بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
ہماری دعا ہے اللہ عمران کے گھر میں آئی ’’تبدیلی‘‘ میں خیروبرکت عطا فرمائے
KARACHI:
صوبہ خیبرپختونخوا گلا گزار تھا۔ وہ جس کو لوگوں نے اپنے رہنما کے طور پر چنا تھا، منتخب ہونے کے بعد اس رہنما نے عوام سے ناتا توڑ لیا تھا۔ مانسہرہ میں طالبات کے ساتھ زیادتی ہوئی، ستم زدہ والدین منتظر ہی رہے کہ ہمارا لیڈر آئے گا، مگر وہ نہیں آیا۔ دہشت گرد عبادت گاہیں بموں سے اڑاتے رہے، بازار اجاڑتے رہے، بے گناہ لوگوں کو مارتے رہے اور ان کا ''دل جانی'' اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھا رہا، میوزک بجتا رہا، رقص ہوتا رہا، تالیاں بجتی رہیں اور صوبہ خیبرپختونخوا جلتا رہا روئی کے گالوں کی طرح عمارتیں، انسانی اعضا فضا میں بکھرتے رہے۔
طویل ترین دھرنے کا عالمی ریکارڈ بنانے کی دھن میں مگن لیڈر پارلیمنٹ کے ساتھ اپنا کنٹینر سجائے بیٹھا رہا حتیٰ کہ 16 دسمبر 2014 کا دن آن پہنچا۔ وہ دن جو دنیا والوں کو قیامت تک یاد رہے گا۔
اسکول کے معصوم بچے گھروں سے نکل رہے تھے، ان کی مائیں آخری بار بچوں کو پیار کرتے ہوئے دعاؤں کے ساتھ اسکول کے لیے رخصت کر رہی تھیں اس بات سے بے خبر کہ چند ساعتوں کے بعد کیا ہونے والا ہے اور پھر وہ ساعتیں بھی آن پہنچیں۔ اپنے منصوبے کے مطابق سفاک ترین دہشت گرد آرمی پبلک اسکول پشاور پہنچ گئے، پھر جو قیامتیں گزریں، ساری دنیا جانتی ہے۔ معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، ذبح کیا گیا، اسکول کی پرنسپل آگے بڑھی تو انھیں زندہ جلا دیا گیا۔ 132 طلبا اور 20 اساتذہ شہید ہوئے۔
یہ قیامت صغریٰ تھی، جس نے صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام کے محبوب رہنما کو آخر مجبور کردیا کہ وہ دھرنا ورنا چھوڑ کر اپنے عوام کے پاس جائے۔
اور پھر وہ گیا تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھا،دکھ کی اس گھڑی میں سب سر جوڑ کر بیٹھے۔ 152 طلبا و اساتذہ نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے سب کو ایک کردیا۔
عمران خان صوبہ خیبرپختونخوا پشاور پہنچا تو خیبرپختونخوا اپنے محبوب رہنما کو بہتے آنسوؤں، ہچکیوں، سسکیوں کے ساتھ مل رہا تھا اور بس ایک ہی بات ان کے لبوں پر تھی ''بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔''
عمران خان کا کہنا ہے کہ اب وہ صوبہ خیبرپختونخوا میں پورا وقت دے گا۔ صوبے کو مثال بنا دے گا۔ پولیس میں مزید بہتری کے ساتھ اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور پورے صوبے کی سڑکیں، گلیاں، سیوریج، صاف پانی کی فراہمی، گیس بجلی و دیگر سارے مسائل حل کرنے کے لیے تن من ایک کردے گا۔ چلو دو سال بعد ہی سہی مگر ''دیر آید درست آید۔'' اب بھی تین سال باقی ہیں، اگر اپنے کہے کے مطابق عمران خان نے اپنے صوبے کو وقت دے دیا، تو یہ خود عمران خان کے حق میں بھی بہت بہتر ہوگا۔ زخموں سے چور چور خیبرپختونخوا کپتان کی ''واپسی'' پر اسے خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ کپتان کا مزید کہنا ہے کہ ''اب صوبہ خیبرپختونخوا میں تبدیلی آئے گی'' اور پھر بڑے خوشگوار موڈ میں یہ بھی کہا کہ ''تبدیلی تو اس کے گھر میں بھی آگئی ہے۔''
ہماری دعا ہے اللہ عمران کے گھر میں آئی ''تبدیلی'' میں خیروبرکت عطا فرمائے اور مزید دعا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے غریب، مصیبت زدہ، گھروں سے بے گھر، صوبہ در صوبہ ہجرتوں پر مجبور عوام کی مشکلات حل کرنے میں اللہ عمران کی مدد فرمائے (آمین)۔ میں نے کم ازکم دس کالم اسی موضوع پر لکھے جن میں عمران خان کو مخاطب کرکے کہا تھا ان کالموں کا لب لباب پھر سے دہراتا ہوں ''عمران خان! وزیر اعظم پاکستان بننے کا راستہ صوبہ خیبرپختونخوا سے ہوکر جاتا ہے۔
اگر تم اس پسماندہ ترین صوبے میں کامیاب ہوگئے اور صوبے میں تبدیلی لے آئے، تو تمہیں وزیر اعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا، دیکھو کپتان! یاد کرو 1992 کا کرکٹ ورلڈکپ ابتدائی تین میچوں کے بعد ہم ورلڈ کپ کی دوڑ سے نکل چکے تھے اور بات معجزوں اور دعاؤں پر آگئی تھی، تب تم نے ہاں! کپتان! تم نے بیان دیا تھا ''ابھی بھی ہم ورلڈکپ کی دوڑ سے باہر نہیں ہوئے'' کپتان! تمہارا یقین محکم، عمل پیہم ہی تھا کہ معجزہ ہوگیا اور انگلینڈ کی ٹیم بارش کی وجہ سے ایک قیمتی پوائنٹ سے محروم ہوگئی، اور دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو ہرا دیا، پھر جو باقی میچ ہم نے کھیلے تو پلٹ کر نہ دیکھا۔ جاوید میاں داد کا تجربہ، نوجوان انضمام الحق اور وسیم اکرم کا کھیل اور خود تمہارا ون ڈاؤن پوزیشن پر بیٹنگ کرنے کا فیصلہ۔ کپتان! تمہارا یقین محکم، عمل پیہم ہی تھا کہ تم فاتح عالم بن گئے۔
آج بھی جاوید میانداد کی صورت تمہارے پاس جاوید ہاشمی ہے (اس وقت جاوید ہاشمی تحریک انصاف میں شامل تھے) انضمام اور وسیم اکرم کی صورت اسد عمر اور ولید اقبال ہیں۔ کپتان! اپنی سیاسی ٹیم کو لے کر 1992 ورلڈ کپ والی اسپرٹ کے ساتھ صوبہ خیبرپختونخوا میں تبدیلی لے آؤ۔ پشاور کو پیرس بنادو (پشاور کو پیرس بنانے کا بھی عمران خان نے کہا تھا)۔ کپتان! تم اور تمہاری ٹیم حویلیاں کی گلیاں پختہ کراتے نظر آئے۔ مانسہرہ، میانوالی، بنوں کی سڑکیں بنوائے، ریت بجری کے ڈھیر پر بیٹھے، نقشے پھیلائے انجینئرز کے ساتھ مذاکرات کرتے نظر آؤ۔ پشاور کو پیرس بنا دو۔ بس تم اپنے صوبے میں ہی رہو۔ تم یہاں کامیاب ہوگئے تو پورا پاکستان بھی تمہارا ہوجائے گا۔''
مگر کپتان! تم پر میرے کالموں کا اثر ہونے میں دو سال کا عرصہ لگا، اور اب تم وہی کہہ رہے ہو، جو میرے دل کی آواز ہے۔ خیر چلو جو ہوا سو ہوا، اب اپنے کہے پر عمل کے لیے دل و جان سے لگ جاؤ۔ بے گھر عوام تمہارے منتظر ہیں، بے روزگار عوام تمہارے منتظر ہیں، دہشت گردی کا شکار صوبہ تمہارا منتظر ہے۔ تم کچھ ایسا کرجاؤ کہ خیبرپختونخوا کے لوگ روزی روزگار کے لیے دوسرے صوبوں کا رخ نہ کریں۔ کپتان! اگر تم نے ایک ہی صوبہ اور اس کے عوام کے دل فتح کرلیے تو یہ دنیا بھر میں مثال بن جائے گی اور تم امر ہوجاؤگے۔ تم میں وہ جذبہ ہے کہ تم ایسا کرسکتے ہو۔