کراچی کا قدیم علاقہ’لیاری‘ کئی لحاظ سے مختلف پہچان کا حامل

لیاری چھوٹے پاکستان کا ایک عکس ہے۔ یہاں ثقافت کے رنگ بھی ہیں اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد کا تنوع بھی موجود ہے۔


سہیل یوسف January 27, 2015
لیاری چھوٹے پاکستان کا ایک عکس ہے۔ یہاں ثقافت کے رنگ بھی ہیں اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد کا تنوع بھی موجود ہے۔ فوٹو؛فائل

NEW DELHI: لفظ 'لیاری' کا نام لیتے ہی آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ گینگ وار، غربت، پاکستان پیپلز پارٹی، یا پھر فٹ بال اور باکسنگ جیسے کھیل لیاری کی ایک اور شناخت ہیں۔لیکن کراچی کا یہ قدیم ترین علاقہ کئی لحاظ سے مختلف پہچان کا حامل ہے۔

تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ لیاری کے باشندے کراچی میں سکونت اختیار کرنے والے اولین افراد تھے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ لی مارکیٹ پر واقع پاکستان کی قدیم ترین امام بارگاہوں میں سے ایک، امام بارگاہ بارہ معصومین ہے جہاں میروں اور تالپوروں کے عہد کے این او سی موجود ہیں جوعزاداری جلوس نکالنے سے متعلق ہیں اور اس وقت محرم کے جلوس لی مارکیٹ سے گارڈن تک جاتے تھے کیونکہ اس کے بعد شہر کی حدود ختم ہوجاتی تھی۔

کراچی کی تاریخ پر لکھی گئی ایک اہم کتاب، The Dual City: Karachi During the Raj میں معروف آرکیٹیکٹ، یاسمین لاری لکھتی ہیں کہ 1890 تک لیاری کی آبادی 24,600 افراد تک جا پہنچی تھی۔ ان اعداد و شمارسے ثابت ہے کہ پاکستان بننے سے قبل ہی لیاری گنجان آبادی کا حامل علاقہ تھا۔ آج بھی لیاری میں کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ رہتا ہے اور غالباً پورے کراچی میں یہ فی مربع کلومیٹر سب سے ذیادہ آبادی رکھنے والاخطہ ہے۔

لیاری سے شہرت پانے والے اور پاکستان کا نام بلند کرنے والے بہت سے نام ہیں۔ ان میں محمد حسین شاہ (اولمپیئن باکسر)، عمر بلوچ، غلام عباس اور اُستاد قاسم(فٹ بالرز) واجہ غلام محمد نورالدین(ماہرِ تعلیم)، سید سجاد علی شاہ (سابق چیف جسٹس)، واجہ خیر محمد ندوی(قرآنِ کریم کا بلوچی زبان میں ترجمہ کرنے والے عالمِ دین) اور سکندر بلوچ (باڈی بلڈنگ میں سابق مسٹر پاکستان) ان میں سے چند مشہور شخصیات ہیں۔ تاہم لیاری کی تاریخ اور تعارف ان چند ناموں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔

اپنی بیماری کے آخری ایام میں قائدِ اعظم محمد علی جناح، ماڑی پور ہوائی اڈے سے کراچی آرہے تھے کہ ان کی گاڑی اچانک خراب ہوگئی اور یہ مقام کھارادر جماعت خانے کے آس پاس تھا۔ قریب ہی مہاجرین کی خیمہ بستیاں موجود تھیں۔ یہاں کے افراد کو جب اپنے محبوب قائد کی موجودگی کا علم ہوا تو ان کی مدد کو دوڑے۔

لیاری کی قدیم باشندوں نے مالی مشکلات کے باوجود ہندوستانی مہاجرین کو خوش آمدید کہا اور اپنے علاقے میں جگہ دی۔ صرف یہی نہیں جب 1948 میں جب قائدِ اعظم محمد علی جناح اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو لیاری کے ایک باشندے نورمحمد بلوچ نے ان کی قبر تیار کی اور انہیں لحد میں اتارا۔ اس کے بعد پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی تدفین بھی نورمحمد بلوچ کے خاندان نے ہی انجام دی۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد بھی حکومتی اہلکار وں نے مارواڑی قبرستان کی انچارج زلیخا بی بی کی خدمات کو بھی سراہا جنہوں نے قائدِ اعظم کی قبرتیار کرنے کے انتطامات کئے تھے اور اس کے بعد زلیخا بی بی کو ان کی خدمات میں اعترافی سرٹیفیکیٹ بھی دیا گیا تھا۔



کھیلوں کے شعبے میں بڑے نام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ لیاری علمی اور ادبی مرکز بھی رہا ہے۔ برصغیر کے ممتاز شاعرفیض احمد فیض کو لیاری سے عشق تھا اور 1970 عشرے میں وہ لیاری کے عبداللہ ہارون کالج سے وابستہ رہے اور 1972 سے 1973 تک کالج کے پرنسپل رہے۔

بلوچی اور اردو زبان کے شاعر ظفر علی ظفر نے بتایا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ فیض صاحب اس (عبداللہ ہارون) کالج سے وابستہ رہے۔ وہ (فیض) کراچی کے علاقے نرسری سے سفر کرکے لیاری آتے تھے تاکہ وہ اس کالج کو اپنی خدمات پیش کرسکیں جو ان کے دل کے بہت قریب تھا۔

ظفرعلی ظفر نے کہا کہ انہیں شاعری کی طرف متوجہ کرنے والے فیض صاحب ہی تھے۔ 'یہاں تک کہ انہوں نے میرے لیے کئی نظمیں منتخب کیں تاکہ میں انہیں ریڈیو پاکستان کے مشاعرے میں پڑھ سکوں۔ فیض احمد فیض کی وفات کے بعد کئی عشروں تک لیاری میں ادبی سرگرمیاں جاری رہیں۔ 'لیاری میں علمی اور ادبی سرگرمیوں اور مباحثوں کا ایک ایک بڑا مرکز عباس علی زہمی اکیڈمی بھی تھی اور یہاں غنی نقش اور حسن علی حسن جیسے نامور شعرا موجود تھے،' ظفر نے کہا۔

محمد بیگ بلوچ کا تعلق بھی لیاری سے ہے۔ آپ بلوچی زبان، تہذیب اور ثقافت پر اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ محمد بیگ بلوچ نے اردو، انگلش، سندھی اور فارسی کی کئی اہم کتابیں تصنیف کرنے کے علاوہ کئی کتابوں کا بلوچی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔

علم و ادب کے ساتھ ساتھ لیاری علاقائی سیاست کا مرکز بھی رہا ہے۔ یہاں واقع تاریخی مدرسہ مظہرا لعلوم نے پاکستان بننے سے قبل تحریکِ خلافت سمیت برطانوی راج کیخلاف جدوجہد میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ لیاری کے ایک اور رہائشی قادر بخش رند بلوچ عرف قادو مکرانی ایک حریت پسند گزرا ہے جو انگریز مخالف جذبات اور اقدامات کی وجہ سے رابن ہڈ کی طرح مشہور ہوا۔ اسے 1887 میں چاکیواڑہ کے علاقے میں پھانسی دی گئی تھی لیکن بعض حوالوں کے مطابق قادو کو بھاری پتھر سے مارا گیا تھا۔ قادو مکرانی کی جدوجہد پر ایک فلم 'جاگ اٹھا انسان' 1966 میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں محمد علی اور زیبا مرکزی کردار تھے جبکہ وحید مراد نے قادو مکرانی کا کردار ادا کیا تھا۔

لیاری کا علاقہ بحالیِ جمہوریت کے لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ صدر ایوب خان کے مارشل لا کے دنوں میں یہاں کے مشہور ککری گراؤنڈ میں جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی اے آر ڈی تحریک کے اہم پروگرام منعقد کئے جاتے رہے۔

قریباً اایک سو سال قبل لیاری اونٹوں کی دوڑ کا اہم مرکز بھی رہا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ لیاری سے کئی اونٹ آسٹریلیا بھی منتقل کئے گئے تھے بلکہ لیاری کو دیگر ممالک میں اونٹوں کی تجارت کے مرکز کا درجہ بھی حاصل تھا۔

دوست محمد بروہی اور جوراک وہ تاجر تھے جنہوں نے اونٹوں کو بلوچستان کے راستے افغانستان سے آسٹریلیا منتقل کیا تھا۔ یہ اونٹ دخانی انجن والے بحری جہازوں کے ذریعے بھجوائے گئے تھے۔دوست محمد بروہی کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے۔ وہ 1870 میں پیدا ہوا تھا اور 1883 میں اونٹوں کی تجارت کے سلسلے میں پہلی بار آسٹریلیا گیا تھا۔

آسٹریلیا آمدو روفت کے دوران اسے ایک برطانوی لڑکی اینی (Annie) سے عشق ہوگیا اور 1896 میں اس نے اینی سے شادی کرلی تاہم دوست محمد بروہی آسٹریلیا کی طرزِ زندگی کو قبول نہ کرسکا اور اس کا اپنی بیوی سے جھگڑا رہنے لگا 1909 میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ اینی کے بھائیوں نے مل کر بروہی کو قتل کردیا۔ اس کے بعد بروہی کے اہلِ خانہ نے اینی کو کراچی آنے کی دعوت دی اور یہاں دوست محمد کے بھائیوں نے اسے قتل کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے بھائی کی موت کی وجہ اینی ہی ہے۔ بہت وقت گزرگیا پھر 1993 میں اینی کی نواسی، جین گرنارڈ اپنی نانی کی قبر کی تلاش میں کراچی آئی اور اس نےبڑی کوششوں کے بعد اینی کی قبر معلوم کرلی جو آج کلفٹن میں موجود ہے۔

لیاری میں رضاکاروں کی جانب سے اسٹریٹ اسکول ایک عرصے تک مشہوررہے۔ یہاں پر اے آر ایم اور کرن اسکول ہشت (آٹھ) چوک اور بغدادی میں ایک عرصے تک سڑکوں پر بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے رہے ہیں۔ منشیات اور جرائم لیاری کی شناخت کبھی نہیں رہے۔ یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے 'لیاری نوجوان تحریک' قائم کی تاکہ علاقے میں جرائم اورمنشیات کے خلاف نوجوانوں میں شعور اجاگر کیا جاسکے۔ اس تحریک کو ڈرگ مافیا کی جانب سے مزاحمت اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کاوش سے مزید غیر سرکاری تنظیمیں آگے آئیں اور انہوں نے بھی لیاری کی تعلیم اورترقی میں اپنا کردار نبھایا۔

لیاری کے ایک مقامی باشندے، ایم وائے بلوچ کے مطابق لیاری میں اصل مسئلہ معاش کا ہے۔'تمام سیاسی جماعتیں اور سابق حکمراں جماعت بھی لیاری کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں اور انہوں نے صرف خالی وعدے ہی کئے ہیں۔' لیاری کے رہائشی بتاتے ہیں کہ 1970 کے عشرے میں لیاری ندی کا پانی کئی مقامات پر اتنا شفاف تھا کہ یہاں مچھلیاں تیرتی نظر آتی تھیں اور اب یہ ایک گندے نالے میں تبدیل ہوچکی ہے۔

لیاری چھوٹے پاکستان کا ایک عکس ہے۔ یہاں ثقافت کے رنگ بھی ہیں اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد کا تنوع بھی موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لیاری کو دوبارہ امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ہر خاص و عام اپنا کردار ادا کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں