بات کچھ اِدھر اُدھر کی خدا کے لیے بچوں کی شادیاں جلدی کیجئے

ہمارے ہاں بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ بنانے کی تو اجازت کسی حد تک ہے مگر بیس سال کی عمر میں بچوں کے نکاح سے جان جاتی ہے۔


عثمان فاروق December 28, 2014
والدین سے گزارش ہے کہ خدارا اسٹیٹس، نوکری، جہیز کی وجہ سے شادیوں میں دیر نہ کریں۔ ہمارے معاشرے میں اولاد ادب کی وجہ سے خاموش رہتی ہےلیکن آپ شادی میں تاخیر کرکے نہ صرف ظلم کررہے ہیں بلکہ اسکی حق تلفی بھی کررہے ہیں۔ فوٹو: فائل

بچوں کی دیر سے شادی کرنا ہمارا معاشرتی رواج بنتا جارہا ہے ۔شادی میں دیر کے اصل ذمہ داری والدین ہوتے ہیں جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں اپنی اولادوں کو بوڑھا ہونے تک بٹھائے رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اوسط عمر تقریباً 65 سال ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں پہلے پچیس چھبیس سال تو تعلیم حاصل کرنے میں گزرجاتے ہیں جبکہ اگلے چار سال نوکری کی تلاش اور شادی کے لیے پیسہ جمع کرنے میں گزرجاتے ہیں ۔

اسوقت تک انسان کے کنپٹیوں کے بال یا تو سفید ہو چکے ہوتے ہیں یا پھر سر ویسے ہی ائیرپورٹ بن چکا ہوتا ہے۔( سر کے ائیرپورٹ بننے کا مطلب ویسا سر جیسا میاں نوازشریف صاحب کا 1999سے پہلے تھا) چہرے پر بڑھاپے کی لکیروں کی آمد آمد ہوتی ہے تب والدین اپنے ''لڑکے'' کے لیے چاند سی دلہن کی تلاش شروع کرتے ہیں گویا لڑکے کی آدھی سے زائد عمر گزر چکی ہوتی ہے جوانی کا عالم نزع شروع ہوچکا ہوتا ہے ایسے حالات میں خدا خدا کرکے شادی ہوتی ہے اور شادی کے چند دن بعد ہی والدین کی طرف سے شکایتیں آنی شروع ہو جاتیں ہیں کہ
''آئے ہائے شادی کے بعد تو بیٹے نے ہم کو بھلا ہی دیا ۔شادی کے بعد تو دلہن نے بیٹے پر قبضہ کرلیا '' ۔

تو ایسے والدین سے گزارش ہے کہ اگر آپ نے وقت پر اپنے بیٹے کی شادی کی ہوتی تو شاید حالات مختلف ہوتے ۔آپ جب بیٹے کی آدھی عمر گزار کر شادی کریں گے تو بیٹا پھر دلی طور پر والدین کو مجرم سمجھنے لگتا ہے۔ شادی انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے انسان کو مکمل ہونے کے لیے ایک شریک حیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا جب برسوں بعد انسان کی شادی ہوتی ہے اسکی زندگی میں ایک پیار کرنے والی بیوی آتی ہے جو اسکو عزت اور محبت دیتی ہے تو لازماً پھر والدین سے توجہ ذرا کم ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں والدین ان تمام ''باریکیوں '' کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نئی آنے والی لڑکی کے دشمن ہو جاتے ہیں کہ اس نے ہمارے بیٹے کو ہم سے چھین لیا ۔ یہ تو لڑکوں کی شادی کے حالات ہیں آجکل بیٹیوں والے بھی کچھ مختلف نہیں ہیں ۔ایک طرف تو جہیز کی لعنت کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں دلوں میں پیا گھر کے لاکھوں ارمان سجائے بابل کے آنگن میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف اکثر بیٹی کے والدین آسمان سے اترے کسی شہزادے کی تلاش میں جان بوجھ کر بیٹی کو گھر میں بیٹھائے رکھتے ہیں۔

نواز حکومت کے پچھلے دور میں شادیوں میں کھانے پر پابندی لگانے کا ایک بہترین اقدام ہوا تھا جس کی وجہ سے بہت سے سفید پوش افراد عزت کے ساتھ اپنی بیٹیوں کو بیاہنے کے قابل ہوئے تھے ۔آج ایک بار پھر حکومتی سطح پر ایسے کڑے قوانین کی ضرورت ہے کہ شادی پرکھانے اور جہیز پر مکمل اور سخت پابندی لگائی جائے ۔ ہوسکتا ہے اِس مطالبے پر بہت سے لوگ اعتراض کریں لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئیے کہ اس قانون سے کتنے ماں باپ کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ،کتنی بیٹیوں کے گھر آباد ہو جائیں گے ۔

والدین اس بات کی تو اجازت دے سکتے ہیں کہ انکے بیٹے یا بیٹیاں بیس سال کی عمر میں بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ بنالیں لیکن اس بات سے انکی جان جاتی ہے کہ بیس سال کی عمر میں بچوں کا نکاح کردیا جائے ۔اگر ہمارے معاشرے میں اس روایت کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ بیس سال عمر ہوتے ہی بچے یا بچی کا مناسب رشتہ دیکھ کر یا بچوں کی پسند سے ہی انکا نکاح کردیا جائے اور جب وہ مناسب سمجھیں انکی رخصتی کردی جائے اس سے نہ صرف معاشرتی برائیاں کم ہوں گی بلکہ موبائیل فون اور انٹرنیٹ کی دوستیوں نے جو شریف گھروں کا سکون برباد کیا ہوا ہے اس کا بھی سدباب بھی ہوسکے گا ۔

یہ تحریر لکھنے کی بنیادی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ میرے اکثر دوستوں کے ساتھ بھی پیش آرہا ہے کہ انکے والدین انکی شادیاں لیٹ کررہے ہیں حالانکہ اب وہ کماو پوت بھی ہیں ۔ بقول میرے ایک دوست کہ اُس کی عمر اگلے سال ستائیس سال ہوجائے گی مگر اُس کے والدین اُس کی شادی کے بارے میں ابھی نہیں سوچ رہے کہ وہ اُسے کہتے ہیں کہ پہلے کوئی اعلی سرکاری نوکری کرو تمھارے لیے '' ڈاکٹربہو'' لانی ہے۔ اب اُسکے والدین کی اس ''ننھی '' سی خواہش کو پورا کرتے کرتے نہ جانے وہ عمر تک پہنچ جائے گا۔

یادرکھیئے یہ نوجوانوں کا معاشرہ ہے آپ غور کرلیجئے دنیا کے آدھے فسادات انسانی کی اسی نفسانی خواہش کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔ایسے حالات میں میری تمام والدین سے اپیل ہے کہ خدا کا واسطہ ہے اسٹیٹس کو ، نوکری، جہیز وغیرہ کے چکر میں اپنے بچوں کی شادیوں میں دیر نہ کریں بے شک آپکی اولاد شرم اور ادب کی وجہ سے کچھ نہیں بولتی لیکن آپ اسکی شادی میں دیر کرکے نہ صرف اس پر ظلم کررہے ہیں اسکی حق تلفی کررہے بلکہ اسکو برائی کی طرف لے جانے کے ذمہ دار بھی بن رہے ہیں ۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں