وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ

ایک ایسا حصہ جس پر ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ کا تبصرہ بڑا برمحل اور موزوں معلوم ہوتا ہے


Amjad Islam Amjad January 25, 2015
[email protected]

وقت یا زمان یا Time ایک ایسی گنجلک پہیلی ہے جسے جتنا سلجھانے کی کوشش کرو یہ اتنا ہی مزید الجھتی چلی جاتی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں بالعموم اور نظم مسجد قرطبہ کے پہلے بند میں بالخصوص اس کی بوقلمونی پر بڑے فلسفیانہ مگر خیال افروز انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اگرچہ ایک جگہ انھوں نے اسے ''ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات'' بھی قرار دیا ہے۔ مگر یہاں انھوں نے ''سلسلہ روز و شب'' کو ایک منفرد حقیقت کی شکل میں دیکھا اور بیان کیا ہے

سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلۂ روز و شب اصل حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز و شب، صیرفیٔ کائنات
تو ہے اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات موت ہے میری برات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں ہے ثبات، کار جہاں بے ثبات

اگرچہ اس نظم کے باقی سات بندوں میں اس کار جہاں کی بے ثباتی میں ثبات کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں مگر آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ

اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا

گزرتا ہوا وقت دریا کے پانی کی طرح کبھی لوٹ کے نہیں آتا سو اس کا ایک ایک لمحہ موجود ہونے کے باوجود ایک اعتبار سے ''نایاب'' ہے کہ کوئی اسے دوسری بار نہیں جی سکتا کیونکہ

جو ہوا جا چکی اب نہیں آئے گی
جو شجر ٹوٹ جائے وہ پھلتا نہیں
واپسی موسموں کا مقدر تو ہے
جو ''سماں'' بیت جائے، پلٹتا نہیں

وقت کے بارے میں یہ تصورات فلسفیوں، صوفیوں، دانش وروں اور تخلیقی فن کاروں کے یہاں تو طرح طرح کے پیرایوں میں ملتے ہیں لیکن مذاہب اور بالخصوص اسلام کے حوالے سے اسے تقدیر کے پیکیج کا ایک حصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

ایک ایسا حصہ جس پر ''ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے'' کا تبصرہ بڑا برمحل اور موزوں معلوم ہوتا ہے لیکن گزشتہ جمعے کی نماز سے پہلے اس موضوع پر مولوی صاحب کا وعظ سن کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ انھوں نے اسے فنا پذیری اور تقدیر کے جبر سے ہٹ کر انسانی زندگی کے عملی پہلوؤں اور ایسے تاریخی حوالوں کے ساتھ بیان کیا جس کی فی زمانہ اہل منبر و محراب سے توقع نہیں کی جاتی۔ انھوں نے وقت کی اہمیت کو واٹر لو کی جنگ میں نپولین کے جرنیل کی تاخیر سے آمد اور اس کی وجہ سے تقدیر اور تاریخ پر پڑنے والے اس اثرات کو مثال کے طور پر پیش کیا اور پھر اپنی بات کو مذہب اور تصوف کے حوالوں سے اس طرح جوڑا کہ ''جو دم غافل سو دم کافر'' کا مفہوم جیسے کھلتا چلا گیا اور اقبال کی ایک اور نظم ''زمانہ'' کے کچھ اشعار ذہن میں گردش کرنے لگے۔

جو تھا، نہیں ہے، جو ہے، نہ ہو گا یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
مری صراحی سے قطرہ طرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نہ تھا اگر تو شریک محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ

وقت ہماری زندگیوں پر کس کس طرح سے اثرانداز ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔ اس پر جتنا غور کرتے جائیے یہ دائرہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا
Time past and time present, are both present in the time future مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Time past بھی کبھی Time present ہوتا تھا اور اب جو ہمیں Time future دکھائی دے رہا ہے اسے بھی ایک وقت میں Time present اور اس کے بعد Time past بننا ہے سو طے ہوا کہ اصل میں وقت کا نہ کوئی حال ہے نے ماضی اور نہ مستقبل یہ وہ اضافی قدریں ہیں جن کی مدد سے ہم اپنے ہونے اور اپنے عمل کو استعاراتی سطح پر کسی نہ کسی حد تک سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہاں اگر اس کوشش میں دین اور دنیا دونوں کو ایک ساتھ لے کر چلا جائے تو بات پوری طرح سے سمجھ میں آئے نہ آئے اس کا حدود اربع یقینا کسی حد تک واضح ہو جاتا ہے۔ کمیت کے بجائے اگر کیفیت کے حوالے سے اسے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو مرزا غالب کا یہ شعر رستہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

یا پھر میر صاحب کا یہ شعر ایک نئی معنویت پیدا کرتا دکھائی دیتا ہے کہ

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو ہاں کہ بہت یاد رہو

دنیا میں شاید ہی کوئی سوچنے والا انسان یا شاعر ہو جس نے وقت کی اس گنجھل دار بجھارت پر طبع آزمائی نہ کی ہو۔ مجھے بھی یہ سوال اس وقت سے پریشان کرتا چلا آ رہا ہے جب ابھی مجھے جواب تو کیا خود یہ سوال بھی ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ میں نے ''محبت'' کے بعد شاید سب سے زیادہ اسی موضوع پر لکھا ہے لیکن بیس پچیس برس پہلے کی لکھی ہوئی یہ نظم ''آج'' وہ آخری حد ہے جہاں تک مجھے یہ سوال لے جا سکا ہے

یہ آج'' جو کل میں زندہ تھا
وہ ''کل'' جو آج میں زندہ ہے
وہ ''کل'' جو کل کے ساتھ گیا
وہ ''کل'' جو ابھی آیندہ ہے

گزر چکے اور آنے والے ''کل'' میں جتنے ''کل'' تھے

ان کا کوئی وجود نہ ہوتا
ہم اور تم بے اسم ہی رہتے
''آج'' اگر موجود نہ ہوتا
سو اے وقت کی حیرت میں کھوجانے والی آنکھ، ٹھہر
''آج'' کے پل پر رک کر آگے پیچھے دیکھ
روشنی اور تاریکی شاید ایک ہی ڈال کے پتے ہیں
لمحوں کا یہ فرق نظر کا دھوکا ہے
وقت کی اس ناوقتی کے سیلاب میں شاید
آج ہی واحد لمحہ ہے
عمر رواں کی دہشت میں کھو جانے والی آنکھ، ٹھہر!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں