میڈیا کی مشکلیں
الیکٹرانک میڈیا کے فروغ سے پہلے اخبارات اور اخباری خبروں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔
آج کل روزانہ صبح اخبارات پڑھتے اور رات کو ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے میرا دھیان بار بار میڈیا کو درپیش ان مشکلات کی طرف جاتا ہے۔
جن کی وجہ سے اسے بہت سارے ایسے کام کرنے پڑ رہے ہیں جنھیں زیادہ نہیں صرف چند برس قبل تک ناجائز، نامناسب اور ناروا سمجھا جاتا تھا اور ان ''جرائم'' کے مرتکب عام طور پر شرمندہ اور کھسیانے سے ہوئے پھرتے تھے اور ان پر تنقید بھی بالعموم مزاح کے انداز میں ہوتی تھی کہ فول Foul کو Fair Play کہنے اور سمجھنے کا رواج ابھی عام نہیں ہوا تھا ۔آج کل (مبینہ طور پر) پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں طرف کے میڈیا میں بعض اینکرز اور شو کرنے والے ''چالو سکوں'' کو ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں میں تنخواہیں دی جاتی ہیں لیکن جہاں تک عام ورکرز اور بالخصوص ضلعی نامہ نگاروں اور نمایندوں کا تعلق ہے (ایک بار پھر مبینہ طور پر) شنید ہے کہ ان کو بہت کم تنخواہوں پر رکھا جاتا ہے، اب ظاہر ہے کہ اس شرط پر کام کرنے والوں کی اہلیت، صلاحیت، کمٹ منٹ اور ایمانداری بھی بہ استثنائے چند واجبی سے بھی کچھ کم ہی ہوتی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے فروغ سے پہلے اخبارات اور اخباری خبروں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ اخبارات کے نیوز ایڈیٹر بہت لائق، محنتی اور تجربہ کار صحافی ہوا کرتے تھے اور ان میں سے ہر ایک خبر بنانے، سرخی جمانے اور اچھی اور صحیح زبان لکھنے میں مہارت رکھتا تھا۔ محض Rating یعنی Sale بڑھانے اور سنسنی خیزی کے لیے جھوٹی اور من گھڑت خبریں اچھے اور معیاری تو ایک طرف عام طور پر دوسرے درجے کے اخبارات بھی شایع نہیں کرتے تھے۔ البتہ سہواً کوئی ایسی فروگزاشت ہو جائے تو اس کا معاملہ الگ ہے اور ایسا بالعموم انھی ناتجربہ کار اور نا اہل نامہ نگاروں کی بھجوائی ہوئی خبروں یا ہنگامی طور پر کسی خالی جگہ کو پر کرنے کے چکر میں ہوتا تھا۔ صحافتی اخلاقیات کے مطابق عام طور پر خبروں میں ''مبینہ طور پر'' یا ''واضح رہے'' کے الفاظ بہت تکرار کے ساتھ استعمال ہوا کرتے تھے، ایسی ہی ایک خبر کچھ اس طرح تھی
''فلاں علاقے میں کچھ عرصے سے چوریوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے جس سے علاقے کے لوگوں میں سخت بے چینی اور خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ ''واضح رہے'' کہ ابھی اس علاقے میں مزید چوریاں ہوں گی''
''چوہدری ا ب ج صاحب کے والد طویل علالت کے بعد گزشتہ روز اچانک انتقال کر گئے۔ یہ خبر پورے شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ مرحوم کی رسم قل کے بعد ان کی رہائش گاہ پر ایک تعزیتی اجلاس منعقد ہوا جس میں مرحوم کی خدمات کو سراہنے کے ساتھ ساتھ ان کی وفات پر سخت ''غم و غصے'' کا اظہار بھی کیا گیا''
اسی طرح انگریزی سے اردو ترجمے کے دوران بھی ذرا سی غلطی سے بات کچھ کی کچھ ہو جاتی تھی۔ ایک خبر کچھ اس طرح تھی۔Forty Slippers are Stolen from the Railway Dockyard فاضل مترجم نے ریلوے لائن کے درمیان بچھائے جانے والے لکڑی کے Slippers یعنی تختوں کو Sleepers سمجھ لیا اور ترجمہ کچھ اس طرح کیا کہ
''ریلوے ڈاک یارڈ سے چالیس سوئے ہوئے آدمی چرا لیے گئے'' جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں عربی میں ''رجال'' کا لفظ مردوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اسی مناسبت سے لائق اور ہنر مند لوگوں کی کمی کو ''قحط الرجال'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کسی صاحب نے ایک خبر کی سرخی کچھ اس طرح نکالی
''شہر میں چینی کا قحط الرجال''
یہ باتیں بلا شبہ پرانے وقتوں کی ہیں لیکن آج بھی پرنٹ میڈیا میں اسی نوع کے نمونے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ ٹی وی نیوز چینلز پر بریکنگ نیوز کی بھر مار سے قطع نظر ہر گھنٹے کے بعد نیوز بلیٹن دکھائے اور سنائے جاتے ہیں۔ سو اگلے دن کے اخبارات میں شایع ہونے والی تمام اہم خبریں آپ کئی کئی بار سن اور دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں لوگوں کو چونکانے اور متوجہ کرنے کے لیے بعض اوقات افواہوں کو خبر کی صورت دیکر اور اس طرح کا مرچ مسالہ اور ایسی سرخیاں جما کر پیش کیا جاتا ہے کہ قارئین اسے پڑھنے پر مجبور ہو جائیں، اس عمل کے دوران سچائی، حقیقت، خبریت، ذمے داری، صحافتی اقدار اور اخلاقیات کا عمومی طور پرخیال نہیں رکھا جاتا ۔تسلیم کہ اخبار نویس کو اس کی دی ہوئی خبر یا اسٹوری کا ذریعہ Source بتانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن کم از کم اخبار کے ایڈیٹر کو تو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ خبر دینے والے سے یہ دریافت کرے کہ اس کا سورس کیا ہے۔
پرنٹ میڈیا کے لیے ''خبر'' کے حصول میں تو اس طرح کی مشکلات بلا شبہ الیکٹرانک میڈیا کی وسیع Range اور برق رفتاری کی پیدا کردہ ہیں مگر خود الیکٹرانک میڈیا کی مشکلات بھی کچھ کم نہیں کہ ہر چینل دوسروں سے آگے نکلنے اور مختلف نظر آنے کے لیے نہ صرف عدالت اور قانون کی کارروائی سے پہلے ''میڈیا ٹرائل'' کر کے ملزم کو مجرم قرار دے دیتا ہے بلکہ غیر مصدقہ اور بعض اوقات غلط Breaking News کے پیچھے بھی پارٹی بن کر کھڑا ہو جاتا ہے اور یوں ایک ایسی مشکل میں پڑ جاتا ہے۔ جس سے نکلنے کی کوشش میں وہ مزید مشکلات میں الجھتا چلا جاتا ہے۔ اس چکر میں بعض اوقات کوئی معمولی سی غلطی ایک گناہ عظیم کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور پھر میڈیا کی اس مشکل کا سلسلہ دراز ہوتے ہوتے کئی بے گناہ اور بے قصور لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر ایک ایسی دلدل میں پھنسا دیتا ہے جس سے نکلنے میں عمریں لگ جاتی ہیں۔
سو اب ضروری ہو گیا ہے کہ میڈیا سے وابستہ تمام لوگ ٹھنڈے دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس مسئلے کو کاروبار کے ساتھ ساتھ انصاف اور اخلاق کی نظر سے بھی دیکھنے کا رویہ اپنائیں اور ادھوری جانبدارانہ اور غیر مصدقہ معلومات کی بنا پر ''واقعات'' کا ایسا میڈیا ٹرائل نہ کریں جس سے کسی کے انسانی اور شہری حقوق پامال ہوں اور انصاف کرنے والے ادارے بھی اپنا کام ٹھیک اور آزادانہ طریقے سے نہ کر سکیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ خود ساختہ یا معمولی مفادات کی پیدا کردہ مشکلات بعض اوقات مقدر کی مشکلات سے بھی زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہو جاتی ہیں۔