کیوں بنوایا شناختی کارڈ

روس، امریکا اور بہت سی پارلیمنٹ کے اندر بھی یہ سب کچھ ہوا ہے۔



کرہ ارض پر جو ممالک ہیں ان میں آباد عوام کے اپنے رسم ورواج ،عادات اور طور طریقے ہیں اور وہ سب اپنی اپنی جگہ منفرد ہیں کیونکہ مقصدیت ایک ہونے کے باوجود طریقے الگ الگ ہیں۔ کچھ رسموں کا مقصد ذہن کوسکون دینا ہوتا ہے یا جسم کو آرام یا معاشرے کو عام طور پر اس سے افادیت بہم کرنا مقصود ہوتا ہے ہر قوم کا ایک مزاج بھی ہے۔

سرد علاقوں کے رہنے والے بہت جفاکش،محنتی اورسخت جان لوگ ہوتے ہیں،کچھ ایسی ہم خصوصیات مکمل نہیں توکسی حد تک اپنے پہاڑی علاقوں کے لوگوں میں دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح محنت کرکے ایک سخت زندگی گزارتے ہیں، ایسے ہی مناظر ان ملکوں کے بھی ہیں جہاں ایسے حالات ہیں،یا جیسے وہ حالات ہیں ان سے ملتے جلتے حالات ہم اپنے علاقوں میں دیکھتے ہیں۔

دراصل انسان ہر جگہ انسان اور جانور ہر جگہ جانور ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جانورکہیں انسان بن جاتے مگر یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ انسان جانور نہیں بنے گا۔ ہمارے ملک میں جو لوگ کر رہے ہیں اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کا جانور بننا کچھ مشکل نہیں ہے۔

کرائم رپورٹس دیکھ لیجیے۔ ہماری بات کی تصدیق ہوجائے گی۔ پھر طالبان اور دہشت گرد فیکٹر نے تو اس قدر واضح صورتحال کو کردیا ہے کہ کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہا کہ یہ انسان نہیں جانور بلکہ بھیڑیے ہیں جو انسانی خون کے پیاسے ہیں۔ یہ وہ شیر ہیں جو خود اپنے بچوں کو یعنی اپنی نسل کے بچوں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے ختم کردیتا ہے۔

آپ دوسرے ملکوں کے لوگوں کو دیکھیے ان کے رویے میں آپ کو کئی چیزیں ملیں گی۔ انکساری، شکر اورعزم۔آپ سے ملیں گے تو انتہائی انکساری کا مظاہرہ کریں گے۔ خدا کا اور بندوں کا ہر دم شکر اورشکر ادا کریں گے اور جس Cause یعنی مقصد کے لیے مصروف ہیں اسے حاصل کر کے رہیں گے۔ اس راستے کی دشواریاں ان کو روک نہیں سکیں گی اور وہ ہمیشہ پرعزم ہوں گے۔

پہاڑی دشوار گزار علاقے دنیا بھر میں ہیں، صحرا بھی ہیں، میدان بھی، سرسبز علاقے بھی۔ سب کچھ دنیا میں ہے اور دنیا کے لوگ ان علاقوں سے ایک انسیت رکھتے ہیں۔ جرمن لوگ بہت جفاکش، فرانس کے لوگ بے حد مہذب،جاپان کے لوگ خوبصورت رسم و رواج اور تہذیب کے دلدادہ۔ یورپ اور امریکا جہاں چلے جائیں آپ کو الگ طرح کے لوگ ملیں گے جو علیحدہ علیحدہ خصوصیات رکھتے ہیں۔

چین کو دیکھ لیجیے۔ یہ بھی colourful معاشرہ ہے۔ اس کے بھی رسم و رواج ہیں اور یہ سختی سے اس پرکاربند بھی ہیں۔ کسی زمانے میں ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے بھی سنے تھے۔ مگر یہ تو ایک سیاسی مسئلہ تھا۔ ہم بات کر رہے ہیں قوموں کے مزاج کی۔ تو یہی لوگ جو نہایت پرامن ہیں چند منٹ کے لائٹ بریک ڈاؤن کے دوران کیا کرتے ہیں یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے۔

تو اچانک اس پرامن معاشرے کو کیا ہوجاتا ہے اور یہ BURTOUT کیوں ہوجاتے ہیں اور پھر ایسے واقعات جن کا ابھی تذکرہ کیا گیا۔ فٹ بال میچ کے دوران کیا ہوتا ہے۔ اچھا خاصا فٹ بال یا کوئی کھیل کھیلتے کھیلتے یہ لوگ آپس میں ''دست وگریبانی'' کھیل کیوں شروع کردیتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ پھر بھی ''معزز، شریف، مہذب'' کہلاتے ہیں۔

روس، امریکا اور بہت سی پارلیمنٹ کے اندر بھی یہ سب کچھ ہوا ہے۔ مسئلوں کو''مکوں، لاتوں، گھونسوں، تھپڑوں، گالیوں'' سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ تو ان لوگوں کا حال ہے تو پھر ہم اور ہمارے آس پاس کے ''ہم جیسے'' ملک تو قابل ذکر نہیں ہیں بات کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ یہ بظاہر قانون کے پابند لوگ دراصل اندر سے اس قانون بلکہ ہرقانون کی پابندی کرتے ہوئے بھی Law Less Ness کو پسند کرتے ہیں۔

ان کے ذہن میں انسان کی آزادی کا جو تصور ہے وہ ایسے کسی موقعے پر ابھر کر سامنے آجاتا ہے جب ذرا سا قانون سے''آنکھ مچولی''کا موقع مل جائے۔ ساری دنیا کو دہشت گرد کہنے اور سمجھنے والے ''گوانتاناموبے'' میں کیا کرتے رہے ہیں قیدیوں کے ساتھ۔ قانون کہاں تھا؟ بین الاقوامی انسانیت کہاں تھی؟ خیر چھوڑیے یہ پھر سیاسی مسئلہ ہے اور یہ ہے ''بین الاقوامی سیاسی دہشت گردی''۔ آپ اس پر نہ تو تبصرہ ہی کرسکتے ہیں اور روکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آج دراصل میں اپنی قوم کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ جسے جگاتے جگاتے اقبال سوگئے، قائد اعظم کو سلادیا گیا، میں پھر شاید سیاست کی طرف جانے لگا ہوں تو اپنی قوم کی تعریف کرنا چاہتا ہوں، ہرچند کہ یہ دنیا بھر میں بدنام ہے۔ پاکستان کا نام اب دہشت گرد ہے۔ لوگ پاکستان کو دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ لائن سے نکال کر الگ سے تحقیق کی جاتی ہے۔ وزیروں کے جوتے اتار کر چیک کیا جاتا ہے۔ ایسا ہوچکا ہے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور اگر اب اس طرح چیکنگ نہیں ہو رہی تو یہ ان کی غلطی ہے۔

خیر میں اپنی قوم کی تعریف کرنا چاہتا ہوں کہ مقابلے میں ان قوموں کے جو ایک میچ کے نتیجے پر ہنگامہ برپا کرتی ہیں اورجیتنے والے سے نفرت کا برملا اظہار کرتے ہیں ہماری قوم موبائل فون کے کارڈ سے 20 روپے سے زیادہ رقم کٹنے پر فراخ دل ہے۔ پٹرول سستا کرکے اس پر ٹیکس بڑھانے پر خوش ہے۔ ایسے احمقانہ آرڈرز پرکہ بوتل یا کین میں پٹرول دینے سے پٹرول کا بحران پیدا ہوتا ہے لہٰذا گھریلو جنریٹر کے لیے بھی پٹرول نہیں دیا جائے گا پوری قوم مسکرا رہی ہے۔

کیونکہ بجلی تو پہلے ہی بند ہے،گیس کے ساتھ ساتھ تھر میں ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہوکرمرچکے، وزیر اعلیٰ منرل واٹر بیچ رہے ہیں جو بازارمیں بک رہا ہے۔گندم میں مٹی ملائی جارہی ہے اور وہ بھی تھرکے لوگوں کو نہیں مل رہا۔ فوٹوسیشن کے ذریعے تھر کی اتنی خدمت کی گئی ہے کہ سارا تھر''نہال'' ہوچکا ہے۔

سارا تھر ہرا بھرا ہے، ہرطرف پانی لہریں مارہا ہے، میٹرو بس، موٹر وے اور دوسری ''تہذیب یافتہ'' اسکیموں سے سارے پاکستانیوں کا پیٹ بھرچکا ہے اور باقی گندم باہر بھیج رہے ہیں تاکہ جب کمی ہوجائے تو مہنگے داموں اپنی ہی گندم دوبارہ خرید لیں۔اور قوم خوش ہے،دہشت گردی میں کون مبتلا ہے ''قوم''۔ ہلاک کون ہورہا ہے ''قوم''۔ ہلاک کون کر رہا ہے ''قوم''۔ بھارت امریکا کی گود میں بیٹھ گیا ہے۔ آپ ان کے جوتوں میں۔ قوم خوش ہے۔

ہم حیران ہوتے تھے کہ ہمارے وزیر اعلان کرتے ہیں کہ ''پاکستان خوشحال'' ہے اور آیندہ 2018 تک مزید ''خوشحال'' ہوجائے گا تو اب سمجھ میں آیا کہ ہمارے ''سیاسی وزیر'' کس ''خوشحال'' قوم کی بات کرتے ہیں۔

SIMکا مسئلہ ہے بائیومیٹرک چیک کروانا قوم کا کام، کیوں SIM خریدی۔ جب خریدی تو اب عذاب بھگتو۔۔۔۔ ایک انگوٹھے کے دس روپے چیک کرنے کے 14 کروڑ موبائل اگر ہیں تو ایک ارب 40 کروڑ روپے حکومت یا موبائل کمپنیوں یا کس کی جیب میں۔ پتا نہیں اتنی جیبیں ہوگئی ہیں کہ اب یاد نہیں رہتا کہ قوم کے خون پسینے کی کمائی کون سی جیب میں جائے گی لہٰذا غلطی ہوگئی ہو تو پیشگی معافی!

''دس روپے'' اور ''دھکے'' یہ ہے اب ''بائیومیٹرک چیکنگ'' انگوٹھا تصدیق نہیں ہو رہا۔ شناختی کارڈ آفس جاؤ وہ کہتے ہیں۔ 2000 دے دو، اسمارٹ کارڈ بنا دیں گے جلدی سے۔ یہ ایک اور کمائی کا ہدف ، یہ کارڈ ان ملکوں کے لیے ہوتے ہیں جن کے معاشرے Ideal ہر طرح ہوتے ہیں یہاں 2000 دراصل ''کھُو کھاتے'' میں جائیں گے۔

کیونکہ اس ملک میں ایمانداری سے Tax دینے والے کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ تو سب جانتے ہیں ''کچھ نہیں ہوتا'' آپ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگر آپ Taxبھی دیتے ہیں تو دیا کریں تو آج کل عام بہت خوش ہے ''دھکے اور دس روپے ٹیکس'' میں۔ خوش اس لیے کہ میں نے کسی سے نہیں سنا کہ یہ غلط ہے، اسے درست کرنا چاہیے۔

2001 میں شناختی کارڈ بنا تھا۔ 2015 تک کا وقت ہے اس میں آٹھ ماہ باقی ہیں ختم ہونے میں انگوٹھا تصدیق نہیں ہو رہا کسٹمر سروس سینٹر پر جاؤ شناختی کارڈ آفس کھاؤ دھکے۔ میں جس قوم سے تعلق رکھتا ہوں جس کا حصہ ہوں، جس کا مزاج داں ہوں تو مجھ میں اور میری قوم میں کیا فرق ہے۔ 200روپے آنے جانے کا کرایہ خرچ کر کے شناختی کارڈ آفس سے بھی دھکے کھا کر آچکا ہوں اپنے حصے کے ، میں خوش ہوں۔ میں اپنی قوم کی تعریف کرنا چاہتا ہوں جسے جگاتے جگاتے۔۔۔۔۔جانے دیجیے۔۔۔۔۔کیا فائدہ ۔ کیوں بنوایا شناختی کارڈ، کیوں خریدی SIM؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں