لوک فنکار جب مرتے ہیں

مغرب کا لوک فنکار کوڑی کوڑی کو محتاج نہیں ہوتا مگر ہمارے لوک فنکار نان شبینہ کو محتاج ہوجاتے ہیں


نادر شاہ عادل January 27, 2015

KARACHI: آج سائیں سلیمان شاہ یاد آگئے۔ پہلے پوچھیے کون سلیمان شاہ؟ فراموش نگر کی اس جمہوری سلطنت میں کسے یاد ہوگا کہ کون ہتھیلیوں سے تالیوں کا انوکھا نمونہ پیش کرتا ، جھومتا رقص کرتا ،دھمال ڈالتا اور گھنگروؤں کی جھنکار سے سٹیج کو گرماتا رہتا تھا۔ وہ سلیمان شاہ جو عارفانہ اور عشقیہ کلام کو داستان گو کے سریلے اور نرالے ڈھنگ سے پیش کرتا تھا۔ جس کا بوسکی کا کڑھائی دار لمبا کرتا، سفید شلواراور گنگھریالے بال اس کے فن کو منفرد بناتے تھے لیکن پہلے کچھ داناؤں کے اقوال سنیں جو لوک موسیقی کے بارے میں ہیں۔

کسی درد مند کا قول ہے کہ بڑا گلوکار مرجائے تو ایک صنعتی عہد اپنے بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ اختتام کو پہنچتا ہے،جیسا مائیکل جیکسن کے دی اینڈ پر ہوا۔ مگر ایک لوک فنکار دنیا سے اکیلا رخصت ہو تو دھرتی اس کے اور اپنے نصیب کو روتی ہے۔'' لوئس آرمسٹرانگ کا کہنا ہے کہ ساری موسیقی لوک موسیقی ہے ، میں نے کسی گھوڑے کو گانا گاتے نہیں دیکھا۔

یہ سنا کہ ثقافت کی ساری جڑیں لوک موسیقی میں پیوست ہیں۔ عظیم گلوکار جان ڈائلن کہتا ہے میں نے لوک موسیقی میں دلچسپی لینا شروع کی کیونکہ میں اس کا کوئی ''شو'' کرنا چاہتا تھا۔ ایک پتے کی بات کسی نے کہی کہ لوک فنکاروں کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ عاجزی سے پیش آئیں، یہ تربیت ان کے مزاج، روح، طبیعت اور رویے میں رچ بس جاتی ہے، مگر بعض اوقات مجھے سوچنے میں دشواری ہوتی کہ ایک نارمل ہٹ گانے کے مقابلے میں میری کیا حیثیت ہے، مجھے کوئی سنتا بھی ہے ؟ مشہورومعروف گلوکاروموسیقار بونوBono کہتا ہے کہ پاپ میوزک کو میں کتنا پسند کرتا ہوں اور کیوں میری اس میںدلچسپی قائم ہے،اس کا جواب یوں دیتا ہے کہ پاپ موسیقی اپنے اختتام پر ہماری لوک موسیقی بن جاتی ہے۔

ان چند اقوال کے بعد پاکستان کی لوک موسیقی کے بہتے آنسو دریا کا حال دیکھیے جس میں بد نصیبی ،احساس محرومی، غربت و گمنامی کے کئی دلگداز واقعات کوزے میں بند ہیں ، مغرب کا لوک فنکار کوڑی کوڑی کو محتاج نہیں ہوتا مگر ہمارے لوک فنکار نان شبینہ کو محتاج ہوجاتے ہیں ۔ کئی تھے جن سے ہماری رسم و راہ تھی یا ان کا نام سنا تھا، ان کے فن سے آشنا تھے۔ جنہیں ان گناہگار آنکھوں نے عروج کے بعد زوال نصیب پایا اور آخر میں ایڑیاں رگرتے ہوئے مرتے دیکھا ان کا قصہ حاضر خدمت ہے ۔

یہ ایک ایسے مکار کاروباری معاشرے کی کہانی ہے جس میں ایک طرف پرفارمنگ فنکار کروڑوں میں کھیلتا ہے اور دوسرے کا بیٹا مرجائے تو فنکار کے پاس کفن کے پیسے بھی نہیں ہوتے، بات صرف فنکاروں تک محدود نہیں کھلاڑی ، اساتذہ، دانشور، سماجی کارکن ، بے لوث سیاسی ورکر اور اپنے شعبے کے منفرد اسکالرز بھی ریاستی وحکومتی بے حسی کی درد ناک کہانی کے کردار ہیں، ماضی کے ایک خستہ حال باکسر اور دوسرے فٹبالر کو عید سے سات دن پہلے کسی مخیر شخص نے دس دس ہزارکا عطیہ بھیجا تو ان کے آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ کیا یہ خوشی کے آنسو تھے؟ اس سوال پر فضائے ثقافت کے سارے گدھ لب بستہ رہیں گے، اس دن سے آج تک کئی لوک فنکار چشم پوشی کی نذر ہوگئے۔ یوں بھی شوبز کی دنیا سے بڑھ کر ریاکار ، دغا باز ، مطلبی اور بے وفا کسی اور کو نہیں دیکھا۔ کئی فنکاروں نے فریاد کی کہ

اے کاش ہم اس ملک کے فنکار نہ ہوتے

مشہور لوک فنکار سید سلیمان شاہ جب اندرون سندھ سے نقل مکانی کر کے 1963-64ء میں کراچی پہنچے تو خوبصورت تھے، ادھیڑ عمر میں رقص وموسیقی کی بہار لے کر ان کا میوزیکل گروپ رات دس بجے لیاری کے علاقہ بغدادی سیفی لین میں وارد ہوا، وہ بندہ پرور لیاری تھی۔ غریب نواز۔اب اس کی روح اجڑے ہوئے دیار کی طرح گلی کوچوں میں بھٹک رہی ہے ۔آجکل گینگ وار گروپ ، پولیس اور رینجرز سے دوبدو مقابلہ کررہے ہیں ۔دستی بم ، آوان گولے گر رہے ہیں، لیاری کے کرمنلز کے ساتھ ساتھ بیگناہ نوجوان بھی مارے جارہے ہیں ، جن کی صدا سندھ کے ''مقبوضہ'' میڈیا میں سنائی نہیں دیتی ۔

سائیں سلیمان شاہ بلوچی زبان کے صوفی شاعر سید ملنگ شاہ ہاشمی کے سالانہ عرس کے موقعے پر اسلم بلوچ، بالاچ اور غلام علی مرحوم کی مشترکہ کوششوں سے اپنے دلنشیں فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہل لیاری کے دل جیتنے لگے ، جہاں غربت ، قناعت اور مروت اس کی شناخت تھی ۔ پر امن و بے خوف گلیاں تھی ۔ یہیں پہلی بار سلیمان شاہ کی آواز گونجی ''اساں کوں عشق مریندا ڈھولن ول ول قتل کریندا ۔'' سائیں کی منفرد گائیکی، شوخ کھنکتی مترنم آواز ، ہتھیلیوں سے تالیوں کی مدھر اور بلا کی تال میل رکھنے والی تکنیک اور رقص کے صوفیانہ انداز پر لوگ سر دھن رہے تھے، خواتین گھروں کے سامنے بیٹھ کر ان کا گانا سن رہی تھیں۔

لوگ اس طرز گلوکاری اور رقص کے لوک امتزاج سے واقف ہی نہ تھے، لیاری وہ وسیع المشرب علاقہ ہے جہاں زیادہ بلوچی بولی جاتی ہے،مگر سلطان راہی ، مصطفیٰ قریشی،رنگیلا اور الیاس کشمیری برس ہا برس یہاں مقبول رہے۔ سلیمان شاہ کا طوطی بول رہا تھا ، وہ دریا آباد اور پھر لیاری ڈگری کالج کے نزدیک قیام پزیر رہے، ان کے ساتھ ہارمونیم پر جو شخص تھا اس کا کمال فن بھی دیدنی تھا، ڈھولک پر استاد بچل نظر آئے۔ بعد میں سلیمان شاہ کراچی سٹیج پر نمودار ہوتے رہے، ثقافتی طائفوں کے ساتھ غیر ملکی دوروں پر گئے۔

پھر پی ٹی وی اور فلمی صنعت میں سندھی فلموں کا در کھلا اور وہ لیاری سے زیادہ وہاں مصروف ہوگئے، مگر شہرت ومقبولیت نے کروٹ بدلی تو سائیں کو لیاری سمیت سارا ملک بھول گیا۔ کون سائیں ،کون سلیمان شاہ ؟خود میرے ضمیر پر ایک شخص نے زور سے تھپڑ رسید کیا جب میں نے ان سے دریافت کیا کہ سائیں کہاں ہیں تو اس نے برا سا منہ بنا کر کہا ''واہ سائیں واہ ۔ وہ تو کب کا قبر میں سو رہا ہے۔''نور محمد لاشاری جیسا ''لوک'' اداکار چپکے سے آغوش لحد میں جا سویا۔

فیض محمد بلوچ عرف فیضک عظیم ترین بلوچ لوک فنکار تھے۔ ان کا گیت ''ماہ رنگیں پری لیلی تئی چم کجّلاں'' '' کشتا منا گلا باغ ِبلبلا'' اور ''لیلیٰ او لیلیٰ بیا ترا براں سیلا مزاجئیں لیلیٰ''، '' منی مسقطے مہرو تئی محبتاں گاراں'' سمیت سیکڑوں گانے کلاسیکی، پاپ اور جاز کے مدھم و پرشور دھنک رنگوں اور ردھم سے معمور تھے۔ وہ سٹیج پر اوپیرا کے سے کمالات کے ساتھ شاعری کو چہرے اور بلوچی ڈانس کی آمیزش سے اسی سطح پر لے جاتے تھے جو مائیکل جیکسن اپنے 50 کے لگ بھگ محو رقص ہمنواؤں کے ساتھ سامعین کے دلوں میں ہلچل مچاتے، عطا شاد کا کہنا تھا کہ وہ ون مین شو کا ایسا منفرد فنکار تھا جس کے گیت میں پورا بلوچستان بولتا اور رقص کرتا تھا ۔

اب وہاں رقص بسمل جاری ہے۔ فیض بلوچ نے 1900ء میں قصرقند ( بلوچستان) کے ایرانی سرحد کے قریب علاقے میں جنم لیا ، انڈیا کے ماسٹر ملارامی سے تربیت لی ۔ ماسٹر خیر محمد سے سندھی کلام گانے کے اسرار و رموز سیکھے اور طنبورہ ان کا ٹریڈ مارک بن گیا، پگڑی پہن کر سٹیج پر یوں رقص کرتے اور شائقین کا دل موہ لیتے کہ جب تک گانا ختم نہ ہوتا کیف وسرور میں آئے مشتاقان فن کی تالیوں کی گونج نہ رکتی۔ کافی عرصہ قبل لیاری آکر آباد ہوئے، شاہ بیگ (گتی) لین کے جمعدار خداداد کے ہوٹل میں محفل جماتے ، ان کی تان سریلی اور روح میں اتر جانے والی تھی۔

بلوچی زہیریگ (المیہ حکایات و روایات ) سناتے تو آنسوؤں کی لڑیاں لوگوں کی آنکھوں سے رواں ہوتیں۔ ملکوں ملکوں گھومے، پاکستان کا نام روشن کیا، ان گنت ایوارڈز ، اعزازات ،اسناد اور پرائڈ آف پرفارمینس کے حقدار ٹھہرے۔ پھر کھارادر کے علی دینا اسپتال میں بے یارو حکومتی مددگار بستر پر لیٹے تھے کہ میں ان کے قریب بیٹھ گیا، مساوات کا جونیئر رپورٹر تھا، ''خدا کی بستی '' کے مصنف شوکت صدیقی اس کے ایڈیٹر تھے، فیض محمد کا جواں سال بیٹا بینجو نواز تاج محمد تاجل باپ کے سرہانے اداس بیٹھے تھے، فیض محمد نے آنکھیں کھولیں ، مشکل سے مسکرائے ، وش اتک ( خیر مقدم ) کیا، لاغر و کمزور تھے ۔

کتھا شروع ہی کی تھی کہ بدنصیبی اور تنگ دستی نے ''اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو'' کا منظر نامہ پیش کردیا۔ ان کی غیر متحرک اور چمک سے محروم آنکھوں میں ہر غم پنہاں تھا ، دل میں سب ہی داغ تھے بجز داغ ندامت ۔ افسردہ ہوکر لڑکھڑاتی زبان میں کہا واجہ ! یہ سارے میڈل ، بلیزر ، انعامات بازار میں بیچ دو تاجل کو کچھ پیسے مل جائیں گے۔ ڈاکٹروں کی فیس ادا کرنی ہے۔ یہ اس بے کس فیض محمد بلوچ کا قصہ ہے جسے سٹیج پر فیض صاحب نے بھی سنا تھا۔ یہ 1974 کا قصہ ہے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں