نبی رحمت ﷺ کی بچوں پر خصوصی شفقت

’’جو ہمارے بچوں پر شفقت اور ہمارے بڑوں کی عزّت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں‘‘


احمد دین حداد January 09, 2015
’’جو ہمارے بچوں پر شفقت اور ہمارے بڑوں کی عزّت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ فوٹو: فائل

بچے کبھی کافر اور ظالم نہیں ہوتے، صرف معصوم اور بچے ہی ہوتے ہیں۔ کسی کافر اور ظالم کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی سن شعور تک پہنچنے سے پہلے پاکیزہ فطرت کا حامل ہوتا ہے۔

رحمۃ لّلعالمین ﷺ نے فرمایا: ''ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ اصلی فطرت تو وہی ہے جس پر اﷲ انسانوں کو پیدا فرماتا ہے'' (بخاری شریف، باب الجنائز)

دوران جنگ میدان کارزار میں لڑنے والوں کی ذہنی و قلبی اور مزاجی کیفیت نارمل نہیں ہوتی، جیسا کہ امن و امان کے پرسکون ماحول میں انسانی مزاج سرد اور معتدل ہوتا ہے۔ لیکن حالت جنگ میں بھی رحمۃ لّلعالمین ؐ کا حکم ہے کہ بچوں، بزرگوں، خواتین، کم زوروں، بیماروں، امن کے خواہاں اور عبادت گاہوں کے اندر موجود لوگوں پر حملہ نہ کیا جائے۔ حتیٰ کہ پھل دار درختوں، فصلوں اور جانوروں کو بھی نقصان پہنچانا نہ صرف غیر اسلامی بلکہ انسانی نقطۂ نظر سے بھی جنگی جرم ہے۔ کیا کسی صحیح کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک غلط راستہ اور طریقہ کار اختیار کیا جاسکتا ہے؟ قطعاً نہیں، بلکہ قرآن حکیم کے مطابق سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ:

''کسی قوم کی دشمنی اور عداوت تمہیں اس بات پر مجبور نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو بلکہ عدل کو لازم پکڑو۔ یہی تقویٰ اور خوف خدا کے قریب تر ہے۔''

حدیث نبویؐ کے مطابق ''خوف خدا حکمت کی جڑ ہے''

خوف خدا رکھنے کا دعویٰ کرکے حکمت سے عاری افعال و اعمال پروان چڑھا کر معاشرے میں فساد اور انارکی پیدا کرنا دراصل تقویٰ نہیں، بلکہ تقویٰ کی حد درجہ پامالی ہے۔ جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔



بچے سب کے سانجھے، یک ساں شفقت و پیار کے مستحق اور قومی و ملی اثاثہ ہوتے ہیں۔ تعلیمی و تربیتی مقاصد کے لیے بھی بچوں پر تشدد کرنا قرآن حکیم اور اسوۂ حسنہ کے منافی ہے۔ چہ جائیکہ حصول علم میں مصروف بچوں کو شہید کرکے اس ظالمانہ و بزدلانہ فعل کی تائید میں قرآن و سنت سے استدلال اور جواز کی مذموم اور ناپاک جسارت کی جائے۔ البتہ اسلام سے صدیوں پہلے فرعونی لشکروں نے ضرور معصوم بچوں کو موت کی نیند سلایا تھا تاکہ فرعونیت کو چیلنج کرنے کے لیے موسیٰ ؑ سر نہ اٹھا سکے۔ لیکن مشیت ایزدی اور قانون فطرت سے ٹکرانے والے خود تو غرقاب نیل ہوسکتے ہیں مگر موسیٰ ؑ جیسے معصوم کو سرکش موجوں پر بھی تیرنے سے نہیں روک سکتے۔

سوچنے کی بات ہے کہ جس نبی اکرم رحمۃ لّلعالمین ﷺ کی شفقت و رحمت تمام مخلوقات اور جہانوں کے لیے عام ہو اس کے سایۂ رحمت سے معصوم بچے کیسے محروم رہ سکتے ہیں۔

برّاق جیسی اعلیٰ ترین سواری پر عرش بریں تک سوار ہونے والے رحمۃ لّلعالمین ؐ بچوں کے لیے خود سواری بنے۔ یہاں تک کہ حالت نماز میں جب آپؐ دنیائے رنگ و بُو سے بے نیاز اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے تو اس وقت بھی پشت مبارک پر بچوں کی موجودگی محسوس فرما کر اپنے سجدے کو طویل فرما دیتے تھے۔

نبی اکرم ﷺ کا عمر بھر یہ معمول رہا کہ مردوں اور خواتین سے بیعت لیتے وقت ان سے یہ عہد بھی لیا کرتے کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے۔ قرآن حکیم نے بھی اس حلف برداری کو مائوں کے حوالے سے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر محفوظ کرلیا ہے۔

'' اور وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی'' سورۃ الممتحنہ، آیت نمبر 12)

رحمۃ لّلعالمین ؐ نے فرمایا

''خبردار! بچے کسی کے بھی ہوں، انہیں قتل مت کرو''

(بحوالہ: سیرت نبویؐ کے منہاج صفحہ205)



ان واضح ترین احکامات کے باوجود اگر اسلام کے فلسفۂ جہاد، جس کا مقصود امن، عدل، رواداری اور انسانی وحدت و خوش حالی کو فروغ دینا ہے کو دہشت گردی جیسے خونی کھیل میں وحدت و مماثلت قائم کرنے پر اصرار کرنا عصر حاضر کا سب سے بڑا دجل و فریب اور شیطانی دھوکا ہے۔

محسن انسانیتؐ نے فرمایا

''جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں''

اس حدیث کے تناظر میں بچوں اور بزرگوں پر رحم نہ کھانے والے کہاں کھڑے ہیں خود فیصلہ کرلیں؟

سیدنا زید بن حارثؓ کو سیّدہ خدیجہؓ نے اپنے بھتیجے سے حاصل کیا تھا۔ جب زید ؓ کو امُ المومنینؓ کے برادرزادہ نے گھر سے گم شدگی پر اپنا خدمت گار بنالیا تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے حضرت زید بن حارثؓ کو اپنے پاس رکھ لیا اور زیدؓ سے اس کے گھر کا اتا پتا معلوم فرمانے کے بعد ان کے والد حارث بن شرجیل کو بلایا تاکہ وہ حضرت زیدؓ کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ والد شکرگزاری کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے، لیکن بچے نے اپنے باپ کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ رحمۃ لّلعالمین ؐ نے یہ منظر دیکھا تو حضرت زیدؓ کو اپنا بیٹا بنالیا اور اس حد تک آپؓ کو پیار دیا کہ لوگ زیدؓ کو حضورؐ کے پاس سفارشی بناکر بھیجتے تھے۔ بعدازاں حضرت زیدؓ کے بیٹے اسامہ بن زیدؓ کو سرداری اور سپہ سالاری کے منصب جلیلہ پر فائز فرمایا۔ قرآن حکیم، اسوۂ حسنہ اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ بے گناہ انسانوں اور بچوں کے قاتلوں کا اسلام اور انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ اس قسم کی درندگی کی مثال تو جنگلی عہد اور حیات میں بھی ڈھونڈنے سے نہ ملے گی اس لیے کہ جنگل کے بھی حیوانی سہی، مگر اپنے ضابطے ہوتے ہیں جس کی بدولت اسے بقا حاصل ہے۔

دوسری طرف ایسے سفاکوں کو پتھر دل اور سنگ دل کہنا بھی پتھروں کی توہین کے مترادف ہے۔



سورۂ بقرہ رکوع نمبر 9 کے مطابق ایک پتھر وہ ہیں کہ جن میں سختی کے باوجود مسلسل نہریں بہتی ہیں، جب کہ بعض پھٹتے ہیں اور پھر ان سے پانی نکلتا ہے اور کئی تو ایسے ہیں کہ خوف خدا سے گر پڑتے ہیں۔ کیا بچوں کے قاتل سفاک ظالموں کو ان پتھروں جیسا قرار دینا ممکن ہے جو ان پتھروں کی طرح بھی انسانیت کو فائدہ دینے سے قاصر ہیں؟

یاد رہے کہ بقا کا بنیادی اصول صرف ایک ہے کہ انسانیت کے لیے اپنے آپ کو مفید اور کار آمد بنایا جائے۔

''جو انسانیت کے لیے نفع رساں ہے اسی کو زمین میں جمائو اور بقا حاصل ہے'' (القرآن)

اسی طرح بیمار اور سڑے ہوئے عضو کو جو باقی جسم کے لیے ناسور اور خطرناک بن جائے، تلف کرنا لازمی ہے تاکہ جزو کی قربانی دے کر کل کی بقا کا سامان کیا جاسکے۔

صحیح بخاری شریف میں رحمۃ لّلعالمین ﷺ کا قول فیصل ہے

''جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں