دُکھ بیتی گھر کا دروازہ کھلے تو سامنے شوہر‘ بیٹے اور بیٹی کی قبریں ہیں
گھر کے دروازے سے چند فٹ کے فاصلے پر اس بدقسمت خاندان کے سربراہ، اس کے بڑے بیٹے اور ایک بیٹی کی قبریں تھیں۔
ماسٹر عبداللہ۔ فوٹو: شہباز ملک
یہ سبزہ زار کے علاقے میں واقع شاہ فرید کے قبرستان کے دامن میں ایک کچی بستی تھی جس میں واقع ایک ٹوٹے پھوٹے اور خستہ گھر بلکہ کوٹھڑی کے باہر ہم کھڑے تھے۔
اس کوٹھڑی نما گھر کی ایک ایک اینٹ سے عسرت و مفلسی عیاں تھی۔گھر مناسب قطعے کے بجائے لمبائی کے رخ پریوں تھا جیسے کوئی گلی ہو۔داخلی دروازے کے ساتھ ہی بے دروازہ ٹوائلٹ تھا، درون گھر بھی مفلسی کے ڈیرے تھے۔سیلن زدہ کمرے میں جھلنگا چارپائیاں، بستر، کپڑے اور بھانڈے برتن ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔
ٹوٹے پھوٹے فرش اور اکھڑے ہوئے پلستر سے جھانکتی ہوئی سرخ اینٹیں بدحالی کو نمایاں کرتی تھیں جبکہ سیلن زدہ کمرے کی خستہ دیواروں سے جھڑتی سفیدی طبعیت کو بوجھل کرتی تھی۔گھر میں بیٹھنے کے لیے کرسی تک موجود نہ تھی۔قبرستان چونکہ گھر کے ساتھ ہی تھا اس لیے گھر کے دروازے سے چند فٹ کے فاصلے پر اس بدقسمت خاندان کے سربراہ، اس کے بڑے بیٹے اور ایک بیٹی کی قبریں تھیں۔ گھر قبرستان کے اس قدر قریب تھا جیسے شہر خموشاں کا ہی حصہ ہو۔
جس گھر اور بیرون گھر کا منظر آپ نے اوپر پڑھا ، وہ کسی عام آدمی کا نہیں بلکہ اپنے وقت کے عظیم موسیقار اور کلاکار ماسٹر عبداللہ مرحوم کا گھر ہے۔وہی ماسٹر عبداللہ جنہوں نے ''ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں''، ''وے بابل تیری میری چھو'' ، ''چل چلیے دنیا دی اس نکرے'' اور ''میری ٹور کبوتر ورگی'' سمیت لاتعداد لازوال گانوں کی دھنیں ترتیب دیں۔یہ وہ فلمی گیت تھے جنہوں نے نہ صرف ہمسایہ ملک بلکہ سمندر پار تک دلوں پر راج کیا۔
ماسٹر صاحب کی دھنوں پر نورجہاں ، آئرن پروین ، مہدی حسن ، عنایت حسین بھٹی اور مسعود رانا سمیت بہت سے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ماسٹر عبداللہ کو دنیا چھوڑے اٹھارہ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔اس عرصے کے دوران ان کے پسماندگان پر مفلسی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔اب اس گھر میں مرحوم کی بیوہ ثریا بی بی اور ان کے تین بیٹے قیام پذیر ہیں۔ان میں ایک بیمار بیٹے امتیاز عبداللہ کے علاوہ مادھو عبداللہ شامل ہیں۔
امتیاز اور مادھو اپنے خاندان کی روایات کے مطابق اب بھی موسیقی سے جڑے ہوئے ہیں۔اسرار عرف مادھو عبداللہ جو کہ گلوکاروں کی دنیا میں داخل ہونے کے لیے ہاتھ پیر مارہا ہے، وہ بڑے بھائی امتیاز عبداللہ سے موسیقی سیکھتا رہا ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ فی الحال خوشحالی اس گھرانے سے دور ہے۔
جو قومیں اپنے ہیروز کو بھلادیتی ہیں، زمانہ بھی ایسی قوموں کو بھلادیتا ہے۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اپنے وقت کا عظیم موسیقار جس نے بے شمار فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور لاتعداد ہٹ گانے دے کر دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا، آج اس کی بیوہ اور دیگر بچے اس قدرکسمپرسی کا شکار ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ یہ خاندان بدترین نامساعد حالات سے دوچار ہے لیکن عام لوگ بے خبر ہیں کہ نہ صرف ان کے ملک بلکہ ہمسایہ ملک سمیت پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کرنے والے اس فنکار کی بیوہ اور اولاد کس حالت میں ہے۔
ماسٹر عبداللہ مرحوم کے گھر پہنچے تو خانہ اور اہل خانہ کی حالت دیکھ کر دل بھرآیا۔ماسٹرعبداللہ اور اس کے بیٹے بیٹیوں کی آخری آرامگاہوں پر فاتحہ خوانی کے بعد مرحوم کے دروازے کی طرف بڑھے۔مرحوم فن کار کی بیوہ ثریا بی بی خود دار اور باعزت خاتون ہیں۔بزرگ خاتون نے پہلے تو اپنے گھرانے کی غربت اور بدحالی کے بارے میں بات کرنے سے انکار کردیا اور صاف صاف کہا کہ وہ ایسا کرکے اپنا پیٹ ننگا نہیں کرنا چاہتے۔زندگی گذر رہی ہے اور جو تھوڑی بہت ہے، وہ بھی گزر جائے گی۔
خاتون سے کہا گیا کہ ماسٹر عبداللہ ملک کا عظیم اثاثہ تھے۔ وہ فنکار تھے جنہوں نے دنیا بھر میں قوم کا نام روشن کیا ،مہذب معاشروں میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والی شخصیات کے گھروں اور اشیاء تک کو محفوظ کرلیا جاتا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ان سے آگاہی حاصل ہو لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔عظیم موسیقار ماسٹر عبداللہ مرحوم کا گھر اس کی واضح مثال ہے۔ ہمارے اصرار کرنے پر وہ بات کرنے پر آمادہ ہوئیں لیکن اپنی تصویر بنوانے سے انکار کر دیا۔
''اٹھارہ سال ہوئے دْلا کو فوت ہوئے، اب کیا بتائوں!'' خاتون کا پہلا ردعمل تھا۔
نام نہاد کمرے میں داخل ہوئے تو بیٹھنے کے لیے سوائے ایک ٹوٹی چارپائی کے کچھ نہ تھا۔پہلے چارپائی پر بیٹھ کر بات کرنے کی کوشش کی لیکن پھر خاتون نے کہیں سے ایک پیڑھی نکالی اور چارپائی کے سامنے دھرتے ہوئے اس پر بیٹھ گئیں جبکہ بیٹا ساتھ زمین پر بیٹھ گیا۔ہم اس پر خاصے شرمندہ ہوئے لیکن بہرحال۔۔۔۔ ثریا بی بی نے بتایا کہ انھیں یہ یاد نہیں کہ ان کی دْلے (وہ یقیناً ماسٹر عبداللہ کو پیار سے دْلا پکارتی ہوں گی) سے کس سن میں شادی ہوئی تاہم شادی کے وقت دْلے کی عمر 35 سال اور ان کی عمر 17 سال تھی۔
انھوںنے بتایا کہ ان کے اپنے والد فیروزدین آڑھتی تھے جبکہ دادا چھوٹو خان اور چچا پھجو خان موسیقار اور سارنگی نواز تھے۔روایتی سنگیت کے گھرانوں میں استادی شاگردی لازمی بات ہے۔ماسٹر صاحب بھی بڑے غلام علی خان کے شاگرد تھے۔اس دوران ساتھ بیٹھے ماسٹر عبداللہ کے بیٹے امتیاز عبداللہ نے لقمہ دیا کہ ابا جی ہونہار شاگرد تھے کیونکہ بڑے غلام علی خان کے بیٹے مینو خان کا کہنا تھا کہ ان کے والد ماسٹر عبداللہ کے شاگرد ہونے پر تفاخر کا اظہار کرتے تھے۔
خاتون نے مزید بتایا کہ ماسٹر عبداللہ کا آبائی گھر مزنگ میں تھا لیکن بعدازاں ماسٹر عبداللہ نے جب نامی گرامی پہلوان اچھا شوکر والا کی فلم جس کا نام بھی ''اچھا شوکر والا'' تھی ، کے گانوں کی دھنیں ترتیب دیں تو اس سے ملنے والے پیسے سے انھوں نے موجودہ مکان کی جگہ خریدی جہاں اب ان کا گھر تھا۔انھوں نے بتایا کہ انھوں نے کل ایک کنال اور ایک مرلہ اراضی خریدی تھی لیکن پھر ضروریات کے ہاتھوں بکتی گئی' صرف دو اڑھائی مرلے رہ گئی جس پر اب ان کا موجودہ گھر ہے۔خاتون جس گھر کے بارے میں وہ بتارہی تھیں وہ ایک عظیم فنکار کے بجائے کسی گداگر کا گھر معلوم ہوتا تھا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ وہ یہ گھر امتیاز کو دیں گی کیونکہ وہ بیمار ہے۔
اچھے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم نے بہت عروج دیکھا۔ہمیشہ اچھا کھایا اور پہنا لیکن اب زوال ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پھر عروج دے۔ اچھے دنوں میں خاوند ہر وقت مصروف رہتے تھے۔گھر میں فلمی شخصیات ، پروڈیوسرز ، ہدایت کاروں سمیت اہم لوگوں کا ان سے ملنا جلنا تھا جن میں ہیرو محمد علی اور ندیم کے علاوہ ان کے قریبی دوستوں میں شامل چوہدری اجمل، نزاکت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ خاتون نے بتایا کہ شاہدہ منی اکثر ان کے گھر آتی تھی اور گھنٹوں بیٹھی رہتی تھی۔خاوند کو لاتعداد ایوارڈ ملے لیکن جب انھیں غصہ آتا تھا تو ان ایوارڈز پر نکالتے تھے اس طرح انھوں نے بے شمار ایوارڈ توڑڈالے۔ گھر میں ماسٹر عبداللہ کا عمومی رویہ عام شوہروں جیسا تھا لیکن جب کام کرتے تو اس میں ڈوب جاتے تھے۔
ماسٹر عبداللہ کی فلمی دنیا میں جدوجہد کے ابتدائی دنوں کا ایک دل چسپ واقعہ سناتے ہوئے ثریا بی بی نے بتایا کہ جب وہ اپنا پہلا گانا ''یہ جینا کیاجینا'' میڈم نور جہاں کو سنانے کے لیے گئے تو میڈم نور جہاں پلنگ پر بیٹھی تھیں ، پہلے تو اس نے سیدھے منہ بات نہ کی کہ یہ بھلا کیا گانا سنائیں گے لیکن جب ماسٹر صاحب نے گانا سنایا تو میڈم پلنگ سے نیچے اتر کر ماسٹر صاحب کے قدموں میں بیٹھ گئیں اور کہا کہ ماسٹر صاحب آپ تو بہت گْنی ہیں۔
اپنی اولاد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کی آواز بھّرا گئی۔ خاتون نے بتایا کہ ان کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
ایک بیٹا اور بیٹی فوت ہوچکے ہیں جن کی قبریں باہر دلْے کی قبر کے ساتھ ہی ہیں۔سامنے بیٹھا امتیاز عبداللہ کافی عرصے سے بیمار ہے۔اصل میں باپ اور بھائی بہن کی موت کا اس کے دماغ پر اچھا اثر نہیں ہوا۔لیکن اب پہلے سے بہت بہتر ہے اور چھوٹے بیٹے مادھو عبداللہ کو سنگیت سکھاتا ہے۔ایک بیٹا افضال ملازمت کرتا ہے اور اپنے گھر خوش ہے۔ وہ جب بیمار ہوتی ہیں تو افضال ہی اسپتال یا ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہے۔
دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اب زمانہ بالکل بدل چکا ہے۔اب دنیا وہ نہیں رہی۔ سنگیت سننے والے نہیں رہے ۔ پہلے گانا سننے والے تھے ۔ اب تو ہر طرف دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سب بھاگے چلے جارہے ہیں۔ہر طرف جھوٹ ہے۔پہلے لوگ فلم دیکھنے جاتے تھے تو سینما سے روتے ہوئے باہر نکلتے تھے ۔اب ایسی فلمیں نہیں بنتیں۔
بوڑھی خاتون نے اپنے گلوکار بیٹے مادھو کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی کیسٹ بنار ہا ہے اور بے چارہ اب تک جو کچھ اس کے پاس ہے' اوپر لگا چکا ہے لیکن کیسٹ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی۔ثریا بی بی نے صاف صاف کہا کہ انھیں کسی سے کوئی شکوہ نہیں۔خودار خاتون نے ارباب اختیار اور حکام سے مدد کی اپیل کرنے کے بجائے درخواست کی کہ ان کے بیٹے مادھو کو ٹی وی چینل پر بلایا جائے اوراس سے گانا گوایا جائے یا کسی ڈرامے کا ٹائٹل سانگ گوایا جائے۔
گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے ماسٹر عبداللہ کے بیٹے امتیاز عبداللہ نے کہا کہ والد صاحب اس کے باپ سے زیادہ دوست تھے اور اس نے انہی سے گانا سیکھا۔امتیاز نے بتایا کہ وہ ہارمونیم کے علاوہ کئی ساز بجاسکتا ہے۔اس موقع پر امتیاز نے گا کر اپنے فن کا اظہار بھی کیا۔اس کا چھوٹا بھائی اور فن گائیکی کی دنیا میں اپنا کیرئر بنانے کے لیے کوشاں مادھو عبداللہ گھر پر موجود نہ تھا ۔چوتھے بیٹے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی اپنا کام کرتا ہے۔
چند مقبول فلمیں:
جٹ مرزا ، ملنگی ، سورج مکھی، واہ بھئی واہ ، دنیا پیسے دی، اک سی چور ، امام دین گوہاویہ ، وارث ، رنگی ، شہنشاہ ، ہر فن مولا ، دلیر خان ، اکھ لڑی بدوبدی ، کشمکش ، رستم، میدان ، ہیراپتھر ، دل ماں دا ، ضدی خان ، چوروں کا بادشاہ ، پیار دی نشانی ، حاجی کھوکھر ، نوٹاں نوں سلام، جاگدے رہناں ، نظام ، شریف بدمعاش ، بدل گیا انسان ، جوان تے میدان ، شیشے کا گھر، قسمت ۔