محافظ

ہم کسی غیر کے گھر میں جھانک کر تو دیکھ نہیں سکتے کہ و ہ کن عادات کے مالک اور کس قماش کے لوگ ہیں۔


Hameed Ahmed Sethi January 10, 2015
[email protected]

ہم کسی غیر کے گھر میں جھانک کر تو دیکھ نہیں سکتے کہ و ہ کن عادات کے مالک اور کس قماش کے لوگ ہیں لیکن رشتہ داروں اور دوستوں کے علاوہ تمام اجنبیوں کو سڑکوں اور مارکیٹوں ہی میں دیکھ کر ان کی کچھ عادات اور سرشت کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اگلے روز شہر میں سے ہو کر گزرنے والی ٹرین کے بند ریلوے پھاٹک کے دونوں جانب ٹرین گزرنے کے منتظر موٹروں، اسکوٹروں، بسوں اور ویگنوں کے ڈرائیوروں کی بے چینی کا منظر یوں دیکھا کہ پھاٹک کے ہر دو جانب پوری سڑک کو کور کیے ہوئے گاڑیاں اس طرح کھڑی تھیں کہ ٹرین گزرنے پر پھاٹک کھلتا تو دونوں اطراف کی ٹریفک ٹیک آف کیے بغیر آر پار ہونی ناممکن تھی۔ یہ عجلت پسندی کا کمال تھا یا جہالت کی مثال، بمعنی عقل و دانش کا زوال، اسے آپ کی چشم کرشمہ ساز جو بھی چاہے نام دے سکتی ہے۔ یہ کوئی انوکھا منظر نہیں ہر بڑے شہر میں ٹریفک کے اس جیسے مناظر اب عام ہیں۔ اگر ریلوے کراسنگ جیسے دیگر ٹریفک ہڑبونگ مناظر کی تصاویر لے کر شہر میں آویزاں کی جا سکیں تو شاید موٹر مالکان کو شرم آ جائے لیکن ایک دوست کا خیال ہے کہ یہ شے اب لوگوں نے گھول کر پی لی ہوئی ہے۔

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

ایک روز ایسا ہی ٹریفک جام تھا جب ہمارے قریب سے کاروں کے درمیان سے ایک شخص سائیکل لیے رستہ بناتا ہوا گزر گیا وہ ساتھ میں گنگنا بھی رہا تھا کہ اے موٹروں والو دیکھو تم پھنسے کھڑے ہو اور میرا سائیکل کس پھرتی سے نکلا چلا جا رہا ہے اسے پٹرول چاہیے نہ موبل آئل نہ ہی اس کا سائیلنسر سے شور اٹھ رہا ہے نہ مضر صحت گیس کا اخراج ہو رہا ہے۔ میرے سائیکل میں ہوا بھرنے والا پمپ بھی فٹ ہے نہ اس پر پٹرول کا خرچہ اٹھتا ہے نہ اس پر موٹر ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے کسی سے ٹکرا بھی جائے تو نہ مجھ پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 304 الف لگتی ہے نہ ڈرائیونگ لائسنس کی پڑتال ہوتی ہے۔

وہ شخص اسی طرح کا بے تکا گیت گاتا ہوا موٹروں کے رش میں سے نکل کر سائیکل پر بیٹھا اور یہ جا وہ جا۔سڑک پر چلنے والی دو، تین یا چار پہیوں والی سواری کو ایک سوار چلا رہا ہوتا ہے یہی سوار دراصل وہ شخص ہے جو ہمیں معاشرے کا آئینہ دکھاتا ہے لیکن ٹریفک سگنل کا سرخ اشارہ توڑتے ہوئے گزر جانے والا ٹریفک اور قانون کا رکھوالا عوام کو تحریک دے جاتا ہے کہ بااختیار کے لیے قانون اس کے گھر کی لونڈی ہے۔ اس مذکورہ قانون شکن نے یہ عادت اپنے سے اوپر والوں یعنی حکمرانوں کو دیکھ کر اپنائی اور اختیار کی ہوتی ہے۔

افلاس، جہالت، لاقانونیت اور سیاسی و مذہبی دہشت گردی کے عفریتوں کے نرغے میں جکڑے ہمارے ملک میں جب حکمران دس بیس چالیس موٹروں کے پروٹوکول اور حفاظتی حصار میں گھرے کسی ایک مقام سے دوسری جگہ بذریعہ سڑک سفر کرتے بلکہ یوں کہئے کہ منتقل ہوتے نہیں تو ان کے روٹ کی زد میں آئے علاقے اور مسافر آفت زدگی کے اسیر بن جاتے ہیں۔ اعلیٰ سطح سے حکم آتا ہے کہ شاہی سواری کا Cavalcade شام چار بجے گزرے گا اس سے نیچے والا افسر ا نتظامی افسر سے کہتا ہے کہ رستے روکنے بند کرنے کا عمل دو بجے شروع کر دیا جائے موقع پر موجود فورس کا انچارج مزید محتاط ہونے اور تابعداری دکھانے کے لیے ٹائم کھسکا کر ایک گھنٹہ مزید نیچے کر کے سڑکیں بلاک کرنے کا عمل ایک بجے سے شروع کر دیتا یعنی عوام کے لیے عذاب کی گھڑیوں میں اضافہ کر کے اپنی نوکری کو چاکری میں بدل دیتا ہے جب کہ عوام الناس کو غلام الناس کے زمرے میں لاکھڑا کیا جاتا ہے۔

حاضر سروس تو حاضر سروس ابھی چند روز قبل سابق صدر اندرون سندھ دورے پر جاتے ہر ٹی وی چینل نے دکھائے تو کیمرہ ان کی کاروں کے قافلے کو فوکس کرتا رہا اور چینل کا نمائندہ گاڑیوں کی تعداد گنتا ہوا سنائی دیا۔ وہ 33 گاڑیاں گن چکا تو خود بھی تھک کر کسی اور طرف متوجہ ہو گیا تا کہ ناظرین و سامعین گنتی سنتے ہوئے بوریت کا شکار نہ ہو جائیں وہ تو خیر سابق صدر تھے ہمارے تو محافظ بھی پروٹوکول کے اتنے شوقین ہیں اور سڑک پر اس قدر خوفزدہ رہتے ہیں کہ آگے پیچھے مسلح گارد لے کر چلتے ہیں۔ ہماری پولیس کے میگزین کا نام بھی محافظ ہوتا تھا اب عرصہ ہوا و ہ میگزین نہیں دیکھا معلوم ہوتا ہے بوجہ شرمندگی شاید اب اس کا شائع ہونا بند کر دیا گیا ہے۔

ہماری محافظ فورس کے افسر اب ڈی ایس پی لیول سے حفاظتی دستہ ساتھ رکھتے ہیں اور محافظوں کے محافظوں کی تعداد آئی جی کے عہدے تک پہنچتے ہوئے بڑھتی ہی جاتی ہے اور اسلحہ برداروں کی گنوں کی کوالٹی بھی بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اب VIP اورVVIP حضرات کی تعداد بڑھتے بڑھتے اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ پولیس یعنی محافظ فورس کے لیے لاء اینڈ آرڈر کا کنٹرول ضمنی ڈیوٹی ہو گیا ہے اور اپنے علاوہ اپنے باس کی حفاظت فرض اولین ہو چلا ہے۔ اپنے افسروں اور حکمرانوں کی سیکیورٹی پر تعیناتیوں کی وجہ سے عوام بے سہارا اور غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔صاحبان اقتدار اور محافظوں کا جو ہماری آپ کی حفاظت کے ذمہ دار ہونے کے بجائے خود کو غیر محفوظ پا کر مسلح گارڈز کی چھتری تلے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کا ذکر تو ہوا لیکن بات حق سچ کی ایک ہی ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ یہاں مجھے آٹھ نو سال پرانا ایک منظر بھلائے نہیں بھولتا۔ ہمارے ایک دوست کے بزرگ انتقال فرما گئے ۔

ہر دلعزیز، صاحب ثروت اور وسیع حلقہ ٔ احباب رکھنے والی شخصیت تھے ان کے اہل خانہ نے جو دعائے مغفرت کے لیے وقت رکھا اس پر بہت بڑا اکٹھ تھا حاضرین قالینوں اور دریوں پر بیٹھے تسبیح و تلاوت میں مشغول تھے۔ اچانک پنڈال کے داخلی طرف تھرتھلی سی مچی جو آخری کونے تک چلی اس کھلبلی کی وجہ ایک پنڈال میں داخل ہونے والا گرانڈیل شخص تھا جس کے دائیں بائیں اور پیچھے کم و بیش نصف درجن مسلح گارڈ تھے۔ ان گارڈز کا اسٹائل بالکل ایسا تھا کہ ابھی فائر کھول دیں گے اور وہ تھرتھلی بھی گارڈز کی سیدھی بندوقوں کی وجہ سے تھی۔

گرانڈیل شخص بیٹھ گیا تو اس کے گارڈز بھی پوزیشنیں لے کر بیٹھ گئے۔ لیکن حاضرین کی سراسمیگی بدستور تھی اور لوگ دعا ختم ہوتے ہی رفو چکر ہونے لگے۔ وہ شخص دشمن دار تھا یا ڈرامہ باز میں نے بھی صاحب خانہ سے معلوم کرنے کی کوشش نہ کی۔ اپنے حکمرانوں اور محافظوں کو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ دہشت گردوں کو ملیا میٹ کرنے میں فوج کا پورا ساتھ دے چکنے کے بعد ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کا عزم کریں ہمیں غیر محفوظ محافظ نہیں محفوظ ملک اور امن کا گہوارہ چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں