دنیا کسی کے پیار میں

آج جتنی شدت کے ساتھ خلوص اور پیار کی اس دنیا کو ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔


یونس ہمدم February 20, 2015
[email protected]

آج کا دور بے حسی اور بے اعتنائی کا دور ہے۔ آج جتنی شدت کے ساتھ خلوص اور پیار کی اس دنیا کو ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ مجھے آج پاکستان کے ایک نامور فلمی صحافی اور نغمہ نگار دکھی پریم نگری کا لکھا ہوا خوبصورت گیت بھی بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے جس کے بول ہیں ''دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں'' اس گیت کو لال محمد اقبال نے موسیقی سے سنوارا تھا اور مہدی حسن کی من موہنی آواز نے نکھارا تھا اور پھر جب اس خوبصورت گیت کی فلمبندی میں وحید مراد کے ساتھ اپنے دور کی ڈریم گرل اداکارہ زیبا نے حصہ لیا تھا تو اس گیت کے حسن میں مزید اضافہ ہو گیا تھا، یہ فلم ہدایت کار شمیم حسن کی فلم ''جاگ اٹھا انسان'' تھی۔

نغمہ نگار دکھی پریم نگری کا تخلص دکھی تھا مگر وہ شخصیت میں صوفی تبسم کا اثر رکھتے تھے اور بہت بزلہ سنج تھے اور نہایت ہی شگفتہ مزاج اور دوست نواز انسان تھے جن دنوں میں نگار ویکلی کے ادارہ تحریر سے منسلک ہوا دکھی پریم نگری نگار ویکلی کے سینئر ایڈیٹر تھے، جب کہ مالک و مدیر الیاس رشیدی تھے جب کبھی الیاس رشیدی لاہور جاتے تھے تو دکھی پریم نگری ہی الیاس رشیدی کی کرسی پر براجمان ہوتے تھے دکھی پریم نگری کو میرے شاعر ہونے کا بھی علم تھا۔ دکھی پریم نگری کے والد پیشے کے اعتبار سے طبیب تھے اور میرے والد بھی پیشے کے اعتبار سے حکیم تھے۔

دکھی پریم نگری کا اصلی نام وہاج نبی تاج تھا۔ جب وہ ناگپور ہندوستان کے مورس کالج کے طالب تھے تو ان کے کالج فیلوز میں بعد کے مشہور اداکار اشوک کمار اور نامور فلمساز، ہدایتکار و اداکار کشور ساہو بھی شامل تھے۔ کالج کی تعلیم سے فارغ ہو کر یہ بمبئی چلے آئے بمبئی میں کچھ عرصہ ہفت روزہ ''تنویر'' میں رہے پھر اپنا ذاتی رسالہ ہفت روزہ ''سنسار'' نکالا۔ یہ بند ہوا تو بمبئی کے مشہور ہفت روزہ ''کہکشاں'' کے ایڈیٹر ہو گئے اس دوران فلمی دنیا میں ان کا آنا جانا شروع ہو گیا اچھے ادیب اور شاعر تھے پہلے پرتھوی راج تھیٹر سے منسلک ہوئے پھر وہ راجکپور پروڈکشن سے وابستہ ہو گئے، وہاں وہ راجکپور کے ساتھ شمی کپور اور مشہور ولن پریم ناتھ کو اردو زبان سکھانے پر مامور ہو گئے۔

راجکپور پروڈکشن کی فلموں میں آرٹسٹوں کے مکالموں کی ادائیگی اور صحیح تلفظ ادا کرنے کی ذمے داری دکھی پریم نگری کو سونپ دی گئی۔ جب پاکستان میں فلم انڈسٹری کو کچھ عروج ملا تو دکھی پریم نگری بمبئی سے اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آ گئے اور کراچی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس دوران وہ ''شمع'' دہلی جیسے ممتاز ماہنامے اور ''ادبی دنیا'' لاہور میں افسانے بھی لکھتے رہے۔ روزنامہ ''انجام'' سے بھی کچھ عرصہ وابستگی رہی اور پھر اسی دوران مشہور فلمی ہفت روزہ ''نگار'' کے سینئر ایڈیٹر بنا دیے گئے۔ دکھی پریم نگری نے پہلی بار ہدایت کار شیخ حسن کی فلم ''شہناز'' کے لیے گیت لکھے کچھ گیت ان کے تھے اور کچھ گیت بابا عالم سیاہ پوش نے بھی لکھے تھے جو اس وقت لاہور کی فلم انڈسٹری میں اپنا ایک نام رکھتے تھے۔

ہدایت کار شیخ حسن بھی بمبئی ہی سے کراچی آئے تھے اور دکھی پریم نگری کی ان سے بمبئی ہی سے واقفیت تھی۔ یہاں بھی دونوں کی دوستی رنگ لائی اور جب شیخ حسن نے اپنی فلم ''لاکھوں فسانے'' کا آغاز کیا تو دکھی پریم نگری بحیثیت رائٹر اور نغمہ نگار ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ مگر دکھی پریم نگری کے نام کو مہدی حسن کے گائے فلم ''جاگ اٹھا انسان'' کے لیے لکھے گئے گیت ہی سے سب سے زیادہ شہرت ملی اور یہ گیت '' دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں'' ان کی پہچان بن گیا۔ دکھی پریم نگری نے پھر کراچی کی بہت سی فلموں کے لیے گیت لکھے جن میں انسان بدلتا ہے، فنٹوش، جھک گیا آسمان، گھروندا، 'باپ کا باپ' اور 'روٹھا نہ کرو' کے نام شامل ہیں۔

یہ ان دنوں کی ہی بات ہے جب میں نگار کے دفتر میں اپنے ٹائم کے حساب سے دوپہر کو آیا تو دکھی پریم نگری الیاس رشیدی کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ملے، میں سمجھا کہ الیاس رشیدی کسی کام سے لاہور گئے ہوئے ہیں۔ میں انھیں سلام کر کے دوسرے کمرے میں اپنا کام کرنے کے لیے جانے لگا تو وہ بولے یونس ہمدم! بیٹھو تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ میں بیٹھ گیا۔ پھر وہ بولے میں نے کل رات ریڈیو کراچی سے مجیب عالم کی آواز میں تمہاری لکھی ہوئی ایک غزل سنی تھی:

یہ مہکتا شباب کیا کہنا

نو شگفتہ گلاب کیا کہنا

مجھے بہت اچھی لگی، اگر تمہیں یہ یاد ہے تو پوری غزل سناؤ۔ میں نے انھیں ترنم میں اپنی غزل سنائی وہ بہت خوش ہوئے پھر کہنے لگے۔ تمہاری شاعری میں نغمگی بہت ہے تم اپنے آپ کو کراچی میں ضایع کر رہے ہو تم کسی طرح لاہور چلے جاؤ تم ایک اچھے نغمہ نگار بن سکتے ہو۔ میں یہ سن کر مسکرا دیا پھر انھوں نے مجھے اپنی بمبئی کی فلم زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ وہ جب راجکپور پروڈکشن سے وابستہ تھے اکثر بمبئی کے میٹرو سینما کی فٹ پاتھ پر کچھ دیر پیدل چلا کرتے تھے۔ وہاں فٹ پاتھ پر ایک کھلونے والا چادر بچھا کر کھلونے بیچتا تھا۔

وہ جب بھی وہاں سے گزرتے کھلونے والا کچھ نہ کچھ لکھنے میں مصروف نظر آتا تھا ایک دن وہ اس کے قریب جاکر کھڑے ہو گئے وہ حسب عادت کچھ لکھ رہا تھا۔ انھوں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا یہ تم یہاں لکھائی پڑھائی بھی کرتے ہو۔ کھلونے بیچنے والا بولا میں شاعری لکھتا ہوں۔ ان کی دلچسپی اور بڑھ گئی بولے آج کیا لکھا ہے ذرا ہمیں بھی سناؤ۔ کھلونیوالے نے اپنا لکھا ہوا تازہ گیت سنایا جس کے بول تھے:

میں زندگی میں ہر دم روتا ہی رہا ہوں

روتا ہی رہا ہوں تڑپتا ہی رہا ہوں

میں زندگی میں ہر دم روتا ہی رہا ہوں

اس نے جس خوبصورت ترنم کے ساتھ اپنی روداد غم کی داستان سنائی۔ تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ واہ! کیا شاعری ہے اور کیا خوب ترنم ہے۔ پھر دکھی صاحب نے کھلونے والے سے وہ پرچہ لیا اور اس پرچے پر اپنے قلم سے چند ستائشی جملے لکھے اور راجکپور پروڈکشن آفس کا پتہ لکھا۔ اور کہا کسی بھی دن یہ پرچے لے کر اور میرا نام بتا کر راجکپور پروڈکشن کے آفس آ جاؤ میں اس آفس میں کام کرتا ہوں۔ تمہیں راجکپور صاحب سے ملواؤں گا۔

کھلونے والے نے وہ پرچہ اپنے پاس رکھ لیا اور پھر ایک دن وہ راجکپور پروڈکشن کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا اور راجکپور کو اپنی غزلیں اور گیت سنا رہا تھا۔ راجکپور نے جب ترنم سے یہ ساری شاعری سنی تو وہ اچھل گیا۔ اس نے اسی وقت ایک گیت فائنل کر دیا اور پھر اپنی نئی فلم ''برسات'' کے لیے منتخب کر لیا اور کھلونے بیچنے والے سے کہا ارے بابا! آج سے تم ہماری پروڈکشن کا ملازم ہو گیا ہے۔ اور اس طرح قسمت نے ایک کھلونے بیچنے والے کو فٹ پاتھ سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ فلم ''برسات'' کے گیتوں نے فلم انڈسٹری میں ایک دھوم مچا دی تھی اور وہ گیت نگار پھر حسرت جے پوری کے نام سے فلم انڈسٹری میں ایسے چلے کہ ان کے نام اور شاعری کے ڈنکے بجنے لگے اور پھر راجکپور کی تمام فلموں میں حسرت جے پوری نے ایسے ایسے لازوال گیت لکھے کہ آج بھی فلم انڈسٹری ان گیتوں پر ناز کرتی ہے۔

پھر دکھی پریم نگری نے میری طرف بڑی شفقت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ وقت کبھی کسی کا ایک جیسا نہیں رہتا۔ ہم نے فلموں میں جو کچھ لکھنا تھا لکھ چکے۔ اب فلم انڈسٹری کو نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ مجھے تمہارے ترنم اور تمہاری شاعری میں بھی وہ شعلہ سا لپکتا ہوا نظر آیا ہے کسی طرح الیاس رشیدی کے اخبار نگار کے نمایندہ بن کر لاہور چلے جاؤ۔ مجھے یقین ہے تم بہ حیثیت نغمہ نگار لاہور کی فلم انڈسٹری میں ایک دن ضرور اپنا نام پیدا کرو گے۔ اس دن کے بعد سے میں لاہور جانے کے خواب دیکھتا رہا۔ اور ایک دن جب لاہور گیا تو وہ دن میرے خوابوں کی تعبیر کا آغاز بن گیا اور میں فلم انڈسٹری میں کم و بیش بارہ سال تک وابستہ رہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔