ہم طرف دار ہیں غالب کے
غالب کی زندگی میں جو ایڈیشن شایع ہوئے وہ خود غالب یا ان کے قریبی دوستوں کے مرتب کیے ہوئے تھے
خدا مغفرت کرے میرا عزیز مرحوم دوست شمیم اختر سیفی غالب کے اس مشہور مصرعے ''ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں'' کو غالب کی محبت میں جان بوجھ کر کچھ اس طرح سے پڑھا کرتا تھا کہ ''ہم طرف دار ہیں غالب کے سخن فہم نہیں''مراد اس کی یہ تھی کہ اگر کوئی ہمیں اس وجہ سے سخن فہم ماننے سے انکار کر دے کہ ہمارا ووٹ ہمیشہ غالب کی طرف ہوتا ہے تو ہمیں یہ بھی منظور ہے اس 15 فروری کو اس محبوب شاعر کی ایک سو چھیالیسویں برسی تھی لیکن غالب کی حد تک برسی یا سال گرہ اس لیے کوئی خاص معانی نہیں رکھتے کہ ہم تو اس کے کل وقتی عاشق اور FAN ہیں اور یاد تو اسے کیا جاتا ہے جو کبھی ''بھولنے'' کی منزل سے گزرا ہو۔
اس روز کراچی میں ایک فارما سوٹیکل کمپنی نے ایک بار پھر ایک شعری محفل کا اہتمام کیا تھا جس میں حسب معمول صرف دو شاعروں کو مدعو کیا گیا تھا فرق صرف یہ تھا کہ اس بار میرا ساتھ برادر عزیز پیر زادہ قاسم نے دیا کہ انور مسعود اس مرض یعنی فلو میں مبتلا تھے جو بقول کسے علاج کے ساتھ سات دن میں اور بغیر علاج کیے ایک ہفتے میں جان چھوڑتا ہے۔
ہم دونوں نے کلام سنانے سے پہلے پیرومرشد مرزا غالب کے بارے میں کچھ باتیں بھی کیں۔ اگلے روز انجمن ترقی اردو کے دفتر میں عزیزہ فاطمہ حسن نے میرے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا اور خاص طور پر فرمائش کی کہ برسی کی رعایت سے میں اپنی کتاب ''نئے پرانے'' میں شامل اپنے کیے ہوئے غالب کے انتخاب کلام سے کچھ اشعار بھی سناؤں سو میں نے ایسا ہی کیا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ بڑے شاعروں کے سب نہ سہی مگر بیشتر اشعار زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہو جاتے ہیں' یہ عمل کیسے' کیوں اور کس طرح سے ہوتا ہے اور کس وجہ سے برسوں بلکہ صدیوں پہلے کہی ہوئی کوئی بات کس طرح سے بالکل ''آج'' بلکہ ''ابھی'' کی لگتی ہے اس گفتگو میں جو اشعار پڑھے گئے اور ان پر بات کی گئی وہ کچھ اس طرح سے تھے۔
گل غنچگی میں غرقۂ دریائے رنگ ہے
اے آگہی' قریب تماشا' کہاں نہیں
ہر نفس ہر یک نفس جاتا ہے قسط عمر میں
حیف ہے ان پر جو سمجھیں' زندگانی مفت ہے
جو چاہیے نہیں وہ مری قدر و منزلت
میں یوسف بقیمت اول خریدہ ہوں
تقریب کے اختتام پر مجھے انجمن کی کچھ مطبوعات بطور تحفہ دی گئیں جن میں سے ایک کتاب کالی داس گپتا رضا کا تاریخی ترتیب کے ساتھ مرتب اور مدون کیا ہوا ''دیوان غالب کامل'' تھا جو غالبیات کے حوالے سے میری انتہائی پسندیدہ کتاب ہے کہ آنجہانی کالی داس گپتا رضا نے اس میں وہ کام کر دکھایا ہے جو اپنی تکمیل کے لیے تقریباً ایک صدی سے انھی کا انتظار کر رہا تھا۔ غالب کے قارئین اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کا جو دیوان ان کی زندگی میں (پانچ بار) اور ان کے بعد سے درجنوں بلکہ شاید سیکڑوں بار شایع ہوتا رہا ہے وہ اصل میں کلیات یا دیوان کے بجائے ایک وسیع تر انتخاب کا درجہ رکھتا ہے کہ اس میں ان کے کہے ہوئے کل اشعار کا نصف سے بھی کم شامل ہے بعد میں مختلف نسخوں اور بالخصوص نسخہ حمیدیہ کے حوالے سے اس میں اضافے تو ہوتے رہے ہیں لیکن ''دیوان غالب کامل' کی اشاعت سے پہلے کوئی بھی دیوان ''مکمل'' کہلانے کا حق دار نہ تھا۔
غالب کی زندگی میں جو ایڈیشن شایع ہوئے وہ خود غالب یا ان کے قریبی دوستوں کے مرتب کیے ہوئے تھے جن میں ان کا بہت سا کلام بوجوہ شامل نہیں کیا گیا تھا کالی داس گپتا رضا نے نہ صرف اس محذوف اور مسترد شدہ کلام کو انتہائی عرق ریزی اور ذمے داری کے ساتھ جمع کیا بلکہ بہت زبردست تحقیق اور جاں فشانی کے بعد اسے ایک ایسی زمانی ترتیب دینے میں بھی کامیاب ٹھہرے جس سے اختلاف اگر نا ممکن ہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے جس کی تفصیل بھی کتاب میں درج کر دی گئی ہے اس ضمن میں ان کے پیش نظر 19 ماخذ رہے گیارہ ادوار پر مشتمل اس دیوان میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ 1807 سے 1867 تک کے ساٹھ برسوں میں کہے گئے کل اشعار اور دیوان کے لیے منتخب کردہ اشعار کی تعداد اور تفصیل کیا ہے۔
اس فہرست کے مطابق غالب نے اپنی زندگی میں اردو زبان میں کل 4209 اشعار کہے جن میں سے متداول وادین میں صرف 1802 اشعار شامل کیے گئے ہیں غالب کے قلم سے نکلے ہوئے اولین اشعار ایک نظم بعنوان ''مثنوی'' سے متعلق ہیں جس کا زمانہ تصنیف تقریباً 1807 ہے یعنی اس وقت غالب کی عمر دس برس کی لگ بھگ تھی جو اس نظم کے معیار کے اعتبار سے بظاہر ایک ناقابل یقین سی بات لگتی ہے لیکن میرے نزدیک اس سے کہیں زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انھوں نے 15 سے 19 برس کی عمر کے درمیانی عرصے میں جو 1734 اشعار کہے اور جن میں سے 302 ان کے دیوان کے اولین ایڈیشن میں شامل کیے گئے وہ اپنے معیار' جدت طبع' فنی گرفت' موضوعات اور انداز بیان کے حوالے سے اس قدر وقیع اور غیر معمولی ہیں کہ شاید ہی دنیا کی کسی بھی زبان میں کسی بھی شاعر نے اتنی کم عمری میں ایسی شاندار شاعری کی ہو۔