ڈالرکے غلام ملکوں کے عوام پہلاحصہ
صنعتی کلچر اور زراعت تباہ ہونے کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی گئی۔
پہلی عالمی جنگ سے قبل یورپی ممالک 1879سے 1907 تک دفاعی معاہدوں میں دوگروپوں کی شکل میں تقسیم ہوگئے تھے۔(1)۔محوری ممالک میں جرمنی، آسٹریا ہنگری، اٹلی اور ترکی تھے۔ (2)۔اتحادی ممالک میں برطانیہ، فرانس، روس اور جاپان شامل تھے۔ یہ تمام ممالک سامراج تھے۔ ان کی غلامی میں نوآبادیاں تھیں۔
صنعتی کلچر جوں جوں بڑھتا پھیلتا گیا، توں توں ان بڑے ملکوں کو منڈیوں کو وسیع کرنے،خام مال کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی ضرورت بڑھتی گئی۔ پہلی عالمی جنگ درحقیقت سامراجی ملکوں کی باہمی جنگ ایک دوسرے کی نو آبادیاں چھیننے کی جنگ تھی۔ 28 جون 1914 کو آسٹریا نے سربیا کے خلاف اعلان جنگ کیا تو یکے بعد دیگرے دونوں گروپوں کے ممالک جنگ میں شریک ہوتے گئے۔
نہایت غور طلب بات ہے کہ امریکا 1879 سے ہونے والے باہمی جنگی معاہدوں سے دور رہا اور جنگ شروع ہونے کے بعد بھی 2 سال 10 ماہ سے زیادہ یعنی 15 اپریل 1917 تک جنگ سے دور رہا۔ تمام یورپی ممالک کی نظر میں امریکا 5 اپریل 1917 تک ایک غیر جانب دار ملک تھا۔ امریکی اس پالیسی کے نتیجے میں یورپی ملکوں نے Safe Haven Gold Country امریکا کو سمجھ کر اپنا اپنا سونا امریکی بینکوں میں ڈپازٹ کرنا شروع کردیا تھا۔ جنگ شروع ہونے کے بعد یورپی ملکوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ (1)۔ان ملکوں میں کرنسی ایکسچینج بحران۔(2)۔ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی بندشیں۔(3)۔سونے کے معیار سے ہٹ جانا۔(4)۔دفاعی اخراجات میں اضافوں سے ہر ملک میں پیداواری اخراجات کم ہوتے گئے۔
صنعتی کلچر اور زراعت تباہ ہونے کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی گئی۔ اس کے نتیجے میں ہر ملک کی کرنسی کی قیمت مقامی اشیاء کے مقابلے میں گرتی چلی گئی۔ امریکا نے اپنے نیوٹرل ہونے کا بھرپور اور بڑی تیزی سے یورپی ملکوں میں پیدا ہونے والی ''ہر قلت'' کا فائدہ اٹھایا۔ برطانیہ براہ راست جنگ میں ملوث ہوچکا تھا۔ اس کی کرنسی عالمی کرنسی کے درجے سے گرچکی تھی۔ امریکا نے اس خلا کو امریکی کاغذی ڈالر سے پرکرنا شروع کتاب European Currency and Finance Foreign Currency and Exchange Investigation. Serial 9. Volume II. 1925 Page 7. by John Parke Young Ph.d Washington. USA پر امریکی تجارتی اشیاء کے اعدادوشماردرج ہیں۔
امریکا نے 1912 میں 581.145ملین ڈالر کی سرپلس ایکسپورٹ کی تھی اور 1912 سے مارچ 1925 تک امریکا نے سرپلس تجارت کے ذریعے 24166.914 ملین ڈالرکا گولڈ حاصل کرلیا تھا۔اس کے پیچھے امریکی غیر جانبداری کی خارجہ پالیسی،دوسرا ملکی صنعتی کلچر اور زراعت کی بھرپور زیادہ سے زیادہ پیداوار کی پلاننگ تھی۔ تیسری وجہ امریکا اپنے 1837کے مقررکردہ گولڈ معیار 20.67 ڈالر فی اونس سونا کے معیار پر اب تک کھڑا تھا۔ امریکا جنگ زدہ یورپی ملکوں سے اشیاؤں کے بدلے سونا لے رہا تھا۔
امریکا نے اپنی کرنسی کو گولڈ کی بنیاد پرمضبوطی سے کھڑا رکھا تھا۔ کتاب The Course and Phases of the Economic Depression by League of Nation. Switzerland. Geneva 1931کے صفحے 319 پر درج ہے۔ امریکا نے 1920 سے 1930 تک 9704.0ملین ڈالرکی کاغذی کرنسی ایشیا، یورپ،کینیڈا، لاطینی امریکا ودیگر ملکوں کو ایکسپورٹ کی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی امریکی ڈالر ان ملکوں کی منڈیوں میں ''امریکی خارجہ مالیاتی پالیسیوں'' کے نتیجے میں جگہ بنا چکا تھا۔ امریکا جب 6 اپریل 1917 کو اتحادیوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوگیا تو یورپی ملکوں نے امریکی بینکوں میں اپنا ڈپازٹ کیا ہوا سونا نکالنا شروع کردیا۔
کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' حصہ دوم کے صفحے 5 پر امریکی سونے کے تجارتی اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔امریکی سونے کی تجارت 1912 میں 19.12393 ملین ڈالر سے سرپلس تھی۔ 1913میں 91.79861 ملین ڈالر اور 1914 میں 222.616156 ملین ڈالر کا سونا یورپی ملکوں نے جنگی مقاصد کے لیے نکال لیا تھا۔اس کے بعد امریکا میں جب جنگ عروج پکڑ رہی تھی۔ سونے کے بدلے اشیاء کی فروخت تیز کردی تھی اور جب امریکا نے 6 اپریل 1917 کو جرمنی کے خلاف جنگ شروع کردی۔ اس کے بعد امریکا پر سونے کی ادائیگی کے لیے یورپی ملکوں کا دباؤ بڑھتا گیا۔ اس سے قبل امریکا نے 1916 میں صرف گولڈ تجارت پر 530.097307 ملین ڈالر کا سرپلس سونا حاصل کیا تھا۔
دباؤ بڑھنے کے بعد یہ گھٹ کر 165.97049ملین ڈالر اور مزید گھٹ کر 20.97293ملین تک آن پہنچا تھا۔ یاد رہے کہ امریکا نے جنگ میں شریک ہونے کے بعد غیر ملکی سونے ڈپازٹ نکالنے پر 7 ستمبر 1917 کو پابندی لگا دی تھی۔ اس کے بعد پابندی کے تحت آنے والے ملکوں نے سونے کے بدلے امریکی اشیا خریدنی شروع کردی تھیں۔ کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' کے حصہ دوم کے صفحے 7 پر دیے گئے ٹیبل پر امریکی اشیا کی تجارت 1917 کے بعد پچھلے سالوں سے زیادہ سرپلس ہوتی گئی ہے۔
امریکی غیر ملکی سونے نکالنے پر پابندی یا روک لگانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امریکا اپنے ملکی مفاد کے لیے غلط اقدامات بھی اٹھا سکتا ہے اور امریکی جبر کا پہلو نمایاں ہوجاتا ہے۔ دوسرا امریکا ایک دھوکے باز کے طور پر کھل کر سامنے اس وقت آگیا جب امریکا نے یورپی ملکوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' حصہ دوم کے صفحے 92 پر لکھا ہے The allied Countries protected there exchange in the united states, before the united states entered the war they sent gold to New York and obtained dollar loans through American banking houses.امریکا نے اتحادیوں کو بھی نہ بخشا، بلکہ سب سے پہلے ان کو نشانہ بنایا۔
یورپی ملکوں میں''کرنسی ایکسچینج بحران'' جنگ کے شروع ہوتے ہی پیدا ہوگیا تھا۔ اسی کتاب کے صفحے 95 پر لکھا ہے کہ ڈنمارک نے جولائی 1923 کو 35 لاکھ ڈالر کا سونا امریکا بھیجا تاکہ امریکا اس کے بدلے ڈنمارک کی کرنسی Krone(کرونی) کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں گرانے سے روک دے۔ اسی کتاب کے صفحے 287پر لکھا ہے The Swiss Government in August, 1923 placed a loan in New York 20.0 Million dollar in an effort to support the Swiss France. متذکرہ کتاب کے صفحے 95 پر درج ہے کہ امریکی حکومت نے باقاعدہ کرنسیوں کی قیمتوں میں جوڑ توڑ کرنے کے لیے 15 دسمبر 1923 کو Exchange Equalization Fund کا ادارہ قائم کرلیا تھا۔
یہ درحقیقت موجودہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پرائمری ابتدائی تشکل تھی۔ دوسری کتاب "A Revision of the Treaty" being a sequel to the Economic consequence of the peace by John Maynard Keynes 1922 کے صفحے 219 پر درج ہے۔ امریکا نے 19 یورپی ملکوں کو 11084.767575ملین ڈالر کا ''لبرٹی لون ایکٹ'' کے تحت قرضہ دیا۔ اسی قرضے میں سے امریکا نے ان ملکوں کو 9435.225329ملین ڈالر کاغذی ڈالر کی کرنسی کی شکل میں دیے تھے۔ ایک اور کتاب "International Economy" by John Parke Young 1963 کے صفحے 543-44 پر درج ہے کہ امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اور بعد میں جن ملکوں کو قرضے دیے تھے۔ ان قرضوں پر امریکا نے جون 1931 کو 12 ارب 80 کروڑ ڈالر سود و اصل زر کی مد میں وصول کیے تھے۔
پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں امریکا یورپی ملکوں کی منڈیوں میں امریکی کاغذی ڈالر کو تیزی سے داخل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ کتاب "International Currency Experience" by league of Nations 1944 کے صفحے 235 پر درج ہے کہ 1924 میں 24 ملکوں کے پاس فارن ایکسچینج ریزرو کاغذی ڈالر کرنسی کی شکل میں 845.0ملین ڈالر تھے اور 1928 میں یہ بڑھ کر 2520.0 ملین ڈالر ہوگئے تھے۔ کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' 1925 حصہ اول کے صفحے 21 پر درج ہے کہ جنگ کے دوران اور جنگ کے خاتمے کے بعد بھی امریکا یورپی ملکوں کو قرضے دے رہا تھا ۔
1924 میں امریکا نے یورپی ملکوں کو ایک ارب ڈالر کا قرضہ دیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے جنگ شروع ہونے سے 1924 تک یعنی 10 سال کے دوران امریکی کاغذی ڈالر پورے یورپ میں گردش کر رہا تھا۔ 1930 کا عالمی معاشی بحران اسی کاغذی ڈالر کے پھیلاؤ کا نتیجہ تھا۔ تمام ممالک بتدریج گولڈ معیار پر واپس آتے گئے۔ اس کے ساتھ ان ملکوں کی مردہ کرنسیوں میں جان آتی گئی لیکن اس کے ساتھ ہی یورپی ملکوں کی معیشت Currency Devaluation Minus Economic Development کے نتیجے میں کاغذی ڈالر کے غیر پیداواری اخراجات کے بوجھ کی منفی ہوتی گئی پھر اس کے نتیجے میں یورپی ملکوں سے اپنے ملکوں میں پھیلے ہوئے کاغذی ڈالر امریکا کو سونے کے عوض واپس کرنے شروع کردیے۔
ایک چیز نہایت ہی قابل غور ہے کہ جب یورپی ملکوں نے امریکا کو سونے کے مقررہ معیار 20.67ڈالر فی اونس پر ڈالروں کے عوض سونا مانگنا شروع کیا تو امریکا کو امریکی ''مالیاتی گولڈ فراڈ پلان'' "Monetary Gold Fraud Plan" کے کھل جانے اور امریکا کے بری طرح ڈیفالٹ ہونے کا شدید خطرہ سر پر منڈلاتا نظر آیا تو امریکی حکومت نے فوراً ایک پلان ترتیب دے کر اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ''فراڈیا ڈیفالٹر'' کہلانے سے بچا لیا۔
(جاری ہے۔)