دفاعی یا فلاحی ریاست

عمران خان نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرتے ہوئے 1992ء میں پہلی بار پاکستان ٹیم کی مدد سےورلڈ کپ جیت کر نام پیدا کیا


Hameed Ahmed Sethi January 25, 2015
[email protected]

میں بیس سال پیچھے چلا جاؤں تو محلہ شاہ جمال اور اچھرہ لاہور کے درمیانی علاقہ میں عمران خان کے دفتر کے سامنے کھڑی پجیرو جیب میں آسٹریلیا کے ایک ٹی وی چینل کے دو افراد، ڈرائیور اور عمران کے علاوہ خود کو بیٹھا پاتا ہوں۔

یہ جیپ جوہر ٹاؤن کی طرف روانہ ہو جائے گی جہاں اس کی منزل شوکت خانم اسپتال ہے جو ہر طرح سے مکمل ہے اور چند ہی روز میں وہاں منتظر مریض داخل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ جہاں ان کے موذی مرض کی تشخیص اور علاج کی ابتدا ہو جائے گی۔ کینسر اسپتال کی یہ میری پہلی وزٹ تھی اور وہ بھی عمران خان کے ہمراہ۔ آسٹریلین میڈیا کے لوگ فلم بنانے کے علاوہ سوال کرتے اور بریفنگ لیتے رہے اور میں خاموشی سے ان کے دورے میں ساتھ چلتا رہا۔

کینسر کے مرض میں مبتلا ہونا تو ایک الگ رہا اس کا شک پڑنے پر بھی لوگوں کی آدھی جان نکل جاتی ہے۔ ہماری ایک تعلق دار خاتون جس کا چند ماہ قبل اسی بیماری سے انتقال ہو گیا دس سال قبل جب وہ بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوئی تو اسے علاج کے لیے وقفوں سے SKMH میں جانا ہوتا۔ وہ ایک دوسرے شہر سے تعلق رکھتی تھی اس لیے ہمیں اسے اپنے مکان کا بالائی حصہ کئی ماہ تک استعمال کے لیے دینے کی توفیق ملنے کا موقع ملا اور اس دوران اسے کافی عرصہ تک شوکت خانم لے جانے، دوران علاج چند گھنٹے وہاں رک کر انتظار کرنے، اور واپس لانے کا تجربہ ہوا اور وہاں زیر علاج مریضوں کو دیکھنا اور ان کے عزیزوں سے ملنا بھی ہوا تو خدا کی عطا کردہ نعمت یعنی صحت اور زندگی کی قدر ہوئی۔ انھی دنوں کے دوران اور بعد میں مجھے عمران کرکٹر کی شخصیت کے اس پہلو پر چار یا پانچ کالم لکھنے کی تحریک ہوئی اور توفیق بھی ملی۔

دنیا میں قسم قسم کی بیسیوں بیماریاں اور بے شمار سرکاری اور پرائیویٹ اسپتال کلینک اور میڈیکل اسٹور ہیں لیکن بیماریاں اور آفات لاتعداد ہیں، بیماریوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے علاج اور معالجوں کی بھی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود بالآخر وہی کہ اول و آخر فنا۔ اگرچہ انسان اپنے انجام کو شکست نہیں دے سکتا اس کے باوجود صحت اور زندگی کی خاطر خود اپنے لیے نہ سہی بنی نوع انسان کے لیے عمران خاں جیسے لوگ بھلائی کے کاموں میں تن من دھن لگائے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف گمراہ اور شیاطین کے آلہ کار دین متین کی غلط تشریح کرتے ہوئے خدا اور رسول کے احکامات کی صریحاً نافرمانی کرنے، عالمگیر امن و محبت اور سلامتی کے علم بردار مذہب کو بدنام کرنے پر تلے ہیں۔ فلاح انسانی کے داعی عمران کو بہت دیر بعد فنا اور بقا کے مابین فرق کا ادراک ہو گیا ہے اور اچھے برے طالبان کی پہچان بھی ہو چکی ہے اور اب اس کی راست قدمی نے تقاضا کیا ہے کہ میں اس کے ایک عرصہ تک ترک ذکر کو ترک کروں۔

عمران خاں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرتے ہوئے 1992ء میں پہلی بار پاکستان ٹیم کی مدد سے ورلڈ کپ جیت کر نام پیدا کیا اور نواز شریف نے نہ صرف اسپتال کے لیے LDA کوٹہ کا پلاٹ خیراتی اسپتال کے لیے الاٹ کیا بلکہ اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اسپتال کا پورا نام شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال و ریسرچ سینٹر ہے۔ ایک بورڈ کے زیر انتظام چلنے والے اس اسپتال میں کسی کی بھی سفارش بشمول عمران خاں نہیں چلتی۔ عطیات پر چلنے والے اس اسپتال میں ضرورت مندوں کا علاج، بشرطیکہ مرض قابل علاج ہو، مختلف ذرایع سے موصول ہونے والی رقوم سے لائن میں لگ کر مفت ہوتا ہے اور بعد از اپریشن ہو یا بغیر اپریشن عالمی معیار کی نگہداشت سے ہوتا ہے۔

لاہور کے کینسر اسپتال میں مختلف شعبوں اور اسٹیجز سے متعلق 180 سے زائد بیڈ ہیں جو عموماً بھرے رہتے ہیں جب کہ گزشتہ کیلنڈر سال میں پونے سات بلین روپے اسپتال کی مختلف مدات میں اٹھے۔ ظاہر ہے گرانی کی وجہ سے سن 2015ء میں اخرجات میں اضافہ ہو گا جس کا تخمینہ سوا سات بلین بتایا جاتا ہے۔ ایک بلین سے مراد ایک ارب ہے اور اگرچہ عطیات اور زکوٰۃ دینے والے قدم پیچھے نہیں ہٹاتے پھر بھی بجٹ پورا کرنے می کافی محنت درکار رہتی ہے۔ اسپتال کے لیے کچھ رقم Diagnostic Centers سے آمدنی کی صورت میں بھی آتی ہے لیکن وہ بمشکل ممکنہ خسارا پورا کرتی ہے۔

عمران خان کی پوری توجہ اسپتال کے حوالے سے اس وقت پشاور کے زیر تکمیل کینسر اسپتال کی طرف ہے۔ لاہور کے کینسر اسپتال میں ایک تہائی مریض شمالی علاقہ جات سے آتے ہیں۔ اس لیے بھی پشاور میں کینسر اسپتال کی جلد تعمیر مکمل ہونے سے مریضوں کو بہت دور بھی نہیں آنا پڑے گا اور لاہور کے اسپتال پر سے بوجھ بھی کم ہو کر تقسیم ہو جائے گا۔

پشاور کے اسپتال پر کم و بیش چار ارب روپے خرچ کا تخمینہ ہے۔ ایک ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں جب کہ ایک ارب روپے کا کام تکمیل کے مراحل میں ہے۔ مزید ایک ارب روپے کا بندوبست ہونے کے قریب ہے۔ مزید ساٹھ ملین رقم بھی ریز ہونے والی ہے جب کہ چالیس ملین کے لیے مخیر حضرات کا انتظار ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے اس مطلوبہ رقم کے لیے عمران خان میڈیا کے ذریعے اپیل کر رہے ہیں خود انھوں نے اپنی طرف سے دس لاکھ روپے کی رقم اس مد میں ڈالنے کا اعلان کیا ہے لہٰذا مثبت ردعمل متوقع ہے۔

محترم نعیم الحق اور کریم ظفر ملک سے 23 جنوری کو ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ وہ پر امید تھے کہ اندرون اور بیرون ملک پاکستانیوں کے کانوں تک آواز پہنچنے کی دیر ہے۔ رقم بصورت عطیات پوری ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ عمران خاں بھی پر اعتماد ہیں کہ سن 2016ء کے اختتام سے قبل پشاور کا کینسر اسپتال اپریشنل ہو جائے گا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عمران صرف فلاحی کاموں پر توجہ دیتے تو بہتر تھا کہ سیاست بہت برا کھیل ہے لیکن ان کے کئی دوست کہتے ہیں کہ ملک کو فلاحی مملکت بنانا زیادہ اہم ہے۔ دفاعی اور فلاحی مملکت میں فرق شاید صرف نئی نسل کے ذہنوں میں واضح ہے اور قلم بمقابلہ تلوار کا جہادی فلسفہ اور فرق بھی ملک کے عوام پر واضح کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں