بلوچستان سونے کی ایک چڑیا

ابھی تک تو معاملہ یہ ہے کہ ہم قدرتی خوبصورتی سے مالامال ہونے کے باوجود اس بہت بڑے ذریعہ آمدن کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔


عثمان فاروق February 11, 2015
بلوچستان کا ہزاروں ایکڑ پر محیط بیابان رقبہ انتظار کررہا ہے کہ کوئی آئے اور اسکے سینے کو جنگلات سے سجائے کہ دنیا بھر کے سیاح بھی پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: بلوچستان بدل رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پچھلے دو تین سالوں میں بلوچستان کا صوبہ پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ پرامن رہا کہ اب وہاں کے نوجوان بندوق کے بجائے قلم اٹھانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

بلوچستان میں قیام امن کے لیے ایف سی بلوچستان کا کردار بھی مثالی رہا۔ کسی دور میں بلوچستان میں بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، منشیات اور سمگلنگ عروج پر تھی لیکن آج وہاں ان جرائم میں کافی حد تک کمی آچکی ہے۔ اسکے علاوہ ایف سی بلوچستان کا ہتھیار ڈالنے والے باغیوں کے لیے عام معافی اور مراعات کا اعلان بھی نہ صرف حالات کو بہتر سے بہتر بناتا چلا جارہا ہے بلکہ آئے روز باغی ہتھیار ڈال کر پرامن شہری بن رہے ہیں۔

لیکن اب بلوچستان حکومت کو ان سب چیزوں سے آگے بڑھ کرکچھ بڑے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا صوبہ ہے لیکن وہاں آبادی بہت کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کی آبادی بمشکل ایک کروڑ ہے جبکہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہے۔ وہ بلوچ نوجوان جو آج ہتھیار ڈال کر قلم اٹھانے کو ترجیح دے رہے ہیں کل کو انکو نوکریوں کی ضرورت ہوگی۔ اُن کو ایک خوشحال مستقبل اور بنیادی سہولتوں سے مزین اور پُرامن معاشرہ چاہیئے ہوگا۔ معاشرے میں دہشتگردی تبھی پھیلتی ہے جب ریاست اپنے باشندوں کو انصاف، تعلیم اور روزگار دینے میں ناکام ہوجاتی ہے۔

بلوچستان حکومت مستقبل میں ان نوجوانوں کو ایک بہتر زندگی سے بھرپور پُرامن معاشرہ تبھی فراہم کرسکے گی جب بلوچستان حکومت کا خزانہ بھرا ہوا ہوگا۔ میں اس سلسلے میں بلوچستان حکومت کو ایک تجویز دینا چاہوں گا جس سے فقط تھوڑی سی توجہ اور سرمایہ کاری سے نہ صرف بلوچستان حکومت کی آمدن کئی سو گنا بڑھ جائے گی بلکہ پاکستان کی خوشحالی کی جانب بھی ایک بہت بڑا قدم ہوگا۔

بلوچستان میں عرب شہزادے اکثر اپنے لاو لشکر کے ہمراہ شکار کرنے آتے ہیں اور نایاب جانوروں کا شکار کرکے چلے جاتے ہیں۔ اس سارے عمل کے دوران سیاست دانوں کے ذاتی تعلقات استعمال ہوتے ہیں اور بعد میں یہ سیاستدان ان عرب شہزادوں سے اس خدمت کے عوض ذاتی نوعیت کے فوائد حاصل کرتے ہیں اور نقصان پاکستان کی جنگلی حیات کا ہوتا ہے۔ اگر بلوچستان حکومت اس سارے عمل کو انڈسٹری کی شکل دیدے تو بلوچستان میں دنیا کی سب سے بڑی مصنوعی جنگلی اور شکار گاہ بنائی جاسکتی ہے۔

اس شکار گاہ کے لیے ایک بہت بڑا مصنوعی جنگل لگایا جائے اور اس جنگل میں باقاعدہ شکار کے لیے جانوروں کی افزائش کی جائے بالکل جیسے ملک میں برائلر مرغی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتا ہے تو جدید بائیولوجیکل طریقوں سے برائلر کی افزائش میں بے تحاشا اضافہ کرلیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح تیتر، بٹیر اور تلور کی افزائش خالصتاً شکار کے لیے کی جائے۔ اس کے بعد دنیا بھر سے سیاحوں کو پاکستان آنے کی دعوت دی جائے، انہیں یہاں پُرامن ماحول اور بہترین سہولیات میسر کی جائیں۔ یقین کیجئے اگر ایسا ہوگیا تو چند سالوں میں بلوچستان نہ صرف پاکستان کا خوشحال ترین صوبہ بن جائے گا بلکہ آمدن کے لحاظ سے بھی یہ پاکستان کے لیے نعمت سے کم نہیں ہوگا۔

یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ فرانس، اسپین، چین اور ترکی صرف اپنی سیاحت کی انڈسٹری سے سالانہ اتنا کما رہے ہیں کہ وہ پورے پاکستان کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اگر بلوچستان حکومت اِس پراجیکٹ پر تھوڑی سی توجہ دے تو یہ ریکوڈک سے بھی زیادہ آمدن دے سکتا ہے کیونکہ مصنوعی جنگل لگانے یا شکار گاہ بنانے کے لیے بلوچستان حکومت کو کوئی بیرونی قرضہ یا وفاق سے کوئی خصوصی گرانٹ مانگنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک سستا ترین پراجیکٹ ہے۔ یہ پراجیکٹ دنیا کے سب سے بڑے سفاری جنگل کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔ بلوچستان حکومت سے اپیل ہے کہ زیادہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں ہے صرف گوگل پر ہی سرچ کرکے دیکھ لیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک کیسے سیاحت سے اپنے ملک کی پوری معیشت چلارہے ہیں۔

ابھی تک تو معاملہ یہ ہے کہ ہم قدرتی خوبصورتی سے مالامال ہونے کے باوجود اس بہت بڑے ذریعہ آمدن کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ بلوچستان میں دنیا کی سب سے بڑے مصنوعی جنگلی شکارگاہ ایک اچھوتا منصوبہ ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو مجھے پوری اُمید ہے کہ دنیا بھر کے سیاح چیونٹیوں کے جتھوں کی طرح پاکستان کا رخ کریںگے۔ اگر بلوچستان کی موجودہ حکومت اگلے تین سال اس کام کے لیے وقف کردے تو یقین کیجئے بلوچستان آنے والے تین سوسال تک خوشحال ہوسکتا ہے۔ بلوچستان کا ہزاروں ایکڑ پر محیط بیابان رقبہ انتظار کررہا ہے کہ کوئی آئے اور اسکے سینے کو جنگلات سے سجائے کہ دنیا بھر کے سیاح بھی پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو یقیناً یہ منصوبہ بلوچستان میں سونا برساسکتا ہے جسکے مثبت اثرات باقی پاکستان میں بھی محسوس کیے جاسکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔