روشنیاں ٹینکر مافیا اور ادبی میلہ

پھر آہستہ آہستہ بجلی آنا اور چلے جانا ایک روٹین میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس آنکھ مچولی کا نام لوڈشیڈنگ بتایا گیا۔


Hameed Ahmed Sethi February 15, 2015
[email protected]

مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویشن کر کے لاہور آئے تو فیض احمد فیضؔ کی نظم روشنیوں کے شہر پڑھی ؎

سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر

دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر

دور افق تک گھٹتی بڑھتی اٹھتی گرتی رہتی ہے

کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر

بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشینوں کا شہر

اے روشنیوں کے شہر

پھر طویل عرصہ گزرنے کے بعد جب ملک ایٹمی طاقت بننے کے علاوہ ترقی کی کئی منزلیں مار گیا تو سرکاری ملازمت کرتے کرتے میری بھی ترقی کی کئی منزلیں طے ہو گئیں اور ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں تعیناتی ہو گئی۔ اپنے مرے کالج والے فیضؔ کی نظم ابھی نہیں بھولی تھی لیکن دیکھا کہ شہر لاہور کے کئی علاقے اچانک تاریکی میں ڈوبنے لگے ہیں۔

پھر آہستہ آہستہ بجلی آنا اور چلے جانا ایک روٹین میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ اس آنکھ مچولی کا نام لوڈشیڈنگ بتایا گیا۔ فیض احمد فیضؔ کی نظم اب لاہور والوں نے بھلا دی لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے رہائشیوں نے بغلیں بجاتے ہوئے اس نظم کی اونر شپ کلیم کر دی کیونکہ کراچی رات بھر تو جاگتا جگماتا ہے البتہ دن میں اس کی سڑکوں پر گھومنے والے کو جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

ظاہر ہے بارہ چودہ گھنٹے کی بجلی لوڈشیڈنگ کی مستقل اذیت سے نکل کر اچانک چوبیس گھنٹے زیرو لوڈشیڈنگ والے شہر پہنچنے والے کو چکر تو آئیں گے وہی کچھ لاہور سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد کراچی پہنچنے پر ہمارے ساتھ ہوا۔ پہلے دن تو ہم بار بار گھڑی کی سوئیوں کی طرف دیکھ کر خاموش آواز میں بڑبڑاتے رہے کہ ''وہ گئی'' اور پھر ''آ گئی آ گئی'' لیکن جب بجلی کو مستقل موجود دیکھنے کی عادت ہو گئی تو دوسرے دن ہم لوگ بھی نارمل ہو گئے۔

لیکن کراچی پہنچنے کے تیسرے دن ہمارے میزبان نے ہمیں باتھ روم اور ٹائلٹ میں پانی کم استعمال کرنے اور نہانے سے گریز کرنے کی درخواست کی اور بتایا کہ پانی کا ٹینکر آئندہ روز شام کے بعد آنے تک ہم اس کے ایک دوست کے گھر منتقل ہو جائیں تو ہمیں بات کی واقعی سمجھ نہ آئی۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ گھر کی ٹینکی رات کو بالکل خالی ہو جائے گی اور صرف پینے کا بوتلوں والا پانی دستیاب ہو گا تو ہم پر اس سمندر کنارے شہر میں پانی کی عدم دستیابی کا انوکھا انکشاف ہوا کہ کراچی میں ہمارے اکثر دوست احباب ہفتہ وار پانی کی خریداری کرتے ہیں۔ ان کے گھروں میں ایک ہزار دو ہزار اور تین ہزار گیلن پانی اسٹور کرنے کے زمین دوز ٹینک اور چھت پر پانی موٹر کے ذریعے اسٹور کرنے کے لیے ٹینکیاں ہیں جہاں سے ان کے کچن اور باتھ رومز میں پانی پہنچتا ہے لیکن یہ پانی عموماً مضر صحت ہوتا ہے۔

کراچی میں ایک ہفتہ قیام کے دوران میرا جن اصحاب کے ساتھ زیادہ وقت گزرا وہ شیخ لطف الرحمن، ریاض منصوری، محمد یحییٰ، کلیم الدین اور ضیاء اللہ شیخ تھے۔ ان میں سے ایک معروف صحافی و سابق APNS صدر، دوسرے معرووف انکم ٹیکس پریکٹشنر، تیسرے انجینئر، چوتھے کسٹم افسر اور پانچویں بزنس مین تھے۔ یہ پانچوں پانچ ہزار روپے والے ہر ماہ تین یا چار واٹر ٹینکر منگواتے ہیں۔

ان میں سے دو کے گھر ایک روز پانی کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔ میرے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا کہ سمندر کے قرب کی وجہ سے شہر کراچی کا نزدیکی پانی قابل استعمال نہیں۔غیر قانونی آب گاہیں (Hydrants) بنانے والوں نے سرکاری و غیر سرکاری مدد سے ٹینکر مافیا کو جنم دے کر پالیسی سازوں کے منہ کو ایسا خون لگایا کہ اب شاید کوئی بھی بااختیار اپنے حصے کی ہڈی چھوڑنے اور کراچی میں پانی کا مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

سات فروری 2015ء کی صبح میں نے ریاض منصوری کو ٹیلیفون کیا کہ لطف الرحمن جن کے گھر میرا قیام ہے گزشتہ رات ان کا ٹینکر والا نہیں آیا لہٰذا اب میں ان کی طرف آ رہا ہوں۔ موصوف نے جواب دیا کہ ''اس کی چھت والی ٹینکی بھی خالی ہونے کو ہے، کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں ادیبوں، شاعروں، مصوروں اور دانشوروں کا میلہ لگا ہے وہ مجھے لے کر وہاں جانے کے لیے آ رہا ہے'' ٹینکر مافیا پر مغز ماری کے بعد یہ اچھی خبر تھی۔

وہ مجھے لے کر Literature Festival والے ہوٹل پہنچا۔ دل خوش ہو گیا۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں نے میلہ سجا رکھا تھا۔ قسم قسم کے Events چل رہے تھے۔ کتاب گھر میں پبلشرز نے اسٹال لگا رکھے تھے۔ ٹاک شو، مشاعرے، گائیکی، نمائشیں، ملاقاتیں، چائے، کافی، مشروبات، خوراک، سگریٹ، سگار، گپ شپ، معانقے، قہقہے یہ سب کچھ اور بہت کچھ۔ ہم دونوں ایک ٹیبل پر رکے کارٹونسٹ فیکا سے ملے اس نے ہمارے خاکے (CRICATURE) بنانے شروع کر دیئے۔ آگے بڑھے تو اسٹیج پر عاصمہ جہانگیر اور اعتزاز احسن عوامی شاعر حبیب جالبؔ کی اسکرین پر نظمیں سنواتے ملے۔ گھومنے ملنے کے دوران نجم سیٹھی، امجد اسلام امجد، قمر احمد، افضال احمد، اصغر ندیم سید، حمیدہ کھوڑو، کشور ناہید، سیدہ عابدہ حسین، زاہدہ حنا، بشریٰ انصاری اور بے شمار آرٹسٹوں سے ملاقات ہو گئی۔ یہاں پر اکثر کے ساتھ پہلی بار ملنا ہو رہا تھا۔ اس Festival میں ہندوستان سے آ کر پٹیل، بنیامین، کارتھیکا وی کے، نین تارہ سہگل، ریشما کرشن، رتومینن، سنجے لیئر، تسکا چوپڑہ آئے تھے جب کہ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، فرانس، روس اور بنگلہ دیش سے بھی مہمان ادیب شاعر اور دانشور آئے ہوئے تھے۔ ایسے مندوبین کی تعداد پونے دو سو کے قریب تھی۔ یہ تین دن 6 فروری سے 8 فروری تک کا کراچی Literature Festival کا چھٹا اکٹھ تھا جس میں شمولیت ایک یادگار ایونٹ تھا جس نے ٹینکر مافیا والا غصہ کچھ دیر کے لیے زائل کر دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں