دو شہروں کی کہانی

مجھے یاد آیا کہ چند برس پہلے اوریا نے اس منصوبے کے آغاز پر مجھ سمیت کچھ احباب کو مدعو کیا تھا


Amjad Islam Amjad February 04, 2015
[email protected]

برادرم اوریا مقبول جان کا فون آیا کہ الحمرا آرٹ کونسل میں Walled City Project اور پرانے لاہور کی بازیافت کے حوالے سے ایک تصویری نمائش لگائی گئی ہے جو مجھے ضرور دیکھنی چاہیے اور یہ کہ پراجیکٹ سے متعلق ایک خاتون تانیہ قریشی اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کریں گی۔

مجھے یاد آیا کہ چند برس پہلے اوریا نے اس منصوبے کے آغاز پر مجھ سمیت کچھ احباب کو مدعو کیا تھا اور ان تفصیلات سے آگاہ کیا تھا کہ کیسے دہلی دروازہ سے شاہی قلعے تک جانے والی ایک اندرونی سڑک (جس کو پرانے وقتوں میں شاہی خاندان کے افراد اور امرا' آنے جانے کے لیے استعمال کرتے تھے) اپنی قدیم شکل میں بحال کی جا رہی ہے اور ایک ایسا منظر تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

جس سے ہم نئے لاہور میں اپنے پرانے شہر کی ہوا اور فضا میں کچھ دیر کے لیے سانس لے سکیں گے اور یہ کہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی اس میں ایسی کشش ہو گی کہ وہ کچے دھاگے سے اس کی طرف بندھے چلے آئیں گے۔ میں نے اس موقع پر اپنی گفتگو میں کسی دانا کا یہ قول دہرایا تھا کہ ''ہر تخلیقی انسان کے اندر بیک وقت دو شہر موجود ہوتے ہیں ایک وہ جس میں وہ رہ رہا ہوتا ہے اور دوسرا وہ جس میں وہ رہنا چاہتا ہے'' دیکھا جائے تو یہ دونوں شہر اصل میں ایک ہی شہر کے دو روپ ہوتے ہیں۔

کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ اوریا کو اس منصوبے سے ہٹا کر کہیں اور لگا دیا گیا ہے اور اس منصوبے کی موجودہ کیفیت اور اس میں ہونے والی پیش رفت کا کچھ اندازہ نہیں، سو ہم بھی اسے بھول بھال گئے۔ کافی عرصے کے بعد ایک دن برادرم کامران لاشاری کا فون آیا باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اس مردے میں دوبارہ جان ڈالنے کے لیے ان کو خصوصی طور پر ایک نسبتاً وسیع تر پروگرام کے حوالے سے اس کا انچارج بنایا گیا ہے اور وہ اس سلسلے میں لاہور شناسوں کے مختلف نمایندوں سے مشورے کر رہے ہیں۔

جن میں کچھ منتخب لکھاری بھی ہیں مجھے وہ خصوصی مسئلہ تو یاد نہیں آ رہا جس پر بات کرنے کے لیے مجھے فون کیا گیا تھا لیکن اتنا یاد ہے کہ ان کے دفتر میں اس وقت کئی ٹور آپریٹرز موجود تھے جتنا میں کامران لاشاری' ان کے کیے ہوئے کاموں اور ان کی تنظیمی صلاحیت کو جانتا ہوں اس کے پیش نظر اس کام کے لیے ان کے چناؤ پر بے ساختہ میرے ذہن میں ایک پرانا لیکن برمحل مصرعہ گونج اٹھا کہ ''پسلی پھڑک اٹھی نگہ انتخاب کی''

گزشتہ ایک برس میں ان سے چار پانچ بار ملاقات تو ہوئی مگر ہر مرتبہ کچھ ایسا ہوا کہ بوجوہ اس موضوع پر بات نہ ہو سکی سو اب جو میں اوریا کی تحریک پر الحمرا آرٹ گیلری پہنچا تو مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہاں ہو کیا رہا ہے! پتہ چلا کہ تانیہ بی بی کامران لاشاری کے ساتھ اس منصوبے سے متعلق کسی اہم میٹنگ میں گئی ہوئی ہیں مگر ان کا اسٹاف میرے استقبال اور رہنمائی کے لیے موجود اور منتظر تھا، ان نوجوانوں کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ اس مقابلے' ایوارڈز اور نمائش کا دوسرا سال ہے اور اس میں مقامی غیر مقامی' پروفیشنل شوقیہ ملکی غیر ملکی ہر طرح کے فوٹو گرافرز حصہ لیتے ہیں اور اندرون شہر بالخصوص اس مخصوص علاقے (یہاں مخصوص سے میری مراد Walled city کا وہ حصہ ہے۔

جسے اس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے) کے مناظر' عمارات ،آرکیٹیکچر' معاشرت' ماحول اور کرداروں کی تصویر کشی کرتے ہیں اس عمل میں بعض ادارے بطور سپانسرز بھی شامل ہوتے ہیں اور آخر میں تین کیٹیگریز میں اول، دوم اور سوم آنے والوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اس بار یہ مقابلہ تقریباً تین سو منتخب تصاویر کے درمیان تھا اب میں چونکہ فوٹو گرافی کے فنی پہلوؤں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا اس لیے میری رائے بھی ماہر فن منصفین کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن سچی بات یہ ہے کہ نمائش میں شامل کئی تصاویر مجھے انعام یافتہ تصاویر سے اگر بہتر نہیں تو ان کے برابر ضرور لگیں جدید ترین ٹیکنالوجی اور تخلیقی جوہر کے استعمال سے کس طرح ان لوگوں نے Still life کو زندہ اور متحرک بنا دیا یہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا یوں سمجھئے کہ پوری نمائش میں ''کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است'' کی منہ بولتی تصویر تھی اور اس میں جو لاہور دکھائی دے رہا تھا ۔

اس کا کچھ حصہ تو ہم جیسے پیدائشی لاہوریوں کے لیے بھی ایک انکشاف کی حیثیت رکھتا تھا ،گندی اور تنگ گلیوں ٹوٹی عمارتوں' شکستہ دروازوں اور تنگ و تاریک دالانوں اور دریچوں کو ان کے کیمروں کی آنکھوں نے ایسے ایسے زاویوں سے دیکھا اور دکھایا کہ آدمی بس انھیں دیکھتا ہی رہ جائے، ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے مجھے عرب شاعر عبدالوہاب البیاتی کی ایک نظم بہت یاد آئی جس کا ترجمہ برسوں پہلے میں نے ''ایک شہر ناپید کا مرثیہ'' کے عنوان سے کیا تھا جو اصل میں انھی دو شہروں کی کہانی ہے جن میں سے ایک حال میں آباد ہوتا ہے اور دوسرا کبھی ماضی اور کبھی مستقبل کی جالیوں سے جھانکتا نظر آتا ہے، آئیے اس بات کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے کچھ دور اس نظم کی انگلی پکڑ کر چلتے ہیں۔ عبدالوہاب البیاتی کہتا ہے

مکھیوں اور لوگوں کی کثرت سے آٹھوں پہر گونجتا یہ میرا شہر ہے
میری آنکھیں اسی کی ہوا میں کھلیں
اور اس کی فصیلوں پہ پھرتے ہوئے میں نے آنکھوں سے اوجھل مناظر کو سوچا
جنھیں دیکھنے کے لیے زندگی بھر سفر کا جہنم سہا
اسی شہرمیں مجھ کو والد نے چہروں کی پہچان دی اور دکھائے مجھے
دشت میں رقص کرتے سرابوں کے چکر
نفی اور اثبات کا فرق' نیلے سمندر کے بے انت منظر
پھر مرے باپ نے مجھ کو دن رات کے انتظار مسلسل سے واقف کیا
اور دنیا کے نقشے پہ اس شہر کو ڈھونڈنے کی لگن دل کو دی
وہ طلسمات کا شہر ناپید جو ہو بہو میرے اس شہر کا عکس ہے
اُس کی آنکھوں کا رنگ اور پھیکی ہنسی بھی اس شہر سی ہے
مگر اس کے تن پر جو جلوس ہے' ریزہ ریزہ نہیں
خواب کا شہر جو بے ہنر وحشیوں کا ٹھکانہ نہیں
جو نہ ان چیتھڑا پوش آوارہ گردوں کی وحشت سرا ہے
نہ گرمی کے موسم میں ڈستی ہوئی
مکھیوں اور لوگوں کی کثرت سے آٹھوں پہر گونجتا ہے

میں نے طوالت کی وجہ سے اس کی کچھ لائنیں حذف کر دی ہیں کہ مقصد پوری نظم سنانا نہیں بلکہ اس فرق کو واضح کرنا ہے جو وقت کی بے رحم اور منہ زور گردش کے سبب دیکھے اور ان دیکھے منظروں کے درمیان ایک دیوار کی طرح چلتا رہتا ہے۔ زندہ قومیں اپنے شہروں کی تاریخ اور تہذیب کو کس کس طرح سے محفوظ کرتی ہیں' اس کے بہت سے مظاہر مجھے بچشم خود دیکھنے کا موقع ملا ہے اور میں نے وہ تھکے ہارے زوال پذیر اور مستقبل سے مایوس معاشرے بھی دیکھے ہیں ۔

جو اپنے کھنڈرات کی نمائش سے ہی رزق کشید کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ فصیل کے اندر واقع اس پرانے لاہور کے ایک حصے کی بازیافت کا یہ عمل ایک مثبت سوچ اور رویے کا ترجمان ہے۔ چند برس قبل مجھے سان فرانسسکو کی مشہور زمانہ Crooked street دیکھنے کا موقع ملا اور بے اختیار ان تخلیقی سوچ والے ذہنوں کو داد دینے کو جی چاہا جنہوں نے اس بظاہر معمولی سے مقام کو پیش کش اور پراپیگنڈے کے ذریعے ٹورسٹوں کے لیے ایک انتہائی پر کشش اور قابل توجہ منظر بنا دیا ہے جب کہ ہم نے اپنے لاہور کے شاہی قلعے جیسی شاندار اور عظیم عمارت کو ایک بے رنگ بے رس اور تکیف دہ جگہ بنا کر اسے سیاحوں کی ترجیحات سے ہی خارج کر دیا ہے۔

بدقسمتی سے ہماری بیورو کریسی میں اول تو اوریا مقبول اور کامران لاشاری جیسے تہذیب آشنا' اپنے معاشرے اور تاریخ سے کمٹڈ اور غیر معمولی تنظیمی صلاحیتوں والے افسران ویسے ہی نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں ان کو بھی سرکار تو کیا خود ان کی اپنی برادری تک ''دیوانہ'' قرار دیتی ہے سو ہم اور آپ تو یہ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ رب کریم اپنے کرم سے ان دیوانوں کی تعداد اور عمل میں برکت پیدا فرما دے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں