معاشرہ کب تبدیل ہوگا

شاید یہ ہمارے تہذیبی زوال کی پہلی نشانی ہے اور اخلاقی انحطاط کی شروعات ۔


فاطمہ نقوی January 12, 2015
[email protected]

گزشتہ دنوں دفتر آتے ہوئے دوران سفر بس میں بیٹھی تھی کہ ایک بزرگ خاتون کی طبیعت بہت خراب تھی اور اسی وجہ سے وہ کارڈیو اسپتال جا رہی تھیں مگر بس ڈرائیور نے اپنی ازلی ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے متعدد اسٹاپ پر بس روکی ہوئی تھی کہ پچھلی گاڑی آئے گی تو یہ روانہ ہوگی۔

بزرگ خاتون نے درد سے تڑپتے ہوئے کہا بیٹا! گاڑی چلاؤ میری طبیعت بہت زیادہ خراب ہے میرے پاس پیسے نہیں کہ رکشہ ٹیکسی میں چلی جاؤں۔ اس مہذبانہ درخواست کا ڈرائیور نے جو جواب دیا وہ اس کی شخصیت کی بھرپور عکاسی کر رہا تھا۔ اس نے خاتون کے لیے نازیبا زبان استعمال کی اور ساتھ ساتھ کنڈیکٹر کو اشارہ کیا جس نے نہایت بے دردی سے اسے ہاتھ پکڑ کر بس سے نیچے اتار دیا مگر خواتین و حضرات کی بھری اس بس میں کسی کو اخلاقی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ اس ڈرائیور کو کچھ کہہ سکتا۔

شاید یہ ہمارے تہذیبی زوال کی پہلی نشانی ہے اور اخلاقی انحطاط کی شروعات ۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک صاحب بس میں چڑھے یہ بھی کافی بزرگ تھے انھوں نے تبلیغ کا کام شروع کردیا لوگوں کو جنت کی بشارت دی اور دوزخ سے ڈرایا، برے کام کرنے والوں کے لیے کہا گیا کہ ہر شخص ذمے دار ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف ایکشن لے۔

شریعت کا نظام قائم کرنے کی جدوجہد میں جو راہ کی رکاوٹ ہے اسے مار دیا جائے۔ اس قسم کی گفتگو کو بھی لوگ آرام سے سنتے رہے اور اس کے بعد انھوں نے چندہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اکثریت نے انھیں کچھ نہ کچھ دیا۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی جرأت نہیں ہوئی کہ انھیں اپنی کارروائی سے روک دیتا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں بس میں بیٹھے افراد ہی اسے مار پیٹ نہ دیں کہ ایک عالم کی بے حرمتی کی مگر ایک غریب بزرگ خاتون کی بے حرمتی کرتے وقت کیونکہ اسے اپنا ڈر نہیں تھا سو اس نے اپنی من مانی کرلی۔

اس وقت پاکستان تاریخ کے اس دور سے گزر رہا ہے جہاں ہمیں اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے ہر طرح کی دہشت گردی نے ہمارے راستے مسدود کر دیے ہیں مگر ہم ہیں کہ کبوتر کی طرح آنکھ بند کرکے بیٹھ گئے کہ بلی ہمیں کچھ نہیں کہے گی ملک میں درپیش صورتحال کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ملک میں اخلاقی دیوالیہ پن عروج پر پہنچ چکا ہے مختلف طبقات کے درمیان خلیج بڑھانے میں ہمارے فرسودہ نظام تعلیم نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ایک طرف جدید نظام تعلیم ہے جو انسان کے اخلاقی پہلوؤں پر کماحقہ توجہ نہیں دیتا دوسری طرف ایسا نظام تعلیم ہے ۔

جو وضع قطع تو تبدیل کر رہا ہے مگر درست اسلامی تربیت کو مرکوز نگاہ نہیں رکھتا حالانکہ اسلام بنیادی تربیت پر ہی مرکوز ہے اسلام میں بلکہ قرآن میں عبادات کے مقابلے میں انسانی حقوق کے متعلق زیادہ آیات ہیں کیونکہ اسلام دین فطرت ہے عبادات اللہ اور بندے کا معاملہ ہے مگر اخلاقیات کا تعلق انسان کے ایک دوسرے کے ساتھ روابط پر منحصر ہے اسی لیے ان پر زیادہ زور دیا گیا ہے اسلام تو لوگوں کو جوڑنے کے لیے آیا ہے نا کہ لوگوں کو تفرقوں میں بانٹنے کے لیے۔

ہمارے معاشرے میں عدم برداشت، غصہ، نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں مگر نوجوانوں کی اخلاقی قدریں مضبوط کرنے کے لیے یہاں اب کوئی ٹھوس اقدام نہیں ہے تفریحی پروگرامز ختم ہوگئے ہیں، لائبریریاں ناپید ہو رہی ہیں، آپس میں مل بیٹھنے کے مواقع ختم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے دوریاں پیدا ہو رہی ہیں کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے کہ محلہ سسٹم اتنا مضبوط تھا کہ نوجوانوں کی تربیت پر گہری نگاہ رکھی جاتی تھی گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ محلے کے بزرگوں کا ڈر بھی رہتا تھا کوئی محفل ایسی نہیں ہوتی تھی جہاں بزرگ اور نوجوان ساتھ ساتھ تعمیری سرگرمیوں میں مصروف نہ ہوں۔

جس کی وجہ سے نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ نہیں بڑھ پائی تھی ۔اساتذہ بھی ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت میں معاون ثابت ہوتے تھے مگر اس وقت ہمارا معاشرہ بالکل تبدیل ہوگیا ہے ہم نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ دعوے ہمارے مسلمان ہونے کے ہیں مگر اسلام کی سچی روح سے بے بہرہ ہوکر رہ گئے ہیں۔ جنت کے شوق میں دنیا کو تباہ کرتے مسلمانوں کو ہی دیکھا ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لیے نوجوانوں کی نفسیات کو مدنظر رکھا جائے طالب علموں کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں مشغول رکھا جائے تاکہ اخلاقی تشکیل ہوسکے طلبا کی جمالیاتی شخصیت کی نشوونما کے لیے بھی راہیں ہموار کی جائیں۔ دین وضع قطع تبدیل کرنے کا نام نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے۔

اسی لیے اسلام کی صحیح روح کو روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر شروع ہی سے بچے کی اخلاقی سوچ کو بہتر بنا دیا جائے تو بڑے ہوکر یہی بچے اچھا معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں گے۔

بزرگوں کا احترام، مریضوں کا خیال، ایک دوسرے کی مدد جیسے جذبے پروان چڑھیں گے تو باہمی نفرتیں بھی ختم ہوجائیں گی ان سب چیزوں کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو یکساں اور مربوط کریں۔ تعلیم میں دین و دنیا کے توازن کی ضرورت ہے تاکہ طلبا ابتدا سے ہی ایک بہترین شخصیت کے طور پر ابھر سکیں۔ جب سے سوشل لائف ختم ہوئی ہے اس وقت سے ہی پاکستانی نوجوان تنہا رہ گیا ہے اور خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ہر کوئی اپنے مفاد کے لیے استعمال کرلیتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ہم آج سے ہی اپنے معاشرے کو سدھارنا چاہتے ہیں تو اپنے نوجوانوں اور بچوں پر کام کرنا ہوگا جب جاکر کہیں معاشرہ تبدیل ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں