پاکستان میں اسلامی حکومت کا قیام
ایک سروے کے مطابق پچانوے فیصد سے زائد مسلمانوں نے تو قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھا۔
پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے میں اب تک ناکامی کیوں ہوئی؟ اور یہاں کس طرح اسلامی نظام قائم کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب دینا آسان نہیں، اس ضمن میں راقم نے ایک ایسی تقریب میں شرکت کی جہاں اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے کوشش کرنیوالی جماعتوں کے نمایندوں نے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
عاصم آزاد تحریک اسلامی سے وابستہ ایک سرگرم اور پرجوش شخصیت کے مالک ہیں، گزشتہ ہفتے ان کی جانب سے تحریک اسلامی کے ایک سالانہ اجلاس کا دعوت نامہ موصول ہوا جس میں جماعت اسلامی کی جانب سے منور حسن اور تنظیم اسلامی کی جانب سے شجاع الدین شیخ بھی مدعو تھے اور اظہار خیال کا عنوان تھا، ''پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی راہیں؟'' حال کے اعتبار سے یہ موضوع انتہائی اہمیت کا حامل تھا چنانچہ ہم اپنے ایک کالم نگار دوست کے ہمراہ اس تقریب میں شریک ہوئے۔
اس تقریب میں تحریک اسلامی کی جانب سے تسنیم احمد اور امیر تحریک حافظ سید زاہد حسین نے نہایت اہم اور قابل توجہ نقاط بیان کیے اور ایک اچھا تجزیہ پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی ناکامی پر کیا اور اس ضمن میں بحیثیت مسلم اپنی کوتاہی اور ذمے داریوں سے بھی آگاہ کیا، ایسا ہی تجزیہ منور حسن، سابق امیر جماعت اسلامی نے بھی کیا، تسنیم احمد نے بحیثیت مسلم اس ناکامی کا اعتراف کیا کہ رول ماڈل کے طور پر ہم مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مثالی مسلمان پیش نہیں کر سکے۔ ہم صرف پارلیمنٹ تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے، ہماری دعوت تمام شعبہ ہائے زندگی تک نہ پہنچ سکی۔
یہاں میں شجاع الدین شیخ (جن کا تعلق تنظیم اسلامی سے ہے)، کا تجزیہ مختصراً پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جس سے بلا شبہ اختلاف کی جا سکتا ہے مگر اس پر غور و فکر بھی کیا جا نا چاہیے۔ شجاع الدین کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک کسی ریا ست میں اسلامی نظام لانے کے لیے عموماً کئی طریقے ہوتے ہیں، ایک دعوت، دوسرا نصرت، تیسرا انتخابات، چوتھا قتال اور پانچواں تحریک۔ پاکستان کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ محض دعوت دینے سے اسلامی انقلاب نہیں آ سکتا یا دعوت دینے کا کام کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے سے اسلامی نظام حکومت کا قیام ممکن نہیں۔
لہٰذا اس تناظر میں بڑے بڑے اجتماع کے باوجود تبلیغی جماعتیں اجتماعی معاملات کے حوالے سے ایسی تبدیلی نہیں لا سکیں دوسرے طریقے کے مطابق نصرت سے بھی تبدیلی کے آثار ممکن نظر نہیں آتے کیونکہ اس طریقے کے تحت کسی کی مدد سے طاقت کا آ جانا جیسے کسی فوجی قوت کا ساتھ ہو جانا، مگر موجودہ تناظر میں کسی ایک قوت (یعنی فوج) کی نصرت بھی کافی نہ ہو گی کیونکہ اب پارلیمنٹ، فوج، میڈیا وغیرہ جیسی کئی قوتیں مقابلے پر ہیں۔ اسی طرح انتخابات کا واحد طریقہ یا اس میں کامیابی بھی اس ملک میں اسلامی نظام لانے کے لیے کافی نہ ہو گی کیونکہ اب ریاست میں صرف پارلیمنٹ ہی واحد قوت نہیں ہوتی، اس حوالے سے انھوں نے یہ بھی کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں اسلامی نمایندوں کی ایک بڑی تعداد پارلیمنٹ میں تھی مگر اسلامی نقطہ نظر سے اس دور میں بدترین اقدامات ہوئے۔
یہاں تک کے حدود جیسے معاملات کو متنازعہ بنا دیا گیا جب کہ سو کے قریب دینی جماعتوں کے نمایندے اسمبلی میں موجود تھے۔ قتال (جہاد) کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ طالبان افغانستان کا معاملہ الگ ہے، ان پرتو جنگ مسلط کی گئی تھی اور ان کی امارت اسلامی کو ختم کیا گیا تھا چنانچہ ان کے لیے قتال کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکی جنگ میں ہم نے امریکا کا بھر پور ساتھ دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس کی وجہ سے ہمارے قبائلی علاقوں میں بے شمار بے گناہ شہری، عورتیں اور بچے ہمارے ہی ملک سے حملہ کر کے شہید کیے گئے۔ پاکستان کی صورتحال کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ قتال کی بھی شرائط ہیں، امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب حکمران کفر کا حکم کھلم کھلا دیں اور آپ کے پاس مقابلے کی نہ صرف پوری تیاری ہو بلکہ کامیابی کا غالب امکان ہو تب اس کی گنجائش نکلتی ہے۔
لہذا پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے یہ طریقہ بھی درست نہیں ہو سکتا۔ البتہ پرامن تحریک کے ذریعے پاکستان میں شریعت کے نفاذ میں کامیابی کے قوی امکانات ہیں اور پاکستان میں اس کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جس میں ختم نبوت کی تحریک اور ناموس رسالت کے قانون کے حوالے سے چلنے والی تحریکیں شامل ہیں کہ جب علماء اور عوامی اتحاد کے باعث بہت بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں، پھر وکلاء کی کامیاب تحریک بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی دباؤ اور تحریک کے آگے حکمرانوں کو آخر کار گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہاں بلٹ اور بیلٹ کے ذریعے یہ کام نہیں ہو سکتا، یہاں ایک سروے کے مطابق پچانوے فیصد سے زائد مسلمانوں نے تو قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھا، لوگوں کو دین کے قریب لا کر شریعت کے نفاذ کے مطالبے کی تحریک لانے پر حکمرانوں پر حقیقی دباؤ پڑ سکتا ہے اور وہ عوام کے دباؤ کے آگے مجبور ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے اس کے ساتھ ہی منہاج انقلاب نبوی کو بھی بیان کیا کہ اللہ کے رسول نے بھی جس طریق پر یہ کام کیا تھا آج بھی اسی طریقہ پر یہ کام کیا جا سکتا ہے۔
جس میں دعوت، تنظیم، تربیت، صبر محض، اقدام اور تصادم شامل ہیں۔ البتہ تصادم موجودہ حالات کے مطابق پر امن تحریک کے انداز میں ہو گا جس میں تشدد کا عنصر شامل نہ ہو۔ انھوں نے بتایا کہ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد نے تقریباً تیس سال قبل پر امن عوامی تحریک کے ذریعے نفاذ شریعت کے مطالبہ کا جو طریقہ پیش کیا اسی طریقے پر اپریل2010ء میں مکتبہ دیوبند کے علماء اور سیاسی قیادت کے جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہونے والے اجتماع میں بھی زور دیا گیا جس میں بیلٹ اور بلٹ کے بجائے پر امن عوامی تحریک کے ذریعہ نفاذ شریعت کی جدوجہد پر اتفاق ہوا تھا۔
بادی النظر میں شجاع الدین کی باتیں قبل توجہ اور قابل فہم ہیں ان پر غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں کالم کے اختتام میں امیر تحریک حافظ سید زاہد حسین کی ایک بات کا خاص ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، انھوں نے کہا کہ تحریک سے وابستہ افراد کو اجتماعی اور انفرادی طور پر مکمل عملاً اچھا مسلمان ہونا چاہیے۔ آج ہمارا ایک بڑا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو دین کی باتیں کرتے ہیں عملاً وہ خود بھی با عمل مسلمان نظر نہیں آتے، محض چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی دنیاداری ان پر غالب نظر آتی ہیں، نہایت معذرت اور ادب کے ساتھ! آیے ہم سب اس پر بھی غور کریں۔