وقت کا بڑا انسان
مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ جسٹس صاحب میرے کالم پڑھتے تھے اور بذریعہ فون اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کرتے تھے۔
یہ ذکر ہے ایک بہت بڑے انسان کا۔ اور یہ ذکر مدتوں ختم نہیں ہوگا۔ جسٹس رانا بھگوان داس صاحب کی جرأت، بے باکی، بہادری اور اصولوں پر ڈٹ جانے کی روایات انھیں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ لوئر کورٹس سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تک ان کا دامن بے داغ رہا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔
جنرل پرویز مشرف حکمران تھے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھونچال کی کیفیت تھی۔ بڑے بڑوں کی سٹی گم تھی۔ جسٹس صاحب مقدس مقامات کی یاترا کے لیے ہندوستان گئے ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ نے انھیں فوری واپس آنے کی چٹھی لکھی۔ حکومت چاہتی تھی کہ وہ اپنی چھٹی بڑھا لیں۔
حکومت کا بڑا دباؤ تھا، مگر جسٹس صاحب نے حکومتی دباؤ کو ٹھوکر مارتے ہوئے واپسی کا فیصلہ کیا اور قائم مقام چیف جسٹس سپریم کورٹ کا عہدہ سنبھال لیا۔ حکومتی دباؤ پھر بھی جاری رہا۔ دھمکیاں ملتی رہیں، مگر رانا بھگوان داس کسی کو خاطر میں نہ لائے اور حکومت کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کردیا۔
اس تاریخ ساز فیصلے کے فوری بعد 2008ء میں جسٹس صاحب اپنی مدت ملازمت ختم کرکے ریٹائر ہوئے اور کراچی اپنے گھر آگئے۔ مارچ کا مہینہ تھا حبیب جالب کا مہینہ کہ اس مہینے کی 24 تاریخ کو وہ پیدا ہوئے اور پھر 13 مارچ ان کا انتقال ہوا۔ میں نے جسٹس صاحب کے گھر فون کیا، دو تین گھنٹوں کے بعد انھوں نے فون اٹھایا۔
میں نے اپنا تعارف کروایا اور ملاقات کی درخواست کرتے ہوئے مدعا بیان کیا کہ حبیب جالب یادگاری جلسے کی صدارت فرمائیں اور اپنے ہاتھوں سے حبیب جالب امن ایوارڈ بیرسٹر اعتزاز احسن کو عطا کریں۔ جسٹس صاحب نے دو روز کا وقت مانگا اور واقعہ یہ ہے کہ دو روز بعد میرے فون کا انتظار کیے بغیر خود ہی فون کرکے اپنی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے ملاقات کے لیے بلوالیا۔
30 اپریل 2008 کا دن تھا۔ کراچی پریس کلب کا بیک یارڈ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ روسٹرم پر تمام چینلز کے مائیک پڑے ہوئے تھے اور جسٹس رانا بھگوان داس نے جالب امن ایوارڈ اعتزاز احسن صاحب کو دیا۔ یہاں سے جسٹس صاحب سے میری نیازمندی کی شروعات ہوئیں اور یہ افتخار، یہ اعزاز ان کے آخری ایام تک کچھ حاصل رہا۔
جسٹس صاحب نے 2012 کا حبیب جالب امن ایوارڈ بھی اپنے ہاتھوں سے جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کو عطا کیا تھا۔ اتنے بڑے انسان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ وہ عام سامع کی حیثیت سے بھی حبیب جالب صاحب کے سالانہ یادگاری جلسوں میں شریک ہوجاتے تھے اور خاموشی سے پچھلی صفوں میں بیٹھ جاتے تھے، مگر لوگ انھیں اپنے درمیان دیکھ کر احتراماً کھڑے ہوجاتے تھے۔ پھر بھرپور تالیوں کی گونج میں جسٹس صاحب اسٹیج پر تشریف لاتے۔ اور جب تک وہ کرسی پر بیٹھ نہ جاتے لوگ کھڑے رہتے۔ عوام ان سے پیار کرتے تھے۔ ان کا احترام کرتے تھے۔ میں نے ایسا نصیب بہت کم لوگوں کا دیکھا ہے۔
مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ جسٹس صاحب میرے کالم پڑھتے تھے اور بذریعہ فون اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کرتے تھے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا، اور کچھ نہیں۔ میں خوش نصیب ہوں کہ جسٹس صاحب کا قرب مجھے حاصل رہا۔ میں تو ان کے مقام و مرتبے کی وجہ سے فون نہیں کرتا تھا، مگر وہ عظیم انسان مجھے مہینے دو مہینے میں ضرور فون کرلیتے تھے۔ ان کی محبتوں نے مجھے حوصلہ دیا اور میں نے ان سے درخواست کر ڈالی کہ غریب خانے پر تشریف لائیں۔
یہ واقعہ پچھلے سال 2014 کا ہے۔ انھوں نے میری یہ درخواست بھی قبول کرلی اور آنے کا وعدہ کرلیا، مگر عین اس دن حیدر آباد میں کسی کا انتقال ہوگیا اور وہ نہ آسکے، مگر معذرت کا فون ضرور آیا۔ ساتھ ہی اگلی اتوار کو آنے کا بھی کہہ دیا اور پھر وعدے کے مطابق وہ غریب خانے پر تشریف لے آئے۔ میں ڈرائنگ روم میں بیٹھا فون پر بات کر رہا تھا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا۔ میرا بیٹا نعمان جسٹس صاحب کو لیے اندر داخل ہو رہا تھا۔ میں اتنے بڑے واقعے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھا اور وقت کا اتنا بڑا انسان میرے سامنے میرے گھر میں داخل ہو رہا تھا۔ میں بڑھ کر ان سے بغل گیر ہوا۔
وہ صوفے پر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ جسٹس صاحب کی آمد کی خبر پورے گھر میں پھیل چکی تھی،اوپری منزل سے میرا منجھلا بیٹا ڈاکٹر ذیشان اور بہو ثنا بھی نیچے آگئے تھے۔ قریب ہی رہائش پذیر بڑا بیٹا فرمان بھی آگیا۔ بچوں نے جسٹس صاحب کے ساتھ تصویریں بنوائیں اب وہ تصویریں یادگار بن چکی ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا یہ آج سے ایک سال پہلے ہی کی بات ہے یعنی 19 جنوری 2014 کے دن جسٹس صاحب غریب خانے پر تشریف لائے۔ وہ پرہیز کا بہت خیال کرتے تھے۔ اس روز بیکری کی کھانے پینے کی چیزوں کو انھوں نے محض دیکھا۔ باقی سب کچھ ان کے ساتھ آنے والی پولیس موبائلز کے اہل کاروں نے چائے کے ساتھ لیا۔
ابھی انتقال سے بیس پچیس روز پہلے میں نے فون پر جسٹس صاحب سے بات کی اور یاد دلایا کہ چھوٹے بیٹے نعمان کی شادی میں آپ نے ضرور آنا ہے، بچوں کے ساتھ آپ کی یادگار تصویر ہوگی۔ وہ بولے ''ابھی تو میں اسپتال جا رہا ہوں'' میرے علم میں یہ تو تھا کہ وہ کچھ علیل سے ہیں خیر میں نے پوچھا ''آپ کون سے اسپتال میں جا رہے ہیں؟'' اس پر انھوں نے کہا ''آپ کو اسپتال آنے کی اجازت نہیں ہے۔'' دراصل یہ حکم سب دوستوں کے لیے تھا کیونکہ وہ کسی کو بھی تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی بیماری کی خبر تک اخبار میں نہیں آنے دی اور خاموشی سے دنیا چھوڑ گئے۔
23 فروری 2015 کی صبح 10 بجے میں ان کے گھر پہنچا، سفید چادریں فرش پر بچھی تھیں، جسٹس صاحب کے بھائی اشوک کمار اور بیٹے کیلاش سے ملاقات ہوئی۔ تعزیت کی اور کچھ دیر بیٹھ کر چلا آیا۔ شام 4 بجے آخری رسومات ہونا تھیں، میں ساڑھے تین بجے پھر جسٹس صاحب کے گھر پہنچا۔ وکلا، جج صاحبان، سیاسی رہنما جمع تھے۔ ساڑھے چار بجے ان کا جسد خاکی گھر سے باہر لایا گیا سب نے آخری دیدار کیا اور پھر مذہبی رسومات شروع ہوگئیں۔
''روم ہری اوم'' کا ورد کیا جا رہا تھا، پھر ان کی ارتھی کو اٹھا کر ایمبولینس میں رکھا گیا، کاروں کے علاوہ بسیں بھی موجود تھیں جن میں بیٹھ کر سب لوگ پرانا گولی مار کے شمشان گھاٹ کی طرف روانہ ہوئے اور شام ڈھلے، نصیر آباد (سندھ) دسمبر 1942 میں پیدا ہونے والے اسلامیات میں ماسٹر ڈگری ہولڈر رانا بھگوان داس کے جسد خاکی کو نذرآتش کردیا گیا۔ اور تمام عمر انصاف کے پرچم کو بلند رکھنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ شاعر توقیر چغتائی نے قطعہ لکھا ہے، جو اس نے فون کرکے مجھے سنایا ملاحظہ ہو:
امید مرگئی ہے' امکان مرگیا ہے
اقرار مر گیا ہے پیمان مرگیا ہے
انصاف رہ گیا ہے' گلیوں میں بے سہارا
خاموش ہے عدالت' بھگوان مرگیا ہے