1992 سے 2015 تک
فٹ بال کا ورلڈ کپ ہی ایسا ہے جسے کرکٹ کے ورلڈ کپ سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔
پہلا ورلڈ کپ (کرکٹ کے حوالے سے) 1975ء میں اس کھیل کی جنم بھومی یعنی انگلستان میں کھیلا گیا۔ وہاں کے موسم اور دن کے دورانیے کی طوالت کے باعث اس کا فارمیٹ ساٹھ اوورز فی ٹیم رکھا گیا تھا جو بعد میں 50 اوورز کر دیا گیا۔ اس وقت تک ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل ٹیموں میں سری لنکا، زمبابوے اور بنگلہ دیش کا شمار نہیں تھا اور نہ ہی 5 رنز فی اوور سے زیادہ کا اسکورنگ ریٹ عام ہوا تھا۔ میری یادداشت کے مطابق اب تک ہونے والے ورلڈ کپ فائنلز میں ویسٹ انڈیز دو بار، بھارت دو بار، پاکستان ایک بار، آسٹریلیا تین بار اور سری لنکا ایک بار فاتح رہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پہلے ورلڈ کپ کے موقع پر جو سات ممالک ٹیسٹ میچ کھیلنے کے اہل تھے ان میں سے صرف دو یعنی ساؤ تھ افریقہ اور نیوزی لینڈ ہی یہ ہمالہ سر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اسپورٹس کی دنیا میں جن کھیلوں کے ورلڈ کپ مقابلے ہوتے ہیں، ان میں سے صرف فٹ بال کا ورلڈ کپ ہی ایسا ہے جسے کرکٹ کے ورلڈ کپ سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے اور دیکھا جائے تو صحیح معنوں میں یہی ورلڈ کپ کہلانے کا حق دار بھی ہے کہ اس میں خطۂ ارض کے کم و بیش ہر حصے کی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے جب کہ کرکٹ میں امریکا، روس، جرمنی، فرانس، جاپان، چین، اٹلی، اسپین، ترکی، مصر، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملائیشیا اور لاطینی امریکا کے کچھ ایسے ممالک بھی شامل ہیں جن کی مجموعی آبادی کرکٹ کھیلنے والے ملکوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔
وطن عزیز کا قومی کھیل اگرچہ ہاکی ہے اور اس میں عالمی سطح پر ہماری کامیابیوں کی تعداد بھی کرکٹ سے بہت زیادہ ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ جو عوامی مقبولیت یہاں کرکٹ کو حاصل ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسکواش کے کھیل میں جہانگیر خان اور جان شیر خان سمیت کچھ کھلاڑیوں کی تاریخ ساز کامیابیوں کے باوجود میڈیا اور عوام کا جھکاؤ ہمیشہ کرکٹ کی طرف ہی رہا ہے۔ اگرچہ پچاس کی دہائی میں حنیف محمد، فضل محمود اور امتیاز احمد اور ان کے بعد ظہیر عباس، ماجد خان، آصف اقبال، محسن حسن، وسیم باری، سلیم ملک، انتخاب عالم، سرفراز نواز، عبدالقادر، مدثر نذر، مشتاق محمد، وسیم راجہ اور اقبال قاسم نے بھی بہت نام کمایا مگر جس ایک واقعے نے کھلاڑیوں کی قسمت بدل دی وہ بلاشبہ 1992 کا ورلڈ کپ ہی ہے۔
جس کی وجہ سے کرکٹ کے کھلاڑیوں پر شہرت اور دولت کے دروازے بیک وقت کھل گئے۔ اس دوسری صف کے چند اہم ترین نام عمران خان، جاوید میانداد، سعید انور، وسیم اکرم، وقار یونس، ثقلین مشتاق، شعیب اختر، انضمام الحق، محمد یوسف، یونس خان اور شاہد آفریدی ہیں۔ بغور دیکھا جائے تو انفرادی طور پر یہ سب نام بہت بڑے ہیں مگر بطور ایک ٹیم ان کی مجموعی کارکردگی 1992 سے پہلے کے چار ورلڈ کپ مقابلوں میں حصہ لینے والی پاکستانی ٹیموں سے کہیں کم ہے کہ وہ ٹیمیں درجہ بندی میں پہلے چار نمبروں میں شمار ہوتی تھیں اور اب ہم ساتویں نمبر پر ہیں اور زوال کا یہ سلسلہ 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد سے ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔اس وقت ورلڈ کپ 2015 کے حوالے سے سب سے زیادہ گرم خبر اس پاکستانی دستے کی سلیکشن ہے ۔
جس کا اعلان حال ہی میں کیا گیا ہے۔ ایک عمومی تاثر کے مطابق اس میں شامل مندرجہ ذیل 9 کھلاڑی کارکردگی کی بنیاد پر اپنے آپ کو پہلے سے ہی منتخب کرا چکے تھے۔ محمد حفیظ، احمد شہزاد، یونس خان، حارث سہیل، مصباح الحق، سرفراز احمد، شاہد آفریدی، محمد عرفان اور جنید خان (صہیب مقصود اور عمر اکمل تقریباً بارڈر لائن پر تھے) سو اگر دیکھا جائے تو سلیکشن کمیٹی کو صرف چار یا زیادہ سے زیادہ چھ کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا تھا جب کہ متوقع امیدواروں کی فہرست میں نمایاں نام یہ تھے:صہیب مقصود، عمر اکمل، فواد عالم، اظہر علی، ذوالفقار بابر، یاسر شاہ، احسان عادل، بلاول بھٹی، انور علی، وہاب ریاض، کامران اکمل، شعیب ملک، راحت علی، اسد شفیق (سہیل خان کا نام ممکنہ تیس کھلاڑیوں میں شامل نہیں تھا)
جب کہ قرعۂ فال صہیب مقصود، عمر اکمل، یاسر شاہ، احسان عادل، وہاب ریاض اور سہیل خان کے نام نکلا یعنی بنیادی طور پر اصل انتخاب آخری چار ناموں سے ہی متعلق تھا جب کہ نظرانداز کیے جانے والے ناموں میں سے بھی چار ہی نام ایسے ہیں جن کے بارے میں زیادہ بات کی جا رہی ہے۔ میری مراد فواد عالم، ذوالفقار بابر، بلاول بھٹی اور اظہر علی سے ہے۔ ظاہر ہے سلیکشن کمیٹی نے ان سے متعلق بہت سے ایسے امور پر بھی بحث کی ہو گی جو ہمارے علم میں پوری طرح سے نہیں ہے اور یہ بھی باور کیا جانا چاہیے کہ انیس بیس کے فرق میں اختلاف کے پہلو نسبتاً زیادہ بڑے اور واضح ہو جاتے ہیں مثال کے طور پر ذوالفقار بابر کے بجائے یاسر شاہ کے انتخاب کو دیکھا جائے تو ماہرین کی رائے میں شاہد آفریدی کی موجودگی میں اسی انداز کے ایک اور رائٹ آرم لیگ اسپنر کے بجائے ایک قدرے مختلف طرز کے اور نسبتاً زیادہ تجربہ کار لیفٹ آرم لیگ اسپنر کا انتخاب زیادہ موزوں ہوتا۔
اس سے مراد یاسر شاہ کی صلاحیت یا کارکردگی سے انکار نہیں بلکہ ایک مخصوص صورت حال میں بہتر اور موزوں ترین کا فرق ہے۔ اسی طرح وہاب ریاض کی حالیہ اور سابقہ کارکردگی کے پیش نظر بلاول بھٹی یا انور علی کا انتخاب زیادہ مناسب ہوتا اور آخری تجزیے میں شاید بوجوہ بلاول بھٹی نسبتاً زیادہ موزوں ٹھہرتا۔ فواد عالم کے لیے جگہ پیدا کرنے کا بہتر طریقہ غالباً یہی تھا کہ احسان عادل اورسہیل خان میں سے کسی ایک کو ڈراپ کر دیا جاتا جب کہ اظہر علی کے لیے محمد حفیظ، صہیب مقصود یا عمر اکمل میں سے کسی ایک کو جگہ خالی کرنا پڑتی جو شاید موجودہ حالات میں ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔
جہاں تک فواد عالم کا تعلق ہے یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر جو سنچری بنائی تھی اس میں وہ بطور اوپنر کھیلا تھا سو اس کی شمولیت سے تیسرے اوپنر کے علاوہ کسی اہم بیٹسمین کے ممکنہ فٹ نس پرابلم کا بندوبست بھی ہو سکتا تھا جب کہ وہ بہترین فیلڈر ہونے کے ساتھ ساتھ کم ازکم حارث خلیل سے زیادہ تجریہ کار پارٹ ٹائم بالر بھی ہے۔ فاسٹ باؤلنگ کے شعبے میں پانچ بالرز کے انتخاب کی وجہ آسٹریلیا کی وکٹیں اور محمد عرفان اور جنید خان کی مشکوک فٹ نس بھی ہو سکتی ہے لیکن ماہرین کی رائے میں یہ احتیاط ضرورت سے زیادہ ہے اور کم و بیش ایک ہی انداز اور رفتار کے حامل دو بالرز میں کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ وہاب ریاض کی جگہ بلاول بھٹی کو رکھنے سے دو رائٹ اور دو لیفٹ آرم فاسٹ باؤلر ٹیم کو زیادہ متوازن بنا سکتے تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے میڈیا کے اسپورٹس چینلز اور اسپورٹس پروگراموں میں بھی سیاسی ٹاک شوز کے منفی پہلو زیادہ غالب آتے جا رہے ہیں اور اس سلیکشن کے عمل کو قومی ٹیم کی بہتری اور نیک نامی کے بجائے مختلف گروہ بندیوں، لابیز اور افواہوں کے میزان پر تولا جا رہا ہے۔ میری ذاتی رائے میں پی ٹی وی کا وہ شو جس کی میزبانی ڈاکٹر نعمان نیاز کرتے ہیں اپنے مزاج اور انداز کی مخصوص تنقیدی نشتریت کے باوجود سب سے زیادہ متوازن اور معلومات افزا ہوتا ہے بالخصوص ڈاکٹر ظفر الطاف، بریگیڈیئر جودت رانا، محمد وسیم اور بازید خان کی گفتگو زیادہ متاثر کرتی ہے ۔ کیری پیکر سرکس سے لے کر بھارتی سرمائے سے تشکیل دیے جانے والے ٹورنامنٹس نے اس میں جس خیرہ کن چمک کا اضافہ کیا ہے اس کی وجہ سے اب یہ وہ محاورے والا ''شرفا کا کھیل'' نہیں رہا، عوامی تفریح کا ذریعہ میڈیا کی تشہیر اور دولت کی افراط نے مل جل کر اس کی ''اخلاقیات'' کو مسخ کر دیا ہے۔
غریب ملکوں کے باصلاحیت مگر کم تعلیم یافتہ کھلاڑی اپنے ملکوں میں مستحکم پیشہ ورانہ تنظیمی ڈھانچے نہ ہونے کے باعث بہت آسانی سے طمع، لالچ، عدم استحکام اور خوف کا شکار ہو جاتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت تشکیل پانے والی مختلف لیگز کے نیلام گھروں میں اپنی بولی لگوانے کے لیے ہمہ وقت بے چین رہتے ہیں۔ اس وقت وطن عزیز میں اس ڈھانچے کو مضبوط کرنے کا شعور تو بلاشبہ بڑھ رہا ہے مگر عملی طور پر اب بھی ہم تجربوں اور ایڈہاک ازم کے جنجال سے باہر نہیں نکل پائے۔ اندریں حالات ان منتخب ہونے والے کھلاڑیوں سے اچھی توقعات تو ضرور وابستہ کی جا سکتی ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہو گا کہ پندرہ کے پندرہ کھلاڑی نہ صرف اپنے انتخاب کو صحیح ثابت کریں بلکہ ان چند متنازعہ ترجیحات کو بھی درست ثابت کریں جن پر اس کالم سمیت مختلف فورمز پر بات کی جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک بار پھر 1992 کے اس لمحے کو دوبارہ جی سکیں جو آج تک ہماری یادوں میں زندہ ہے۔