپنی زبان سے شکوہ بھی کریں تو ظالم ٹھہرائے جاتے ہیں۔ تم لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو اپنے مفاد کے لیے تباہ کردو تو وہ انسانی حقوق کہلائیں گے لیکن اگر ہم اپنے دفاع میں ہاتھ بھی بلند کریں تو ہم چور کہلائے جاتے ہیں۔
تم کروڑوں انسانوں کو تباہی کے کونے پر لے جاکر پیاسا چھوڑدو اور ہم اپنی پیاسی زبان کو اپنے ہونٹوں تک لے کر آئیں تو دشمن کا لقب مل جاتا ہے۔ یہ کیسا جنگل ہے کہ جس میں تمھیں سارے گناہ معاف ہیں اور ہمارے سارے عمل رائیگاں جاتے ہیں۔ مگر تمھاری اور ہماری کہانی ہر موڑ پر ملتی ہے۔ آئیے دو علیحدہ علیحدہ کہانیوں کو جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔
پہلی کہانی شروع ہوتی ہے 2009 سے جب برطانیہ کی پولیس کے چار محکموں نے ڈرامائی انداز میں چھاپے مارے۔ پوری دنیا کا میڈیا متوجہ ہوگیا کہ کوئی بہت بڑی دہشت گردی کی کارروائی کرنے والے پکڑے گئے ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے بھی اس میں زبردست قسم کا مصالحہ لگایا اور جب یہ معلوم ہوا کہ گرفتار ہونے والوں میں سے اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔
تو ایک شور سا مچا اور اس کے بعد خاموشی ہوگئی۔ اس ''زبردست'' قسم کی کارروائی کو برطانیہ نے بہت بڑا کارنامہ قرار دیا اور اس وقت کے برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے کہا کہ ہم ایک بہت بڑا کام کررہے ہیں۔ اچھا جی مان لیا کہ آپ نے بہت بڑا کام کیا تھا۔ مگر ان گرفتار لوگوں میں پاکستانیوں کا نام آیا تھا اس لیے ضروری تھا کہ ہم بھی اپنے کان اور آنکھ کو کھول کر رکھیں۔
ان کا موقف تھا کہ جن گیارہ پاکستانیوں کے لیے انھوں نے اتنی بڑی کارروائی کی ہے یہ سب لوگ ایک بہت بڑی سازش کررہے تھے۔ اور ان کا منصوبہ یہ تھا کہ برطانیہ اور امریکا میں بم دھماکے کیے جائیں۔ یہ بڑی بات ہے کہ خفیہ اداروں کو کیسے پتہ چلا کہ وہ القاعدہ کے دہشت گرد ہیں؟ اس کا ایک اہم ثبوت یہ تھا کہ یہ لوگ email کے ذریعے پاکستان میں القاعدہ کے ایک رکن احمد کے ساتھ رابطے میں تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے آپ مان لیجیے کے ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ انٹرنیٹ پر کتنی تلاشی لی جاتی ہے۔
یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ برطانیہ کے اداروں نے پاکستان میں موجود جس شخص کی email پر گفتگو دیکھی ہوگی وہ انتہائی خطرناک ہوگی جس میں شاید یہ ہوگا کہ بم دھماکے کا سامان کہاں سے آئے گا اور کیسے آئے گا۔ مگر مجھے میڈیا میں یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ پولیس ان کی email کو غور سے دیکھ رہی تھی اور 8 اپریل 2009 کو انھیں اس وقت پکڑا گیا جب برطانیہ میں موجود پاکستانی عابد نصیر نے یہ لکھا کہ ''میں نادیہ کے گھر والوں سے ملا ہوں اور دونوں پارٹیوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ اس ماہ کی پندرہ سے بیس تاریخ کے درمیان نکاح کردیا جائے گا''۔ برطانوی مایہ ناز پولیس کا کہنا ہے کہ لفظ ''نکاح'' کا مطلب حملہ تھا اور اس سے پہلے کہ وہ حملہ کرتے ہم نے انھیں گرفتار کرلیا۔
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اب اس میں ہر موڑ پر ایک نیا باب کھلتا گیا۔ عابد نے کہا کہ وہ واقعی میں شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ اس ای میل میں خطرناک پیغام پہنچایا جارہا تھا۔ عدالت، پولیس اور برطانیہ کے خفیہ ادارے ایم آئی 5 کا کہنا یہ تھا کہ عابد نصیر ایک خطرناک ملزم ہے اور اس کے ارادے اچھے نہیں تھے۔
لیکن کہانی میں ایک اور کردار بھی تھا۔ اور وہ تھا استغاثہ۔ انھوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ان کے پاس ایسے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے جس کی بنیاد پر کیس کو چلایا جاسکے۔ اب برطانوی عدالت، پولیس اور خفیہ ادارے کے لیے مشکل وقت تھا۔ ایک اور بحث یہ نکلی کہ کیا عابد کو پاکستان بھیج دیا جائے۔ عدالت نے کہہ دیا کہ اسے ملک بدر کرکے پاکستان بھیجا جاسکتا ہے لیکن انھیں شک ہے کہ پاکستان میں ان پر تشدد کیا جائے گا اس لیے پاکستان نہ بھیجا جائے۔
اب برطانیہ کے لیے مشکل تھا کہ استغاثہ منع کر رہا تھا کہ کیس میں جان نہیں۔ اور برطانوی اعلیٰ حکام اس کا ڈھنڈورا بہت پیٹ چکے تھے کہ ایک بہت بڑی گرفتاری ہوئی ہے۔ مگر وہاں کا نظام ٹھوس ثبوت مانگتا تھا، تو کیا عابد کو رہا کردیا گیا؟ اس مشکل میں ظاہر ہے دوست ہی کام آتا ہے اور وہ دوست تھا امریکا۔ امریکی ادارے FBI نے برطانیہ سے درخواست کی کہ عابد کو ان کے حوالے کردیا جائے۔ کیونکہ عابد ایک بین الاقوامی دہشت گردی کا منصوبہ بنارہا تھا اور اس کا ارادہ امریکا میں بھی حملہ کرنے کا تھا اس لیے برطانیہ جو کام نہیں کرسکتا وہ کام امریکا کرنے کے لیے تیار ہے۔ عابد کو جنوری 2013 میں امریکا کے حوالے کردیا گیا۔ جہاں اب عابد پر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔
گزشتہ دنوں امریکی عدالت میں برطانوی خفیہ ادارے کے ایک رکن کو حلیہ تبدیل کرکے لایا گیا جس نے یہ بتایا کہ عابد کس طرح سے برطانیہ اور امریکا میں حملے کی منصوبہ بندی کررہا تھا اور اسامہ بن لادن کا وہ مبینہ خط بھی عدالت میں پیش کیا گیا جو 2011 میں ایبٹ آباد سے ملا تھا۔
اب یہ الگ بحث ہے کہ خط 2011 میں ملا اور عابد کو گرفتار 2009 میں کیا گیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ کس طرح سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کا پیچھا کرتے ہیں اور کس طرح اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ دوسری جانب ہمارا حال یہ ہے ہمارے پاس ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں ایسے دہشت گرد موجود ہیں جو جیلوں میں بند ہیں اور آئے دن فرار ہوجاتے ہیں۔
کیا ہمارے یہاں عدالتوں میں کیس اسی طرح چل رہے ہیں۔ کیا ہمارے پاس ایسی عدالتیں موجود ہیں جو جلد فیصلے کرسکیں۔ کئی کیس میں تو برسوں سے ایک بھی پیشی نہیں ہوئی ہے۔ خیر آئیے دوسری طرف ہمارے یہاں ایک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چل رہا ہے۔
یہ کیس ہے ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کے متعلق۔ گزشتہ سال کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پاکستان میں اس وقت کے CIA کے اسٹیشن منیجر اور دیگر امریکی عہدیدار کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ جس پر پاکستان کے وزارت خارجہ نے گزشتہ دنوں یہ کہا ہے کہ اگر مقدمہ درج کیا گیا تو اس سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔
دو الگ الگ مقدمے، مگر کہانی ایک جیسی ہے۔ یعنی دو علیحدہ علیحدہ سلسلے مگر دونوں میں پاکستان اور امریکا۔ عابد پاکستان نہیں آنا چاہتا تو کیا ہم نے یہ کوشش کی کہ اسے پاکستان لایا جائے۔ عابد جس شخص سے پاکستان میں بات کررہا تھا اس کے متعلق تفصیلات کہاں گئیں؟ کیا تینوں ملکوں کے درمیان ہر موڑ پر معلومات کا تبادلہ ہوا ہے؟ کہنے اور سمجھنے کے لیے اتنا کہ اس وقت کسی بھی واقعے کو علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی شاخیں پوری دنیا سے کہیں نہ کہیں مل رہی ہیں۔ اور دنیا بھر میں ہونے والے معاملات ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہم جہاں پاکستان کی گلیوں میں لڑرہے ہیں وہیں اس کے تانے کہیں نہ کہیں پوری دنیا سے ملے ہوئے ہیں۔ کسی بھی واقعے کو علیحدہ کرکے نہیں سمجھا جاسکتا۔
کراچی میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل ہو یا پھر پشاور کے چرچ پر حملہ، شکار پور سانحہ ہو یا پھر کابل میں حملہ۔ میری ناقص معلومات کے مطابق اس وقت پورے پاکستان میں یک جان ہو کر کارروائی کی جارہی ہے اور ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق کراچی میں بڑے آپریشن میں کئی بڑے نام ختم کیے جاچکے ہیں بس ایک کی تلاش ہے۔ اور اسی ایک کا رابطہ دنیا کے بہت سے بڑوں بڑوں سے ہے۔