ٹرین کا سفر سحر اب بھی ہے

دنیا میں ذرایع مواصلات میں بہت جدت پیدا ہو چکی ہے چہار سو سائنسی ترقی کا چرچا ہے


لیاقت راجپر January 29, 2015

دنیا میں ذرایع مواصلات میں بہت جدت پیدا ہو چکی ہے چہار سو سائنسی ترقی کا چرچا ہے مگر ان نئی دریافتوں نے پرانے نظام کو دھچکا پہنچایا ہے لیکن اب بھی کچھ ایسی چیزیں ہیں جو اپنا وجود اور دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہیں جس میں ٹرین کا سفر بھی ہے جس کا سحر آج بھی باقی ہے۔

دنیا میں ریلوے کا نظام ترقی کر رہا ہے اور لوگ ٹرین میں سفر کر کے مطمئن اور خوش ہوتے ہیں مگر پاکستان میں اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کے باوجود لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ٹرین میں سفر کریں اور خاص طور پر جب سفر طویل ہو۔

جب میں چھوٹا تھا اور اکثر لاڑکانہ سے دادو کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک باڈہ کا اسٹیشن آتا ہے جہاں پر ہم ٹرین کے ذریعے جاتے تھے۔ صبح سے رات تک کئی ایکسپریس اور پسنجر (Passenger) ٹرینیں چلتی تھیں۔ آپ یقین مانیے کہ مجھے رات بھر نیند نہیں آتی تھی کہ صبح ٹرین میں سفر کرنا ہے۔ گھر سے ٹانگے پر بیٹھ کر لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن پر آتے تھے پہلے ٹکٹ خریدتے اور پھر ہرے رنگ کی لکڑی سے بنی ہوئی بنچوں پر بیٹھ کر گاڑی کا انتظار کرتے تھے۔

اسٹیشن پر ایک جگہ چائے اور کھانے کے اسٹال اس کے برابر پانی پینے کی بڑی مشین لگی ہوتی تھی تھوڑا آگے اخباروں اور رسائل کا اسٹال، اس کے درمیان اندر اسٹیشن ماسٹر کا دفتر اور اس کے برابر ٹکٹ کلیکٹر کے دفتر ہوتے۔ اسٹیشن کو ایک بڑا گیٹ اور باقی دو چھوٹے گیٹ ہوتے۔ تینوں گیٹ پر ٹکٹ چیکر کھڑے ہو جاتے تھے اور اگر کوئی بغیر ٹکٹ سفر کرتا اور وہاں سے گزرنے کی کوشش کرتا تھا تو اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا جاتا تھا کیوں کہ ریلوے کی اپنی پولیس اور پولیس اسٹیشن تھا اور الگ مجسٹریٹ ہوتا تھا جو ریلوے کے متعلق کیس چلاتا تھا۔ اگر کوئی بندہ اپنے مہمانوں کو ریلوے اسٹیشن پر خدا حافظ کہنے آتا تھا تو اسے پلیٹ فارم ٹکٹ خریدنا پڑتا تھا۔

ریلوے ٹرین کے ذریعے مختلف شہروں سے آنے والے یا جانے والے سامان کے لیے الگ لگیج (Luggage) کا بڑا کمرہ تھا جس میں سامان چڑھانے اور اتارنے کے لیے پورٹر (Porter) ہوتے تھے جن کی وردی نیلے رنگ کی ہوتی تھی جب کہ مسافروں کا سامان اٹھانے کے لیے قلی ہوتے ہیں جن کی وردی کا رنگ لال ہوتا ہے اور اس کے بازو پر پینل کا ایک چھوٹا گول پلیٹ نما بیج بندھا ہوتا ہے جس پر اس کا نمبر لگا ہوتا ہے۔

لاڑکانہ جنکشن ریلوے اسٹیشن تھا جہاں سے کراچی، کوٹری، سیہون، دادو سے گاڑیاں آ کر کوئٹہ، سکھر، روہڑی جاتی اور آتی تھیں اس کے علاوہ ایک اور لائن تھی جو قمنبر علی خان، شہداد کوٹ اور جیکب آباد ٹرین جاتی تھی۔ آنے جانے والے مسافروں کا ایک ہجوم ریلوے پلیٹ فارم پر نظر آتا تھا اور ہر مسافر کا چہرہ تقریباً خوشی سے دمکتا تھا۔ ہر طرف سے یہ آواز آتی تھی کہ چائے والا، کھویا والا، کھانے والا، بوتل والا، ریلوے اسٹیشن کی عمارت پر پلیٹ فارم کی طرف کئی بڑے پوسٹر لگے ہوتے تھے جس میں سے ایک تصویر ہوتی تھی کہ قلی سر پر سامان اٹھا کر جا رہا ہے اور مسافر اس کے ساتھ ہیں اور ایک مسافر کے ہاتھ میں پنجرے میں طوطا ہے۔

جس کے لیے عبارت میں لکھی ہوتی تھی کہMaster you have forgotten to book us all مسافروں کے لیے الگ الگ عورتوں کا اور مردوں کی انتظار گاہ ہوتی۔ اکثر عورتیں سفید اور کالے برقعے میں ملبوس ہوتی تھیں اور مسافروں کے ساتھ ایک اچھی خاصی بچوں کی لائن ہوتی تھی جسے سنبھالنا ان کے لیے بڑا مسئلہ ہوتا تھا۔ جب ٹرین کے آنے یا جانے کا وقت ہوتا تھا تو ٹانگے والوں کی آوازوں سے اور چیزیں بیچنے والوں کی آواز سے پورا ریلوے اسٹیشن گونج اٹھتا تھا اور یہ چہل پہل بڑا اچھا منظر پیش کرتی تھی۔ مسافروں کے لیے ٹرین سے سامان اتارنا اور چڑھانا ایک بڑا محنت طلب اور جلدی کا کام تھا۔ ٹرین چھوٹے اسٹیشن پر کم رکتی تھی۔

دور ہی سے ریلوے انجن کا آنا ایک خوشی کا پیغام ہوتا تھا جسے دیکھ کر مسافر اٹھ کھڑے ہوتے اور سب سے پہلے عورتوں کے ڈبے کی طرف بھاگ دوڑ شروع ہو جاتی تھی تا کہ عورتوں اور بچوں کو آرام سے بٹھایا جائے۔ پھر وہ خود اپنے لیے سیٹ کی بھاگ دوڑ کرتے تھے۔ اس وقت ریلوے ٹرین کا انجن کالے رنگ کا ہوتا تھا جس کو چلانے کے لیے گارڈ ہوتا تھا جس کا یونیفارم سفید تھا اور اس پر وہ نیلے رنگ کا جیکٹ بھی پہن لیتا تھا۔

اس کے ساتھ میں ہری اور لال جھنڈی ہوتی تھی اور سر پر خوبصورت کیپ پہنتے تھے جب گاڑی چلانی ہوتی تھی تو وہ سب سے پہلے سیٹی بجاتے تھے اور جب تیسری بار سیٹی بجاتے تو اس کے ساتھ ہری جھنڈی بھی دکھاتے جسے دیکھ کر انجن کا ڈرائیور گاڑی کو آہستہ آہستہ چلانا شروع کرتا تھا۔ جب انجن کا ڈرائیور انجن کی سٹی بجاتا جو ایک تار سے جڑی ہوتی تھی تو دل کو راحت ملتی تھی۔ پھر چھک چھک کر کے گاڑی کا چلنا اور رفتار میں تیزی آنا دل کو لبھاتا تھا، شروع میں انجن سے کالا دھواں پھر سفید دھواں نکلتا تھا ہم لوگ ریلوے اسٹیشن کے قریب رہتے تھے اور میں اکثر کہیں جانا نہ بھی ہو تو دور سے ہی ٹرین کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔

میرے نانا قادر بخش کھوکھر جو ریلوے میں ملازم تھے اور ان کے بھائی واحد بخش بھی ریلوے میں ملازم تھے اس لیے وہ مجھے اکثر وہاں گھمانے بھی لے جاتے تھے۔ نانا ریٹائرڈ ہو گئے مگر ان کے بھائی ملازم تھے جو ریلوے ٹریک بدلنے کے لیے کانٹا کھینچنے کا کام کرتے تھے جس کی کیبل زمین سے تقریباً 6 فٹ اوپر تھی اس کے ساتھ ایک اور بھی ملازم تھا جس کا کام تھا کہ جب ٹرین آئے تو ٹریفک والا پھاٹک کو کھولے اور بند کرے۔

یہ دونوں ملازم بہت اہم ہوتے تھے کیوں کہ اگر کانٹے والا غلط کانٹا بدل دے یا بدلنا بھول جائے تو بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کانٹے والا آنے اور جانی والی ٹرین کے لیے سگنل کو نیچے اور اوپر بھی کرتا ہے اگر سگنل نیچے ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ٹرین آ رہی ہے اور اگر اوپر ہو تو کوئی ٹرین نہیں آ رہی ہے۔ جب ہم گاڑی کے ڈبے میں بیٹھتے تو سب کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کھڑکی کے ساتھ بیٹھے جہاں سے وہ باہر کے نظارے کرتا رہے جہاں جہاں سے ٹرین گزرتی تو لوگ ہاتھ ہلاکر پیار سے خوش آمدید کہتے تھے۔ بہت ساری ٹرین چلتی تھیں۔

جس میں بے تحاشہ رش ہوتا تھا گاڑی چلتے ہوئے کئی چیزیں بیچنے والے آتے تھے اور مسافر ان سے چیزیں خرید کر کھاتے رہتے تھے۔ حالانکہ کھڑکیاں کھلی رکھنے سے مٹی بہت آتی تھی مگر پھر بھی لوگ اس سفر کو انجوائے کرتے تھے اور کافی لوگ گاڑی کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے۔ ٹرین میں واش رومز کی اچھی سہولت ہوتی تھی، بجلی اور پانی کی فراہمی بہتر تھی۔ گاڑی میں لگے ہوئے پنکھے اچھی خاصی ہوادیتے تھے مگر باہر سے آنے والی ہوا ہی کافی ہوتی تھی۔ ایمرجنسی میں اگر کوئی زنجیر کھینچتا تھا تو گاڑی کھڑی ہو جاتی تھی اور زنجیر کھینچنے والے سے جرمانہ وصول کیا جاتا تھا۔

اس زمانے میں روڈ اور راستے زیادہ نہیں تھے اس لیے بسیں اور کوچز نہیں چلتی تھیں اور اگر ہمیں سکھر جانا پڑتا تو یا تو ٹرین کا سفر یا پھر اریگیشن کینال (Irrigation Canal) کے ذریعے جیپ میں جاتے تھے جس کے لیے محکمہ آبپاشی سے پرمٹ لینی پڑتی تھی کیونکہ کینال کا ٹریک (Track) پتھر کی طرح مضبوط ہوتا جس پر روزانہ بالٹی سے پانی ڈالا جاتا تھا اور اس پر گاڑی چلانا ممنوع تھا اگر کوئی انحراف کرتا تو اس کے لیے جرمانہ اور سزا ہوتی تھی۔ انجن کو چلانے کے لیے کوئلہ استعمال ہوتا تھا جو پتھر کی طرح سخت ہوتا تھا جو اب ناپید ہے جیسا کہ ٹرین میں انجن کو پانی کی بھی ضرورت پڑتی تھی جس کے لیے تقریباً ہر بڑے اسٹیشن پر پانی کے بڑے چوڑے نل بنے ہوتے تھے جس سے پانی انجن میں ڈالتے تھے۔

(جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں