خوشبو کے روپ میں اے پھولو تم زندہ ہو
کوئٹہ میں ہونے والے اس کل پاکستان مشاعرے کی جس کا موضوع ’’شہدائے پشاور کی یاد میں‘‘ تھا۔
یہ 2014ء کا آخری کالم ہے کہ اگلے کالم کے وقت 2015ء کا آغاز ہو چکا ہو گا، خیال تھا کہ اس میں ''الوداع'' اور ''خوش آمدید'' کے حوالے سے حقائق اور توقعات کو موضوع بنا کر کچھ بات کی جائے مگر پھر یاد آیا کہ 26 دسمبر دو عہد ساز شعرا منیر نیازی اور پروین شاکر کی برسی اور 27 دسمبر پیرو مرشد مرزا غالب کی پیدائش کا دن بھی ہے سو ان پر بھی ضرور کچھ بات کرنی چاہیے لیکن 25 دسمبر کی رات کوئٹہ کلب میں شہدائے پشاور کی یاد میں جو مشاعرہ ہوا اس نے صورت حال کچھ ایسی کر دی ہے کہ اپنی نوعیت، اہمیت اور ہمہ گیر اثرات کے باعث زیادہ تر بات اسی پر کرنی بنتی ہے، سو پہلے چند مختصر سے تاثرات ان تین ہستیوں کے بارے میں اور پھر کوئٹہ میں منعقد کیے جانے والے شہدائے پشاور کی یاد میں مشاعرے کا احوال۔
یہ تینوں خاتون و حضرات چونکہ شاعر ہیں اس لیے میں صرف ان کے تین تین منتخب اشعار درج کرنے پر ہی اکتفا کروں گا کہ یہ لوگ ایک کالم تو کیا کئی کتابوں میں بھی نہیں سمٹ پاتے۔ سو لیڈیز فرسٹ کے رواج کے مطابق آغاز پروین شاکر مرحومہ سے کرتے ہیں جس نے اس دنیا سے پردہ کرنے سے کچھ دن قبل ہی یہ شعر کہا تھا کہ
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی، اس نے کمال کر دیا
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کُھلتیں
سر تا پا شاعر اور اپنے منفرد اور خوبصورت ڈکشن کے حامل منیر نیازی کا معاملہ کچھ اس طرح سے ہے کہ
کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں، جیسے خوشبو پھول میں
منیر اس ملک پر آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے!
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
جب کہ پیر و مرشد مرزا اسد اللہ خان غالب اپنے اشعار کے اندر سے یوں ہم کلام ہوتے ہیں کہ
اپنے پہ کررہا ہوں قیاس اہل دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاع ہنر کو میں
پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا
افسون انتظار، تمنا کہیں جسے
ہر نفس، ہر یک نفس جاتا ہے قسطِ عمر میں
حیف ہے ان پر جو کہویں ''زندگانی مفت ہے''
اور اب بات کرتے ہیں کوئٹہ میں ہونے والے اس کل پاکستان مشاعرے کی جس کا موضوع ''شہدائے پشاور کی یاد میں'' تھا۔ ماضی میں بلوچستان سے شاعری کے ذریعے رابطہ بنیادی طور پر جشن سبی سے متعلق تھا بعد میں محترمہ ثاقبہ رحیم الدین کے قلم قبیلہ پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر اور کچھ اور حوالوں سے بھی شعر و ادب سے متعلق سے اکا دکا تقریبات منعقد ہوئیں لیکن ان میں جو معیار اور تسلسل گزشتہ چند برسوں میں کوئٹہ کی بگڑی ہوئی صورت حال کے باوجود دیکھنے میں آیا ہے وہ بلاشبہ مثالی ہے اور اس کا کریڈٹ اگرچہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کو جاتا ہے ۔
جن میں بلوچی کے مشہور ادیب اور سابق بیورو کریٹ منیر بادینی کا نام سرِفہرست ہے جن کے تعاون سے عزیزی نوید حیدر ہاشمی نے کوئٹہ رائٹرز فورم اور ادبی جریدہ ''حرف'' کے بینرز تلے پروگراموں کا مسلسل انعقاد کیا ہے کہ اب کوئٹہ باقاعدہ طور پر ادبی مراکز کی Main Stream میں داخلے کا حق دار ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس سرزمین سے ''جام ورک، مست توکلی، میر گل خاں نصیر، عطا شاد، عین سلام، ڈاکٹر شاہ محمد مری، منیر بادینی، طاہر محمد خان، ایوب بلوچ، آغا ناصر، بیرم غوری، ریاض ندیم نیازی، محسن چنگیزی، سرور جاوید، ہاشم ندیم، افضل مراد، صدف چنگیزی، حاوی اعظم' عابد شاہ عابد، تاج رئیسانی، محسن شکیل اور دیگر بہت سے ایسے ادیبوں اور شاعروں نے جنم لیا ہے ۔
نوید حیدر ہاشمی کا کمال یہ ہے کہ اس نے ادیبوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور اب فوج کو بھی اس حد تک متحرک کر دیا ہے کہ گزشتہ محفل میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پیش پیش تھے اور اس بار نہ صرف گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے بلکہ صدر مملکت ممنون حسین صاحب اور کور کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ بھی شریک محفل تھے۔ ابتدائی طور پر یہ تقریب 25 دسمبر کو یوم قائد کے حوالے سے ایک مشاعرے کی شکل میں ترتیب دی گئی تھی مگر 16 دسمبر کو سانحہ پشاور کے باعث اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ جب نوید حیدر ہاشمی اور اس کے رفقاء نے جنرل صاحب کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ اسے سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کی یاد سے مربوط کر دیا جائے ۔
اس تجویز کو منظور تو کر لیا گیا مگر اتنی کم مدت میں ازسرنو تمام انتظامات کا اہتمام یقینا بے حد مشکل تھا کہ جائے مشاعرہ کا انتخاب، حالات کے پیش نظر سیکیورٹی انتظامات، شعرا اور مہمانوں کی آمدورفت، ان کے ٹھہرانے کے انتظامات، دھند کے باعث پروازوں کی صورت حال وغیرہ، ایسے معاملات تھے جو کم از کم کوئٹہ رائٹرز فورم انجمن ترقی پسند مصنفین بلوچستان اور ادبی جریدہ ''حرف'' کے بس سے باہر تھے سو فوج یہاں بھی کام آئی اور کوئٹہ کلب کے خوبصورت ہال میں یہ مشاعرہ ترتیب پایا لیکن مشاعرے کے مجوزہ صدر یعنی مجھے کوئٹہ پہنچنے میں جن نشیب و فراز سے گزرنا پڑا اس کی روداد بھی بہت دلچسپ ہے۔
مجھے 25 دسمبر کی دوپہر 11:50 پر پی آئی اے سے روانہ ہونا تھا۔ گھر سے نکلنے سے پہلے میں نے احتیاطاً نجی ایئرلائن کے مقامی افسر اعلیٰ برادرم ریٹائرڈ ایئرکموڈور خالد چشتی کو فون کیا کہ ذرا اپنے ذرایع سے پتہ کروادیں کہ پرواز کی کیا پوزیشن ہے اور کیا وہ اپنے مجوزہ وقت پر روانہ ہو جائے گی۔ ان کا جوابی فون آیا کہ پرواز کی سرے سے کوئی پوزیشن ہی نہیں کیونکہ اسے کینسل کر دیا گیا ہے اور یہ کہ آج کوئٹہ جانے کے لیے کوئی دوسری پرواز بھی ممکن نہیں۔ میں نے فوراً میزبان خاص نوید حیدر ہاشمی کو اس گھٹنا کی اطلاع دی جس کو سن کر اس کے ہاتھوں کے داستانوی طوطے اڑ گئے۔ کوئی آدھ گھنٹہ بعد اس کا فون آیا کہ شام چار بجے لاہور سے کراچی جانے والی نجی ایئرلائن کی پرواز سے میری بکنگ کا انتظام ہو گیا ہے وہاں سے مجھے آرمی یا فضائیہ کا کوئی چھوٹا جہاز کوئٹہ پہنچا دے گا جس کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
کوئی پندرہ منٹ کے بعد اس کا ایک اور فون آیا کہ آئی جی بلوچستان اپنے چھ سیٹوں والے سیسنا طیارے میں لاہور سے کوئٹہ آ رہے ہیں اور اس میں میرے ساتھ ساتھ صغرا صدف اور رخسانہ نور کے لیے بھی سیٹوں کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ فوراً پرانے لاہور ایئرپورٹ کے PAF والے گیٹ پر پہنچ جائیں۔ آئی جی صاحب آپ لوگوں کے انتظار میں ہیں۔ میرے علم میں نہیں تھا کہ متعلقہ آئی جی املیش صاحب ہیں جن سے میں کچھ عرصہ قبل برادرم اطہر مبارک کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات کر چکا ہوں سو اس خوشگوار مسرت کی فضا میں پرواز کے تین گھنٹے پلک جھپکتے میں گزر گئے۔
ایک تو موضوع ایسا تھا جس کی جذباتی اہمیت اور شدت سے سامعین کے دل پہلے سے بھرے ہوئے تھے اس پر شعرا نے جس متاثر کن اور درد مندانہ انداز میں اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا اس نے پوری محفل کو تین گھنٹے تک اپنی لپیٹ میں لیے رکھا اور قومی اتحاد کی ایک ایسی کمیاب فضا دیکھنے میں آئی جس نے ہر طرح کے فاصلے مٹا دیے اور ان بچوں کی شہادت کا غم ہر دل کا سانجھا دکھ بن کر چاروں طرف پھیل گیا اور ہر دل سے یہی آواز اٹھی کہ
جب تک دنیا باقی ہے تم زندہ ہو
اے میرے وطن کے شہزادو تم زندہ ہو
خوشبو کے روپ میں اے پھولو تم زندہ ہو
تم زندہ ہو۔ تم زندہ ہو