عمومی رویے

یعنی کسی پل چین نہیں، شک کا چشمہ نگاہ کو ایسا لگا ہے کہ اترتا ہی نہیں۔


Shayan Tamseel March 07, 2015

MIRPUR/ISLAMABAD: ''ذرا سوچیں تو میں اس وقت کیا سوچ رہا ہوں؟ اور پھر مجھے ایک ٹیلی پیتھک کال دیں۔ مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے... آپ نے تو فون کمپنیوں کا بھٹہ ہی بٹھا دینا ہے۔''

یہ سطور کالم کے ایک قاری نے بذریعہ ای میل روانہ کی ہیں، گزشتہ کالم جو ٹیلی پیتھی سے متعلق ذاتی تجربات سے متعلق تھا، کا رسپانس عام کالموں سے زیادہ موصول ہوا ہے، نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک سے بھی قارئین نے ای میل اور بذریعہ فون رابطہ کیا، زیادہ تر تحیر میں مبتلا ہیں کہ واقعی ٹیلی پیتھی کا علم حقیقی ہے، مذاق کا نشانہ بھی بنایا گیا، چکوال سے ایک نئے دوست جو ہمارے ماضی سے ناواقف ہیں اور ہمیں محض ایک کالم نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں، نے فون کرکے کہا کہ ''اتنے اچھے لطیفے کہاں سے سوجھ جاتے ہیں''۔

لیکن بیشتر قارئین کو یہ غلط فہمی نہ جانے کیوں ہوگئی کہ ہم ٹیلی پیتھی کا علم واقعتاً جانتے ہیں جب کہ کالم میں یہ جملہ خاص طور پر لکھا گیا تھا کہ کامیاب مشقوں کے باوجود ٹیلی پیتھی کا علم ہم سے کوسوں دور رہا۔ اور یہ حقیقت بھی ہے ٹیلی پیتھی کے علم کا حصول بلاشبہ ناممکن نہیں لیکن اس قدر آسان بھی نہیں ہے۔

ہم نے بھی رئیس امروہوی (مرحوم) کے ادارے ''من عرفہ نفسہ'' کے تحت شایع ہونے والی کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت سے متعلقہ مشقوں کے دوران یہ سب تجربات حاصل کیے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان علوم سے دلچسپی تو اب بھی قائم ہے لیکن حقیقی معنوں میں وہ تگ و دو نہیں کی جو اس علم کے حصول کے لیے ضروری ہے۔

جہاں تک بات استہزا اور مذاق کی ہے یہ بات ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ ان علوم سے متعلق عمومی خیالات کیا ہیں اور ہمارے تجربات کا احوال پڑھ کر عام قارئین کا رسپانس کیا ہوگا۔ اور یقین جانیے اس پیشگی علم کے لیے آپ کا کسی بھی قسم کی پیش بینی یا مستقبل میں جھانک لینے کی صلاحیت کا حامل ہونا ضروری نہیں، ہمارے عمومی رویے ہمیں باآسانی مدمقابل کا ردعمل پہچاننے میں مدد دیتے ہیں۔ ویسے استہزا میں لکھا گیا یہ جملہ کہ آپ موبائل کمپنیوں کا بھٹہ بٹھا دیں گے بہت معنویت رکھتا ہے۔

اگر حقیقی طور پر ٹیلی پیتھی کا علم اس قدر عام ہوگیا تو ترسیلات خیالات کے لیے ایس ایم ایس، ای میل، خطوط سب سے چھٹکارا مل جائے گا، بس گھر بیٹھے دوسرے ذہن پر دستک دی اور اپنی بات پہنچادی۔

بات اگر عمومی رویے کی ہے تو ایسے میں ہماری prediction کام کرجاتی ہے، پاکستان میں کسی بھی نئی حکومت کے بننے سے پہلے عوام کی آرا یہی ہوتی ہے کہ کچھ بدلنے والا نہیں، مہنگائی کا گراف اوپر ہی جائے گا، امیر امیر تر اور غربت میں اضافہ ہوگا، کرپشن کا دروازہ کھلا رہے گا اور قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جائے گا۔ اور نئی بننے والی حکومت اپنا دور ختم کرنے تک ان سب ''پیش گوئیوں'' کو درست ثابت کرجاتی ہے۔

لیجیے جناب! پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام مستقبل بینی کے ماہر ہوگئے۔ آپ کا کوئی عزیز بہت پرجوش عزم کے ساتھ اپنے نئے پلان سے آگاہ کرتا ہے اور اس کے بیان میں وہ شدت ہوتی ہے کہ آپ تو کیا، آس پاس موجود حاضرین کو بھی اس کی کامیابی کا یقین ہوجاتا ہے، لیکن اس کے جانے کے بعد آپ پیش بینی کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ کامیابی تو دور کی بات یہ منصوبہ شروع ہوجائے تو بڑی بات ہوگی اور اگلے ہی روز آپ کی پیش گوئی درست ثابت ہوتی ہے کیونکہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کا عزیز ''خیالی پلاؤ'' بنانے میں حقیقی شیف کو بھی مات دے سکتا ہے۔

پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ہی لے لیجیے، میچ کا نتیجہ حسب منشا ہو تو قوم اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیتی ہے ورنہ ہر خاص و عام کی زبان پر یہی بات ہوتی ہے کہ ہمیں تو پہلے ہی علم تھا، قوم کے بجائے اپنے لیے کھیلیں گے تو یہی ہوگا، اجی جناب پیسہ لے لیا ہوگا۔ یہاں تک کہ حادثاتی طور پر بنا کوشش کے جیت بھی جائیں تو دل جلے کہتے نظر آتے ہیں کہ اس جیت میں بھی ''بکیز'' کا ہاتھ لگتا ہے، ان کی پوری کوشش ہوگی کہ کم از کم کوارٹر فائنل تک تو جائیں تاکہ پاک بھارت میچ میں اچھی ''کمائی'' ہوسکے۔

یعنی کسی پل چین نہیں، شک کا چشمہ نگاہ کو ایسا لگا ہے کہ اترتا ہی نہیں۔ ہر بار عمومی رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ہی فارمولا ہر کسی پر لاگو کردینا صحت مند رویہ نہیں۔ مانا کہ ملک میں جعلی عاملوں، کاملوں، پیر باباؤں فقیروں کی بہتات ہے جو دونوں ہاتھوں سے سادہ لوح عوام کا پیسہ اپنی تجوریوں میں منتقل کررہا ہے لیکن ان جعلی لوگوں کے خلاف تو ہم خود آگاہی مہم چلا رہے ہیں۔

اور پھر یہ بات کالموں میں بار بار کہی جاچکی ہے کہ ہم خود کو طفل مکتب سمجھتے ہیں، اپنے تمام تر کامیاب تجربات کے باوجود ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور دیگر علوم ہماری دسترس سے باہر ہیں لیکن ان مشقوں کے مثبت اثرات خراب اور ناموافق حالات میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں، جو کہ آج کے پرفتن دور میں نہایت اہم بات ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ لوگ بھی ان علوم سے ہٹ کر کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کے حوالے سے ان مشقوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، یہ مشقیں نہ صرف ذہنی و جسمانی طور پر آپ کو چاق و چوبند بنائیں گی بلکہ جذباتی کشمکش، نفسیاتی مسائل اور شخصیت کی کجی دور کرنے میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔

ان تمام لوگوں کی محبت کا شکریہ جو ہماری رہنمائی میں یہ مشقیں کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اپنی ذاتی مصروفیات کی بنا پر فی الحال دستیاب نہیں ہیں۔ ہمارے روحانی استاد محترم رئیس امروہوی مرحوم کی کتابیں ہمارے لیے رہنما ثابت ہوئی ہیں۔ رئیس امروہوی کی ان تمام کتب کو ان کی صاحبزادی شاہینہ رئیس امروہوی نے دوبارہ شایع کروا کر علم کے پیاسوں پر ایک احسان کیا ہے۔

ویلکم بک پورٹ کے تحت شایع ہونے والی ''نفسیات ومابعد الفنسیات، عجائب نفس، مظاہر نفس، لے سانس بھی آہستہ، توجہات، مراقبہ، جنات، ہپناٹزم، عالم برزخ، حاضرات ارواح، عالم ارواح'' کی کتابیں جو رئیس امروہوی کے قلم کا شاہکار ہیں۔ علم کے طالب حضرات کو یہ کتب لازمی پڑھنی چاہئیں۔ ان کتابوں کی دوبارہ اشاعت کے لیے شاہینہ صاحبہ لائق ستائش ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں