نقابوں میں چھپا چہرہ

…کالی رات برہا کی کاٹے جیسے کالے ناگ…تو نے مکھ موڑا رے ساجن پھوٹے میرے بھاگ…


نادر شاہ عادل February 24, 2015

امریکا میں مقیم پاکستانی صحافی برادر حسن مجتبیٰ نے اپنے حالیہ کالم میں مادری زبانوں کے حوالے سے بہت فکر انگیزباتیں کی ہیں ۔ مادری زبان سے محبت اور بے اعتنائی دونوں کے نفع نقصان ناقابل بیان ہیں ۔ جہاں انھوں نے اردو، پنجابی، سندھی ، بلوچی ، براہوی، ہند کو، گوجری ، سرائیکی، پشتو اور دیگر زبانوں کا ذکر کیا ہے وہاں پنجابی زبان سے ''بیوفائی'' اور اشرافیہ کی بے نیازی پر ان کے قلم سے سچ کاآتش فشاں پھوٹ پڑا ہے۔

زبان نفس خداوندی ہے، خطے کی ان ہی قدیم زبانوں میں ایک تاریخی زبان بلوچی ہے جسے ان کے اپنے اہل دانش نے زبانی ، لسانی، علمی اورعملی بدنصیبیوں کے غار میں گرنے سے بچایا ۔ ایک لمبی چوڑی بحث ہے کہ بلوچستان کی سیاسی محرومیوں میں بلوچی زبان میں پرائمری تعلیم سے بے توجہی کیوں برتی گئی، سیاسی دباؤ اور مصلحتوں سے کیا کام لیا گیا۔ مگردوسری طرف ایسی نابغہ روزگار شخصیات نظر آتی ہیں جنہوں نے بلوچی زبان کے فروغ، رسم الخط، لہجوں کی متنوع حرکیات،اس کی شیرینی اور زبان کی سرکاری سطح پر قبولیت اورتدریس میں حائل دشواریوں کے خاتمے کے لیے بے جگری سے لڑائی لڑی۔

اس جنگ میں مولانا بخش جتوئی، مولانا فاضل ، گل خان نصیر، سردار گشکوری،جسٹس (ر) میر خدا بخش مری، عطا شاد ، بشیر احمد بلوچ، اکبر بارک زئی، صورت خان مری، غوث بخش صابر، عبدالقیوم،عبد الغنی پرواز،کریم دشتی، جان دشتی، بشیر بیدار،اکرم صاحب خان، مراد آوارانی، عبدالرحمان غور ،صبا دشتیاری، علی عیسیٰ، محمد بیگ بیگل، عابد آسکانی ، منصور بلوچ ، جی آر ملا ، اصغر علی آزگ، اصغر درآمد ، اورکئی اہم نام شامل ہیں۔

سید ہاشمی کا کردار ان ناموں کے سفر میں ایک سنگ میل جیسا ہے جہاں پہنچ کر یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ایک شخص نے بلوچی زبان کی عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا تنہا کیسے محشر خیال میں سجائی اور ان کے شاگردوں ، عقید مندوں اور بااعتماد شاعر وادیبوں نے اس خواب کو کیسے شرمندہ تعبیر کیا۔ ''سید گنج'' کسی نام نہاد سرکاری اکیڈمی یا ادبی بورڈ نے شایع نہیں کی اسے سید ہاشمی اکیڈمی نے مکمل کیا ۔ سید ہاشمی صدارتی حسن کارکردگی کا انعام بھی پاچکے تھے مگر وہ جب تک زندہ رہے کسی صلہ اور ستائش کی تمنا کیے بغیر اس انسائیکلوپیڈیا کومکمل کرنے کے لیے بے قرار نظر آئے۔

اس نے اسی لیاری میں آخری ہچکی لی جو گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے علم اور ادب دشمن گینگ وار کے شعلوں میں لپٹی ہوئی ہے ۔ سید ہاشمی نے بلوچی زبان کی لسانی تاریخ اور ڈکشنری کے لیے بھارت ، خلیج اور پاکستان کے مختلف علاقوں کے مطالعاتی دورے کیے، ناول ''نازک'' ان کا پہلا ناول تھا، ان کی شاعری جدید وکلاسیک کا ایک انمول ذخیرہ ہے ، ایک لسانی علمبردار اور بے لوث زبان دوست محقق کی حیثیت میں سید ظہور شاہ ہاشمی بلوچی شاعری کے بطل جلیل قرار پائے۔

جب گل خان نصیر نے بلوچی زبان کو رومن رسم الخط میں بدلنے کا حکومتی فیصلہ کیا تو سید ہاشمی نے اس فیصلے کے خلاف ون مین وار کے طور پر عوامی عدالت ، حریت اور روزنامہ مساوات میں بلوچی رسم الخط کے عربی اور اردو اسکرپٹ کے دفاع میں سلسلہ وار مضامین لکھے اور حسن اتفاق ہے کہ ان کے رومن رسم الخط کی مزاحمت میں مضامین تین ممتاز صحافیوں شوکت صدیقی، فرہاد زیدی ، اور ابراہیم جلیس کی زیر ادارت چھپے۔محترمہ بانل دشتیاری کی بلوچی شاعری اور زندگی پرعاصم ظہیر کی کتاب ''امیتانی تیاب'' ایک اچھی تحقیق ہے مگر اس کتاب میں بانل دشتیاری کی اولین غزل اور مقبول ترین بلوچی نغمہ ''حاترا تئی گا دلے درداں دلا دارں ''کا کوئی تذکرہ نہیں ،اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس میں بانل کا تخلص استعمال نہیں ہوا ، ان کا یہ کلام ان کے بیٹے کے نام سے منسوب ہوا ۔ عطا شاد کا کہنا تھا کہ میری حسرت رہی کہ بانل کا یہ شعر میرا کہا ہوا ہوتا،

جامگوں زندے وتی حاضر کوتوں
برہنگی کارچے تئی چارگ نہ بیت

(ترجمہ: میں نے اپنی زندگی کا لباس نذرکردیا، کیونکہ آپکی شمشیر کی برہنگی مجھ سے دیکھی نہ گئی)۔ان کے یہ اشعار کافی مقبول رہے،

مروچی بوانت مسک و مہلبانی
اے کیے گوستگ نزانا میتگا چے

(ترجمہ: آج گلی معطر اور خوشبوؤں میں رچی ہوئی ہے، نہ جانے کون یہاں سے گزرا ہے)

دل گوں مہر و محبتئَ زیِرنت
نا کہ تیرء ْ توپء ْ توپنگاں

(ترجمہ: دلوں کی تسخیر تو پیار و محبت سے ہوتی ہے، نہ کہ تیر ، توپ اور بندوقوں سے) زیب النسا مخفی کے کلام کی تضمین کی ۔ایک بند ملاحظہ ہو،

من مہر ئِ راہ ئَ نہ چارِت کدی بلند نہ پست
وس ئْ من جْہد کْتگ ہو بلے کہ دست نہ رست
منی اے جہد وجفاہانی شر تو قیمت بست
بہارئِ عمر گرامی بجستجو بہ گزشت
نہ دیدہ دامنئِ وصلئِ دراز دستیئِ ما

(ترجمہ:میں محبت کی راہوں میں بلندی وپستی دیکھنے کی قائل نہیں، جدوجہد بہت کی مگر کچھ نہ بنا، آپ نے میری تواں سوز کوششوں کی خوب قیمت لگائی، عمر عزیز کی تمام بہاریں جستجو میں کٹیں اور وصل کا دراز دامن ہاتھ میں نہیں آیا)

مردم ئِ رنگ گوں چماں کدی گندگ بوتگ!
دیم در دیم کہ چیرانت نقابانی تہا

(ترجمہ: آدمی کا رنگ کبھی آنکھوں سے دیکھنا ممکن ہے جب چہرہ در چہرہ نقابوں میں چھپا ہو)

تئی گلہ و گوں دشمناں واﷲ
تلوساں، پلپٹاں، مراں نہ کناں

(ترجمہ: آپ کا گلہ اور میں دشمنوں سے کروں، قسم لے لو، سسکتی رہوں، تڑپوں ،حتیٰ کہ مرجاؤں گی نہیں کرونگی۔

زرے زیر آپ بیت چولاں گوں بانل
امیتانی تیاب پرشتا منی دوست

(ترجمہ : امیدوں کا پل کیا ٹوٹا اے دوست ، بانل کو موجوں نے ڈبو دیا )یہ قصہ بلوچی زبان کی ایک شاعرہ کا ہے، جن کے والد سید ملنگ شاہ صوفی بزرگ شاعر تھے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر صبا دشتیاری کی تربیت اسی بانل دشتیاری کے گھر میں ہوئی اور بلوچستان کے اہل ادب نے جس صبا دشتیاری کا عروج دیکھا وہ اس کے لڑکپن سے قطعی واقف نہیں، صرف لیاری کے لوگ جانتے ہیں کہ غلام حسین عرف گلو کے ققنس (دیومالائی پرندہ ) سے صبا دشتیاری نے کیسے جنم لیا۔

وہ نوجوان غلام حسین جو ڈاکٹر فضل الرحمان انصاری کے انسٹی ٹیوٹ سے چار سالہ اسلامک اسٹڈیز میں ڈپلومہ لے کر لیاری واپس آئے تو ''ملا'' بن چکے تھے، عربی ، فارسی اور اردو پر ان کی دسترس تھی، مگر بلوچی زبان سے ابھی انسیت پیدا نہیں ہوئی تھی ، جب ذہنی عدم تواز ن کا شکار ہوئے تو ملیر کی وادیوں میں بہن پاکُل کے گھر آرام کیا کچھ علاج پر عباس بلوچ نے توجہ دی ۔اس کے بعد صبا دشتیاری بلوچ دانشور بن کر مارکسزم کی شاہراہ پر گامزن ہوگئے اور جامعہ بلوچستان کی وحشت زدہ راہ داریوں میں جاںبحق ہوئے ۔

ایک بار کراچی پریس کلب میں جرات رندانہ کے باعث انھیں تقریر سے روکا گیا،اس روز آزادی صحافت کا عجب منظر تھا، بلوچستان کے دکھوں اور اس کی مسخ شدہ تاریخ کے عذابوں کا ذکرکرنا گناہ گردانا گیا۔

بلاشبہ تاریخ میں کوئی تہذیب گونگی نہیں ملتی ۔ زبان کسی بھی قوم ،گروہ اور لشکری تہذیب کی ماں ہوتی ہے، اسی لیے دھرتی ماں کو جب بھی وطن کا جغرافیائی استعارہ ملتا ہے تو اس کے باشندے اپنے زبانوں سے اس تہذیب اور ثقافتی اقدار کا گلستاں سجا لیتے ہیں۔ علاقائی زبانیں ماں بولیاں ہیں ، ممتا کی لسانی تقسیم انسانیت پر ظلم ہے۔

بلوچی زبان کے حوالہ سے حسن مجتبیٰ نے جدید بلوچی شاعری میں منفرد لہجے کی شاعر محترمہ بانل دشتیاری کا ذکر کیا ہے وہ ام لیاری تھیں اور پروفیسر صبا دشتیاری کی گھریلو اتالیق ۔ زبان سے وابستگی اور والہانہ پن کی بات چلی ہے تو آخر میں ایک گیت پیش خدمت ہے، یہ سینئر صحافی ، مترجم و شاعر اسرار عارفی(مرحوم) کا ہے ، بانل دشتیاری کے شوہر تھے جن کا تعلق سرائیکی وسیب سے تھا، اس گیت کو استاد قدرت اﷲ خان کے فنکار بیٹے ظفر علی خان نے گایا ہے۔ وہی ظفر جو رجب علی ، فتح علی اور پھر استاد منظور علی خان کے خانوادہ کی نمایندگی کرتے ہیں ۔ گیت پڑٖھئے

سندرتا کی رانی
دھرتی کا ہرذرہ گائے تیری روپ کہانی/نگر نگر تری ریت بسی ہے بن بن تیری پریت/ ڈال ڈال پر پنچھی گائیں سندرتا کے گیت/سانجھ سویرے آشا چھیڑے برہا کا سنگیت/نیناں نیر بہائیں کیسے سوکھ گیا ہے پانی/سندرتا کی رانی/ڈگر ڈگر پر سندردیوی تیرے روپ کی چھایا/میں نے سب کچھ دے کر پائی تیری پریت کی مایا/مورکھ جگ مایا کا لو بھی اس نے دھن اپنایا/ اور اس دھن کے بل بوتے پر کرتا ہے من مانی/سندرتا کی رانی/پاپی راج سنگھاسن بیٹھے پریمی پھریں دیوانے/کون ہے جو اندھیر نگر میں پرجاکو پہچانے/ روپ متی سنسار بنا ہے نرگ جو تو پہچانے/جیؤ رکھشا اس جگ میں تو ہوگئی بات پرانی ...سندرتا کی رانی...ڈگر بھیانک دیکھے موہے چلوں میں اکھیاں میچ...جیون نیا ڈول رہی ہے دکھ ساگر کے بیچ ...محل سرا میں رنگ جمائیں چوراچکے نیچ...جگ سارا مکار فریبی میں برہن

دیوانی... سندرتا کی رانی
...کالی رات برہا کی کاٹے جیسے کالے ناگ...تو نے مکھ موڑا رے ساجن پھوٹے میرے بھاگ...آشاؤں کی چتا میں اب تو آگ لگی ہے آگ...نیہاں لگایا کون سمے یہ کون ہوئی نادانی ...سندرتا کی رانی۔۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں