ادبی میلے
کسی مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے بازاروں میں کتابوں کی دکانوں کی تعداد کتنی ہے؟
ادب اور کتاب کے اس زوال کے دور میں کہ جب تقریباً 19 کروڑ کی آبادی والے ملک میں بیسٹ سیلر کہلانے والی کتاب بھی شاذ ہی ایک سال میں ایک ہزار سے زیادہ چھپتی ہو اور آٹھویں جماعت سے آگے تعلیم پانے والے بچوں میں سے 5% اردو کے چند جملے بھی آسانی سے لکھ یا پڑھ نہ سکتے ہوں ''ادبی میلے'' کا عنوان یقینا بہت عجیب سا لگتا ہے لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے کہ کتاب میلوں کے ساتھ ساتھ اب ادبی میلے بھی ہماری روایت کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں اور اس کا بیشتر کریڈٹ یقینا آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور اس کی افسر اعلیٰ امینہ سید کو جاتا ہے کہ جو گزشتہ چھ برس سے مسلسل کراچی میں ایک ادبی میلے کا اہتمام کرتے ہیں جس کو KLF کا نام دیا گیا ہے۔
یعنی کراچی لٹریچر فیسٹیول۔ اب اس کا دائرہ اسلام آباد تک بھی بڑھا دیا گیا ہے اور اس برس اپریل میں وہاں تیسرا سالانہ ادبی میلہ منعقد ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ کراچی آرٹس کونسل، الحمرا آرٹ کونسل لاہور اور لاہور فیسٹیول بھی پابندی سے ہونا شروع ہو گئے ہیں جو یقینا ایک بظاہر عجیب مگر خوش آئند بات ہے جہاں تک کتاب میلوں کا تعلق ہے وہ مختلف کالجوں، یونیورسٹیوں اور ادبی اور اشاعتی سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے تحت عدم تسلسل کے باوجود بہت پہلے سے منعقد ہوتے چلے آ رہے ہیں جن میں طلبہ اور عام قارئین کو خصوصی رعایتی نرخوں پر کتابیں خریدنے کا موقع مل جاتا ہے۔
کسی مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے کی ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے بازاروں میں کتابوں کی دکانوں کی تعداد کتنی ہے؟ اشاعتی اداروں کا معیار کیا ہے؟ اور وہاں ہر سال کتنی اور کیسی کتابیں چھپتی اور فروخت ہوتی ہیں؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معاملہ بہت حد تک ''دیکھا نہ جائے'' کی حدوں کو چھوتا نظر آتا ہے کہ نہ صرف اشاعتی ادارے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں بلکہ کتابوں کی بیشتر بچی کھچی دکانوں پر بھی اب کتابیں کم اور گفٹ کارڈز، چوڑیاں، بچوں کے کھلونے اور بطور تحفہ دی جانے والی اشیا زیادہ تعداد میں نظر آتی ہیں۔
درسی کتابیں مجبوری اور بچوں کی کتابیں (بیشتر غیر ملکی) اپنی دلکشی کے باعث (امیر اور با وسائل خاندانوں کی حد تک) تو گردش میں رہتی ہیں مگر ادب اور سماجی سائنسز کے حوالے سے چھپنے والی کتابیں مہینوں کسی خریدار کی چشم توجہ کی منتظر رہتی ہیں۔ البتہ مذہبی موضوعات سے متعلق کتابیں اور کسی حد تک بعض ڈائجسٹ وغیرہ ضرور بک جاتے ہیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ آج کل مذہبی موضوعات کے حوالے سے چھپنے والا بیشتر مواد فرقہ پرستی، مسالک کی باہمی آویزش اور دلوں کو جوڑنے کے بجائے تفرقہ پروری پر مشتمل ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جو ممکنہ دروازے تھے وہ بھی ہم بند کرتے جا رہے ہیں۔ اسکولوں کے سسٹم نے نہ صرف بزم ادب، لائبریریاں، کتب بینی کے شوق کی ترویج اور رسالوں کی اشاعت کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے بلکہ بیشتر انگلش میڈیم اسکولوں کے بچے تو اردو میں اپنا نام بھی ٹھیک سے نہیں لکھ سکتے۔ ان اداروں میں کتاب کا نعم البدل کمپیوٹر کو بنادیا گیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کو اس گلوبل ولیج میں آگے بڑھنے کے لیے انٹرنیشنل سماج کا حصہ بنا رہے ہیں۔ مگر وہ اس بات کا جواب نہیں دیتے کہ نیشنل بنائے بغیر آپ کسی انسان کو انٹرنیشنل کیسے بنا سکتے ہیں؟ جو بچہ اپنی زبان، تہذیب، تاریخ، روایت، ادب، فوک لور اور معاشرتی اقدار سے ہی واقف اور ہم آہنگ نہ ہو گا وہ عالمی برادری میں اپنا انفرادی تشخص (Identity) کیسے ڈھونڈ پائے گا؟
OUP یعنی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام چھٹا کراچی لٹریچر فیسٹیول جو چھ تا آٹھ فروری کو کراچی میں منعقد ہوا اور جس میں پاکستان کے علاوہ دیگر کئی ممالک کے ادیب اور لکھاری بھی شامل ہوئے مندرجہ بالا الجھنوں کے حل کی تلاش کی طرف ایک مثبت قدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس میں شریک ہونے والے ہزاروں ادب اور کتاب دوستوں میں ہر عمر اور ہر شعبہ حیات کے لوگ نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان میں اکثریت متمول اور تعلیم یافتہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی ہے لیکن اندرون سندھ اور کراچی کے نسبتاً پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی خاصی کثیر تعداد بھی پورے جوش و خروش سے اس میں حصہ لیتی ہے۔
ذاتی طور پر مجھے ان لوگوں سے مل کر زیادہ خوشی ہوتی ہے کیونکہ ان کی ادب اور کتاب سے محبت ہی وہ روشنی ہے جو اس غار کے دوسرے کنارے کے احساس اور وجود کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ انگریزی دان اور کمپیوٹر زدہ نسل کے بیشتر بچے تو ہمارے نظام تعلیم کی بوالعجبیوں اور غلط اندیشیوں کے باعث پہلے ہی اپنے قومی تشخص کے دھارے سے نکل کر ایسے ''عالمی شہری'' بنتے جا رہے ہیں جن کے لیے ان کی قومی اور مادری زبانیں صرف نوکروں سے بات چیت کرنے کے لیے ہیں۔
(واضح رہے کہ اس میں قصور ان بچوں کا نہیں بلکہ سراسر ان کے بڑوں کا ہے)
گزشتہ تین برسوں کی طرح اس بار بھی یہ میلہ ایک ایسے قدیم اور بڑے ہوٹل میں منعقد کیا گیا جس کے کھلے میدانوں اور کشادہ کالز میں بیک وقت پانچ سے چھ ایونٹ ہو سکتے ہیں۔ یوں دو اڑھائی دنوں میں تیس سے زیادہ سیشن تو ہو جاتے ہیں مگر یہ قباحت اپنی جگہ پر رہتی ہے کہ ایک یہ وقت میں ایک سے زیادہ پسندیدہ پروگراموں کے انعقاد کی وجہ سے شائقین ہمہ وقت تذبذب میں رہتے ہیں کہ کدھر جائیں اور کس سے محرومی برداشت کر لیں!
بلاشبہ یہ بات اس میلے کے اعلیٰ معیار کو واضح کرتی ہے مگر منتظمین اگر اس کا کوئی حل نکال سکیں تو اس کی افادیت اور مقبولیت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اردو اور دوسری قومی زبانوں میں لکھنے والوں کی نمائندگی میں بھی اضافہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یقینا اس مسئلے کا تعلق اخراجات سے نہیں کیونکہ تین غیر ملکی مندوبین پر اٹھنے والے اخراجات میں کم از کم بارہ پاکستانی لکھاری شامل کیے جا سکتے ہیں اس سے میلے میں قومی اور بین الاقوامی نمائندگی کا تناسب بھی بہتر ہو گا اور کئی جائز گِلے بھی دور ہو جائیں گے۔ مشتاق احمد یوسفی، جمیل الدین عالی، اسلم فرخی اور ڈاکٹر جمیل جالبی صاحبان اپنی کہنہ سالی اور جسمانی صحت کی وجہ سے اس میلے میں شامل نہیں تھے۔ یقینا منتظمین نے ان سے رابطہ کیا ہو گیا لیکن اگر افتتاحی اجلاس میں ان کو تھوڑی دیر کے لیے خصوصی انتظامات کر کے لے آیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔
میرے والے سیشن کا عنوان ''کتابی چہرے سے فیس بک تک'' تھا جس کی نظامت کے فرائض سید نصرت علی کے سپرد تھے اور شرکا میں میرے علاوہ حسینہ معین، زاہدہ حنا، اصغر ندیم سید اور نیلوفر عباسی شامل تھے۔ اس کا دورانیہ ایک گھنٹہ رکھا گیا تھا جب کہ میرے خیال میں اپنے تنوع، ندرت اور وسعت کے اعتبار سے یہ وقت بہت کم تھا کہ ابھی ہم کتابی چہرے کے ''ک'' اور فیس بک کے ''F'' تک ہی پہنچے تھے کہ اختتام کی گھنٹی بج گئی۔ اس بار سیاسی موضوعات اور شخصیات کے ساتھ ساتھ نئی کتابوں سے متعلق پروگرام پہلے سے زیادہ تھے جس کی وجہ سے نمائندہ لکھاریوں سے براہ راست ملاقات کے سیشنز کی تعداد کم رکھی گئی، جس کا تذکرہ بار بار ہوتا رہا۔
20 سے 22 فروری تک الحمرا آرٹ کونسل لاہور میں تیسرا لاہور لٹریچر فیسٹیول ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ اس کے منتظمین KLF کی اچھی باتوں سے استفادہ کریں گے اور اپنے میلے کو ایک مخصوص کلاس تک محدود رکھنے کے بجائے لکھاریوں اور قارئین کے دوسرے طبقوں کو بھی مناسب اہمیت دیں گے۔