حقوق گرتے نہیں کاسۂ گدائی میں

غلامی کے اس دستور اور رواج کے خلاف پہلی بلند اور باضابطہ آواز چودہ سو برس پہلے اسلام کے ذریعے سے ہی گونجی


Amjad Islam Amjad January 21, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: انسانی تاریخ کے اولین ادوار کے بارے میں تو صرف اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں کہ ان میں انسانی حقوق کی کیا صورت حال تھی البتہ اس کی جو تحریریں اور نشانیاں ہم تک پہنچی ہیں ان کی بنیاد پر جو نتیجہ نکلتا یا نکالا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ ابتدا ہی سے طاقت ور اور زور آور لوگ غریب اور کمزور انسانوں پر ظلم کرتے اور ان کا حق مارتے چلے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ انھیں غلام بناکر بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا اور زندگی بھر ان سے سلوک بھی جانوروں جیسا ہی کیا جاتا تھا۔

غلامی کے اس دستور اور رواج کے خلاف پہلی بلند اور باضابطہ آواز چودہ سو برس پہلے اسلام کے ذریعے سے ہی گونجی کہ جس نے غلامی کو ایک قبیح اور ناپسندیدہ فعل قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کے لیے ایک ایسی حکمت عملی وضع کی کہ جس پر عمل پیرا ہوکر اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاسکتا تھا۔ اس کے تین حصے تھے یعنی اول تو یہ کہ موجود غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور انھیں وہی کچھ کھانے اور پہننے کو دیا جائے جو ان کے آقا اور مالک خود کھاتے اور پہنتے ہیں۔ دوسرا قدم انھیں مختلف حوالوں سے رضاکارانہ طور پر فی سبیل اللہ یا کسی جرمانے یا تاوان کی شکل میں آزاد کرنا تھا اور تیسری اور آخری شکل یہ تھی کہ آیندہ انسانوں کو غلام نہ بنایا جائے۔ اس دور کے مخصوص تقاضوں کے پیش نظر یہ کام مرحلہ وار ہونے تھے۔

رسول کریمؐ اور خلفائے راشدین کے دور تک اس سمت میں پیش رفت خاصی تیز تھی مگر بعدازاں ملوکیت کے ادوار میں اس میں کمی تو واقع ہوتی چلی گئی لیکن اسے کبھی ماضی کی طرح پسندیدہ اور لائق تقلید قرار نہیں دیا گیا۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جس مذہب نے سب سے پہلے اس کے خلاف آواز اٹھائی اسی پر اس کا سارا ملبہ ڈال دیا جاتا ہے۔ مغربی مفکرین اور تاریخ دانوں کے بیانات سے یوں لگتا ہے جیسے اس کا آغاز ہی اسلام کی آمد پر یا اس کی وجہ سے ہوا تھا۔

انسانی حقوق کے جدید تصورات کی عمر کوئی بہت زیادہ نہیں، پندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ میں تحریک اصلاح دین اور علوم کی تحصیل کے زیر اثر جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے اثرات آیندہ دو صدیوں میں صنعتی انقلاب، تعلیم اور صحت کے میدانوں میں پیش رفت اور نو آبادیاتی دور کی شکل میں ظاہر ہوئے اور یہی وہ زمانہ ہے جب انسان کی محنت، معاوضے اور زندگی کچھ متعین حقوق کی حامل ٹھہری۔ 1947ء سے 1967ء تک کے بیس برسوں میں آہستہ آہستہ انسانی حقوق کا تصور سیاسی حوالوں کی معرفت آگے بڑھتا رہا اور ہم فیض صاحب کے یہ ''داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر'' اور احمد ندیم قاسمی کے ''ہم گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے'' کی جگہ حبیب جالب کے ''میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا'' کے دور میں داخل ہوگئے اور سیاست میں بھی بنگلہ دیش تحریک اور روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے بلند ہونے لگے۔

ایسے میں آج سے 34 برس قبل حقوق انسانی سے متعلق ایک تنظیم کا قیام ''ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان'' کی شکل میں عمل میں آیا جس کی گوناگوں سرگرمیوں میں ایک سالانہ تقریب ایوارڈ بھی ہے جس میں ہر برس انسانی حقوق سے متعلق نمایاں اور غیر معمولی کام کرنے والوں کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ اس برس ان میں ایک پانچویں ایوارڈ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے جس کے لیے مشہور کارٹونسٹ اور برادر عزیز جاوید اقبال کا انتخاب کیا گیا کہ بقول صدر مجلس ایس ایم ظفر، کارٹون کے ذریعے بھی انسانی حقوق کے فروغ کا کام ایک مختلف مگر بہت مؤثر انداز میں کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس شعبے کو بھی خصوصی طور پر شامل کیا گیا ہے۔

دیگر ایوارڈ یافتگان میں گمشدہ افراد کی بازیابی کی مہم کی سربراہ محترمہ آمنہ مسعود جنجوعہ، عبدالستار ایدھی کے بعد عوامی بہبود کے ایک اہم نمایندے حاجی رمضان چھیپا، خواتین پر ہونے والے مظالم سے متعلق بین الاقوامی سطح پر انعام یافتہ ڈاکیومینٹری فلمیں بنانے والی شرمین عبید چنائے اور صوبہ خیبرپختونخوا کے سابق وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین شامل تھے جو سب کے سب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ذاتی طور پر مجھے سب سے زیادہ متاثر میاں افتخار حسین کے خطاب نے کیا جو نظم و نثر کا ایک بہترین آمیزہ تھا اور ان کی یہ بات کہ خیبر پختونخوا تو اپنی جغرافیائی نوعیت کے باعث دہشت گردی کا شکار ہوا ہے (جس میں زیادہ تر بیرونی قوتیں متحرک ہیں) لیکن پنجاب میں مذہب اور عقیدے کے نام پر جو دہشت گرد تنظیمیں کام کررہی ہیں ان کی شناخت اور سدباب سب سے زیادہ ضروری ہے۔

ابتدا سے اب تک مجھے تقریباً ہر تقریب میں انسانی حقوق کے حوالے سے نظم پڑھنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ سو تنظیم کے اراکین اور عہدیداران کے بعد میں غالباً اس تقریب کا مستقل ترین مہمان ہوں اور یوں ایک عینی شاہد کے طور پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک ایسا وقیع ایوارڈ ہے جس کے ایوارڈ یافتگان کے مقابلے میں کچھ اور نام پیش تو کیے جاسکتے ہیں مگر منتخب ہونے والوں پر تنقید کی گنجائش نہیں نکلتی کہ ہر نام ''کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے'' کی زندہ تصویر ہوتا ہے۔ اس بار میں نے برادرم جاوید اقبال کے اضافی ایوارڈ کی رعایت سے نظم سے پہلے ایک پرانی نظم کا اقتباس بھی پیش کیا جسے اگر سانحہ پشاور کے شہداء کے تناظر میں دیکھا جائے تو بالکل آج کی بات لگتی ہے۔

یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کرلے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیؤں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن
کرن ہے پھر بھی!
یہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے
اور جب تک یہ روشنی کا وجود زندہ ہے
رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کرے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں