طبل جنگ
آپ دیکھیں کہ ہماری بیشتر بیماریاں کسی نہ کسی نفسیاتی وجہ کی پیداوار ہیں۔
GILGIT:
صدیوں سے اکثریت نے اس خیال کو سراہا ہے کہ جسے جسمانی صحت نصیب ہے اسے دماغی سکون بھی میسر ہے لیکن موجودہ دور تک آتے آتے سب سے پہلے جارج برنارڈ شا نے اس کلیے کو جھٹلایا اور ہماری طبی سائنس نے بھی ثابت کردیا کہ دماغی سکون ہی پر ہر چیز کا دار و مدار ہے اگر دماغ کا توازن درست ہے تو کسی قسم کی الجھن، کسی قسم کی بیماری لاحق نہ ہوگی۔
یہ ٹھیک بھی ہے آپ دیکھیں کہ ہماری بیشتر بیماریاں کسی نہ کسی نفسیاتی وجہ کی پیداوار ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ہمارے فطری جذبے، نفرت، خوف، محبت، ضد، اپنا اظہار چاہتے ہیں اور یہ ایسے جذبے ہیں جن کا کھلم کھلا اظہار ممکن نہیں بلکہ اکثر ہم ان ہی کے ہاتھوں شرمندہ ہوتے ہیں بوجوہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم خود ہی کسی حد تک ان کے وجود سے منکر ہوجائیں، شاید ہماری یہی کوشش ہمارے ان جذبوں کو تحت الشعور کے حوالے کردیتی ہے۔ جہاں ان کے اظہار کا پیرایہ مختلف ہوجاتا ہے اسی اظہار کی ایک شکل ہماری جسمانی بیماری ہے اور غالباً دماغی الجھن بھی اسی کا نتیجہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سے محفوظ کیسے رہا جائے جب کہ یہ جذبے اتنے فطری ہیں کہ ان سے مفر نہیں۔
میں یہ کہتے ہوئے اک ذرا بھی نہیں ہچکچاؤں گا کہ اس بحث سے میری مراد حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اتفاق رائے سے کیے گئے وہ فیصلے ہیں جن میں سے کچھ ملک میں جاری بلکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے فوری طور پر نافذ العمل ہیں۔ باقی ہونے جارہے ہیں۔ میں نے اس دن رات گئے وزیراعظم کی تقریر سنی اور اس میں موجود 20 نکات کو تقریباً حفظ کرلیا کیوں کہ معاملہ نہایت حساس اور مستقبل کا ہے لہٰذا میں بلا تاخیر تمہید ان تمام فیصلوں پر، سیاسی جماعتوں کو یکجہتی اور یکسوئی پر، عسکری قیادت کو انتہائی بہادری اور شجاعت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ملک و قوم کی حفاظت کرنے پر مبارکباد کا مستحق سمجھتا ہوں۔
تمام فیصلے سریع الاثر ہیں، بروقت ہیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ اس ایک نقطے پر پوری قوم متحد ہے کہ دہشت گردوں کی دہشت گردی کو مزید کسی صورت برداشت نہیں کریںگے۔ قوم کا ہر فرد کہہ رہا ہے Enough is Enough بڑا مثبت اشارہ ہے ملک کے مختلف طبقات کا اکٹھا ہونا اﷲ پاک ان سب کو ہم سب سمیت فتح مبین عطا فرمائے (آمین)
لیکن اس معاملے کو ایک مزید پہلو سے دیکھنے کی بھی کم ازکم مجھے ضرورت محسوس ہورہی ہے اور وہ ہے ''دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ'' یعنی ہمارے تمام فیصلوں کو ہمارا ذہن کنٹرول کرے اور ہم اپنے جذبوں کو تحت الشعور کے حوالے کرنے کے بجائے مکمل شعور کے ساتھ اور اپنے حواس میں رہ کر پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ ہمیں کہیں پر بھی جذباتی نہیں ہونا چاہیے بالخصوص میڈیا پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کو مشتہر نہ کرے جن سے حکومتی و عسکری حکمت عملی عیاں ہو۔
مثلاً میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ اس ضمن میں سناتا ہوں۔ چند روز قبل وزیر داخلہ نے نان بائی ایسوسی ایشن کے عہدیداران کو ایک NOTICE کے ذریعے سے مطلع کیا کہ وہ ایسے افراد پر نظر رکھیں جو ایک وقت میں زیادہ نان پکواکر لے جا رہے ہوں۔ چوہدری صاحب نے غالباً یہ حکم اس لیے جاری کیا کہ دہشت گردوں کا کوئی گروہ اس کارروائی کے نتیجے میں پکڑا جائے۔ نان بائی یونینوں نے حکم سنا اور حکومت کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا لیکن مذکورہ خبر جوں کی توں ٹی وی چینلز پر آگئی۔ جس سے حکومتی حکمت عملی غیر موثر ہوگئی اور احتیاط بے مانع رہی لہٰذا حکومت کو جنگ کے اس فیصلہ کن مرحلے پر مکمل احتیاط اور رازداری سے کام لینا چاہیے جب کہ سرعت اور خاموشی سے اپنے فیصلوں پر عمل کرے۔ نیز کیے گئے فیصلوں میں اگر کوئی قانونی سقم موجود ہے تو سب سے پہلے اسے دور کرلینا چاہیے تاکہ تاخیر نہ ہو۔
علاوہ ازیں اگر بات کھل ہی گئی ہے تو یہ کہنے میں حرج نہیں کہ آپ پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف محاذ پر متحد ہوکر اپنے گرد و پیش پر نظر رکھے اور خلاف معمول کسی بھی معاملے پر ضلع انتظامیہ کو مطلع کرے۔ عزیزان گرامی یہ Communication اور میڈیا کا دور ہے۔ اگر ہم اب بھی ان گنے چنے دہشت گردوں سے ہار گئے تو دنیا ہمیشہ ہمارا مذاق اڑاتی رہے گی، ہم پر طعنہ زن رہے گی۔ میں آپ کو خوف زدہ کیے بغیر بتانا چاہتاہوں کہ اگر حکومت نے فیصلے کیے ہیں تو دہشت گردوں نے بھی کیے ہوںگے۔ پشاور کے ''آرمی پبلک اسکول'' کے بعد بہت سے اسکول، مساجد Public Places نظر میں رکھے ہوئے ہوںگے۔ وہ خالی ہاتھ اور خالی ذہن ہوں!!! کسی طور ممکن نہیں۔
اس مرحلے پر ایک اور چیز جس کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہورہی ہے وہ ہے ''Think Tank'' ایسے افراد پر مشتمل جو کسی بھی معاشرے کے ''Genious'' ہوتے ہیں مثلاً ڈاکٹرز، ٹیچرز، ماہر نفسیات، یونیورسٹی کے ڈینز، دانشور، ادیب، جو اذہان کو ایک عام شخص سے زیادہ بہتر طور پر پڑھ لیتے ہیں جیسے ایک ٹیچر دراصل کردار ساز ہوتا ہے اور ایک بچے کو اس عمر سے پڑھانے کے ساتھ پڑھتا ہے جب وہ بہت کم سن ہوتا ہے بلا شبہ ہم پختہ کار ہوجانے کے بعد اپنے والدین اور اساتذہ کی تربیت ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک دانشور جو معاشرے کا پیش بین ہوتا ہے اور ایک ڈاکٹر جو انسانی نفسیات کا جائزہ کئی ایک حالتوں میں لیتا ہے۔
اگر کوئی تجویز پر تنقید کرتا ہے کہ ایسا ''Think Tank'' بنانے سے دہشت گردی کے خاتمے کا کیا تعلق ہے تو میں نسبتاً سادہ الفاظ میں اسے بتانا چاہتاہوں کہ دہشت گردی کو بھی دہشت گردوں کے ساتھ دفن ہوجانا چاہیے اور اس میں ایسے با کمال و اہل ہنر لوگوں کی آراء و تجاویز ترقی یافتہ ملکوں میں حتمی تصور کی جاتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں ملکی، صوبائی اور ضلع سطح پر ''Think Tanks'' قائم کرنے چاہئیں جو دہشت گردی کے خاتمے سمیت بہت سے مسائل کے عمدہ حل کے لیے ہمارا اثاثہ ثابت ہوں گے۔
یہاں اگر قارئین کرام مجھے موضوع بدلنے کی اجازت مرحمت فرمائیں تو عرض ہے کہ ان دنوں پاکستان پیپلزپارٹی کئی ایک داخلی و خارجی بحرانوں کا شکار ہے لگتا ہے کہ جو چند ماہ سے زمانے کے نشیب و فراز دیکھ رہے تھے وہ الجھنوں سے باہر آگئے اور جو باہر سے Enjoy کررہے تھے وہ اب گردش لیل و نہار میں ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری سے ناراض ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور کے وفادار ساتھیوں کو نظر انداز کرکے ایسے نئے لوگوں کو جماعت میں عہدے دے رہے ہیں جن کی جماعت کے لیے قربانیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت کی درست اپوزیشن بھی نہیں کی جا رہی جس کے باعث پارٹی کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔
وہ حکومت سندھ کی کارکردگی اور سندھ میں پارٹی کی حکمت عملی سے بھی نالاں ہیں۔ دوسری طرف آصف علی زرداری برخوردار سے متفق نہیں اور کہتے ہیں کہ محترمہ شہید کے بعد پارٹی میں سینئر وہ ہیں لہٰذا قیادت کا حق بھی ان ہی کو حاصل ہے۔ نیز بلاول ابھی طفل مکتب ہیں، دوستوں کو ناراض کردیتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مفاہمانہ سیاست کے بادشاہ اب اپنے گھر میں کیا مفاہمت کرتے ہیں؟ کیوں کہ بلاول تو محترمہ کی برسی تک میں شریک نہیں ہوئے۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ کسی پر تنقید صرف اس وقت کرتے ہیں جب وہ Seat پر نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ اولاد بھی۔ ارے بھائی آپ پچھلے دور حکومت میں کیا کررہے تھے؟ کاش آپ نے اس وقت بھی یہ ناراضگی اختیار کی ہوتی تو زمانہ آج اسے نورا کشتی قرار نہ دے رہا ہوتا۔