شاباش احمدؐ کے غلام

آج بھی سیکولر، عدم تشدد اور لبرل ازم کے غبارے کو عشقِ رسول کی چنگاری نے پھاڑ دیا ہے


[email protected]

وہ تین بھائی ہیں اور سب کے سب سیاست دان۔ بڑے لبرل اور سیکولر۔ الیاس، بشیر اور احمد۔

ان میں سے ایک وفاقی وزیر ہیں۔ ان وزیر صاحب نے ایک زوردار دھماکا کردیا ہے۔ سچ مچ کا نہیں بلکہ ایک بیان دے کر۔ انھوں نے ایسی بات کہی کہ حکومتِ پاکستان بھی پریشان ہوگئی ہے تو امریکا بہادر ناراض ہوگیا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے کہا کہ ''جو شخص رسول اکرمؐ کی شان میں گستاخانہ فلم بنانے والے کو قتل کرے گا وہ انھیں ایک لاکھ ڈالر دیں گے۔''

یہ بیان زوردار اس لیے ہے کہ یہ ایک سیکولر پارٹی کے اہم لیڈر کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ پہلے ہم پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے انداز دیکھیں گے اور پھر عشق رسولؐ کی بات کریں گے اور آخر میں اندازہ لگائیں گے کہ سیکولر ازم کے غبارے سے ہوا کون سی چنگاری نکالتی ہے؟

اسلام، مذہبی پارٹیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ مسلم لیگیں اسے زندگی کا اہم حصّہ تو سیکولر پارٹیاں مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں۔ ایسی پارٹیوں میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی شامل ہیں۔ اب اسفندیار ولی کا ساتھی، ولی خان کا پرستار اور باچا خان کو سیاسی رہنما ماننے والی پارٹی کا اہم لیڈر ایسا بیان دے تو اسے دھماکا خیز ہی کہنا چاہیے۔ اگر جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام کے کسی رہنما نے ایسا بیان دیا ہوتا تو کوئی خاص بات نہ ہوتی۔ اگر کسی مسلم لیگ کے لیڈر نے انعام دینے کا اعلان کیا ہوتا تو یہ قابلِ ذکر بیان نہ ہوتا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ الفاظ ایسے لیڈر کی زبان سے ادا ہوئے ہیں جو مذہبی معاملات میں بچ بچا کر چلتے ہیں۔

عشقِ رسولؐ کی چنگاری ہر مسلمان کے دل میں سلگتی رہتی ہے، چاہے مسلمان کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو، چاہے وہ شرابی ہو یا زانی، جب احمدِ مجتبیٰؐ کی شان میں گستاخی سامنے آئے گی تو وہ اپنے گناہوں کے ٹوکرے کو ایک طرف رکھ کر شاتمِ رسول کو جہنم واصل کرنے کی طرف چل پڑتا ہے۔ مسلمان چاہے نماز روزے کا پابند نہ ہو لیکن جب اس کے علم میں آتا ہے کہ اس کے آقا کو، اس کے ہادی کو برا بھلا کہا جا رہا ہے تو پھر وہ اپنی حرارت جانچنے والوں کو بتا دیتا ہے کہ ابھی آتشِ عشق بجھی نہیں۔ اس دبی دبی سی چنگاری میں شعلہ ہے جو بھڑک جانے میں کبھی دیر نہیں لگاتا۔ یہی کچھ احمدؐ کے غلام اور وفاقی وزیر غلام احمد بلور نے کیا۔

وفاقی وزیر سے ریلوے کو نہ سدھارنے کی شکایتیں تھیں۔ ایک رعایت یہ تھی کہ ان سے قبل کے ریلوے کے وزیروں نے خوب کرپشن کی تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ بھارت کے لالو پرشاد نے اسی وزارت کو سنبھال کر بھارتی ریلوے کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ ان اچھائیوں اور برائیوں کے درمیان اور انسانی خوبیوں اور خامیوں کو ساتھ لیے یہ ساڑھے پانچ چھ فٹ کا آدمی کبھی کچھ کہہ جاتا ہے۔ ہم آپ میں سے کوئی کہتا کہ ''ٹیری جونز کو قتل کرنے والے کو انعام دیں گے'' تو اس کی اہمیت نہ ہوتی۔ ایک وفاقی وزیر اور وہ بھی سیکولر پارٹی اور عدم تشدد کی بات کرنے والے کے بیان کی بڑی اہمیت ہے۔

غلام احمد بلور کے اس بیان نے پاکستان کی کابینہ میں لرزہ اور اے این پی میں زلزلے کا سا سماں پیدا کردیا ہے۔ جب اسفندیار ولی کی صدارت میں باچا خان کے پیروکار اس مسئلے پر گفتگو کریں گے تو سیکولر ازم منہ تکتا رہ جائے گا۔ جب عشقِ رسولؐ حاوی آجائے گا تو لبرل ازم کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ جب امریکا اس وزیر سے بیان واپس لینے یا استعفیٰ لینے کی بات کرے تو دیکھا جائے گا کہ احمدؐ کا غلام یہ بازی جیتتا ہے یا امریکا کی غلامی میں بازی لے جانے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ بلور نے وہ بات کہی ہے کہ وہ جیت گئے تو کیا کہنا اور ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔

سیکولر ازم کا غبارہ ہو یا لبرل ازم کی فٹ بال، ہوا بھر کر انھیں بڑا کرنے والوں نے مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ریاست کا فرد کے مذہبی معاملات سے کوئی واسطہ نہیں۔ مغرب نے آزادیٔ رائے کے نام پر رسول اکرمؐ کی شان میں گستاخیوں کی سیریز شروع کردی۔ قرآن پاک کو جلانے کی جسارت کرکے مسلمانوں کے ٹمپریچر کو آزمانا چاہا۔ انھیں پتہ چلا کہ مسلمانوں میں عشقِ رسولؐ کی حرارت کی شدّت اتنی ہے جو ناپی نہیں جاسکتی۔ اس کو کسی ہندسے یا وزن کے کسی پیمانے سے ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ باہر والے بار بار گستاخی کرکے چاہتے ہیں کہ مسلمان اسے روز کا معمول سمجھ کر خاموش ہوجائیں یا اسے روٹین کی ایک چیز سمجھ کر بے حس ہوجائیں۔ غلامی رسول کے نام پر امریکا کے غلام مطلب خیز اور ذومعنی الفاظ میں تھپتھپی دے کر سلانے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن کیا کریں کہ ان کے اپنے اندر کا آدمی جو ابھی تک غلام احمد نظر آرہا تھا اس نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔ ایسی بات کہہ دی کہ پاکستان کا ایوانِ صدر اور امریکا کا وائٹ ہائوس آج سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ شاید کل سرجوڑ کر بیٹھ جائیں۔

غلام احمد بلور نے اپنا بیان واپس لینے سے انکار کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ مسلمان، پاکستانی اور پختون ہوتے ہوئے یہ بیان واپس نہیں لے سکتے۔ یہ تین الفاظ کی ترتیب ہے جو ہماری ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ پہلے مسلمان، پھر پاکستانی اور پھر کچھ اور۔ جب اے این پی کے ایک لیڈر کے بیان، سیاسی پارٹیوں کی قسموں، سیکولر ازم و لبرل ازم کے غبارے اور سب سے بڑھ کر عشقِ رسولؐ کی بات ہورہی ہے تو اس مرحلے پر ایک غلط فہمی دور ہوجائے۔ کہا جاتا ہے کہ ہم چودہ سو سال سے مسلمان، ساٹھ ستر سال سے پاکستانی اور چار پانچ ہزار سال سے سندھی، پٹھان اور بلوچ ہیں۔ اسلام، حضرت آدمؑ کے دور سے ہے۔ حضورؐ آخری نبی ہیں۔ حضرت موسیٰؑ و عیسیٰؑ کے بعد ان کے حواریوں نے اپنے مذاہب کو یہودیت و عیسائیت کا نام دیا۔ تمام پیغمبروں نے اسلام کی دعوت دی ہے ۔

لہٰذا کوئی قومیت اسلام سے قدیم نہیں، کوئی دین محمد عربیؐ کے دین سے جدید نہیں اور کسی مسلمان کا دل عشقِ رسول سے خالی نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی رسولؐ کی حرمت پر آنچ آئی، بظاہر اچھے نظر آنے والے مسلمان دیکھتے رہ گئے اور اکثر ترکھانوں کے بیٹے ہی بازی لے گئے ہیں۔ آج بھی سیکولر، عدم تشدد اور لبرل ازم کے غبارے کو عشقِ رسول کی چنگاری نے پھاڑ دیا ہے۔ گالی دینے والے کو تھپڑ مارنا کوئی تشدد نہیں۔ توہینِ رسالتؐ پر منافقت کو مذہبی رواداری کے پردے میں نہیں چھپایا جاسکتا۔ ویل ڈن غلام احمد بلور۔ شاباش احمدؐ کے غلام۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں